"AAC" (space) message & send to 7575

یورپ پہ یوکرین جنگ کی گرفت

جُوں جُوں یوکرین جنگ کے مضمرات کا دائرہ پھیل رہا ہے تُوں تُوں یورپ کے مقدر پہ بے یقینی کے سائے منڈلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ روس اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط اور عالمی تعلقات کو متوازن رکھنے میں زیادہ فعال ہے جبکہ یورپی یونین گہرے افتراق کی طرف ڈھلک رہی ہے۔ جمعہ کے روز صدر ولادیمیر پوتن کے ویگنر گروپ کے سابق کمانڈروں سے خطاب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس نے ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن جو اگست میں ایک طیارہ حادثہ میں دیگر سینئر کمانڈروں سمیت مارا گیا‘ کے بعد اس گروپ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ یوگینی پریگوزن نے جون میں پوتن حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی تھی۔ روس کے کومرسنٹ اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ صدر پوتن کی جمعرات کی رات کریملن میں ویگنر کے کمانڈر تروشیف سے ملاقات ہوئی جسے سرکاری ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا۔ 23جون کو پریگوزن کی ناکام بغاوت اور 23اگست کو اس کی موت کے بعد دنیا کی سب سے بڑی کرائے کی فوج ویگنر کی تقدیر ابھی غیر واضح سہی لیکن تازہ ملاقاتوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ویگنر کی نگرانی اب تروشیف اور ییوکوروف کریں گے جنہوں نے حال ہی میں کئی ایسے ممالک کا سفر کیا جہاں یہ کرائے کے فوجی کام کرتے رہے ہیں۔ تروشیف کا تعلق پوتن کے آبائی شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے ہے۔ وہ افغانستان اور چیچنیا میں جنگوں کا تجربہ رکھتا ہے اور وزارتِ داخلہ کی تیز رفتار ردِ عمل دینے والی فورس کا سابق کمانڈر ہے۔ اسے 2016ء میں داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف شام میں پالمیرا محاذ کو مسخرکرنے پر سب سے بڑا تمغے ''ہیرو آف روس‘‘ سے نوازا گیا تھا۔
دوسری جانب مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورپ اب یوکرین جنگ کو آگے بڑھانے کا متحمل نہیں رہا۔ یہ جنگ جتنی دیر جاری رہے گی اتنا ہی یورپیوں کے جانی و مالی نقصانات کا دائرہ بڑھتا جائے گے۔ سینکڑوں دیہات‘ قصبات اور شہر پہلے ہی کھنڈر بن چکے ہیں۔ جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے 53لاکھ یوکرینی باشندوں کے ملک چھوڑنے سے مشرقی یوکرین کا بڑا حصہ ویران ہو گیا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یورپی یونین کے رہنما اور مغربی حکومتیں موسم گرما کے وقفے کے بعد یوکرین جنگ کو نئے معمول کے طور پر قبول کرنے کی متحمل نہیں رہیں۔ ماحول پہ ایک خاص قسم کی جنگی تھکاوٹ ہویدہ ہو رہی ہے‘ تاہم اس سب کے باوجود کوئی بھی جنگ کے خاتمے کی طرف قدم بڑھانے کی جسارت نہیں کر رہا۔ مذاکرات صرف اسی صورت میں شروع ہو سکتے ہیں جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نیٹو میں شمولیت کی ضد ترک کرکے اپنی شرائط کو صرف یوکرین کی علاقائی سالمیت کی بحالی تک محدود رکھیں‘ بصورت دیگر اس بے مقصد جنگ کے نتیجے میں یورپی براعظم غیر مستحکم‘ منقسم اور کمزور ہوتا جائے گا۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگ سے نکلنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جیکس ڈیلورس انسٹیٹیوٹ کے نائب صدر نکول گنیسوٹو کہتے ہیں ''ایک ہی رات میں روس نے 1956ء سے یورپی یونین کے تمام فلسفہ کو معدوم کر دیا۔ یورپی اقتصادی برادری کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے بعد اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ اقتصادی تجارت اور باہمی انحصار پہلے فرانس اور جرمنی کے درمیان اور پھر یورپ اور باقی دنیا کے درمیان امن کے لیے بہترین نسخہ ثابت ہو گا‘‘ لیکن سب کچھ بکھر گیا‘ عنقریب مہیب جمود انہیں ناقابلِ واپسی مقام تک پہنچا دے گا جس کے بعد وہ 2014ء اور 2022ء میں یوکرین پر روس کے دو حملوں سے بڑھے ہوئے بے پناہ چیلنجوں سے نمٹنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یوکرین جنگ نے جس طرح کمزور اور منقسم یورپی ردعمل کو جنم دیا‘ اٹھارہ ماہ بعد امریکی اندازوں کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب افراد ہلاک یا زخمی ہونے کے بعد یہ سوال ہمیشہ کی طرح کھلا ہے کہ یہ جنگ کیسے ختم ہو گی؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے پاس جنگ کو ختم کرنے کی فوجی صلاحیت باقی نہیں بچی۔ یورپ کی جانب سے دفاعی اخراجات بڑھا کر فوجی ڈھانچے کو مربوط کرنے میں تاخیر نے امریکی مقتدرہ کی بیزاری بڑھا دی۔ اسی ضمن میں خاص کر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بے رحمانہ تنقید کی گونج اب بھی سنائی دیتی ہے۔ یورپیوں نے محض امریکہ کی طرف سے سلامتی کی ضمانتوں پہ انحصار اور اپنے دفاع پر کافی خرچ نہ کرنے پر پینٹاگون کے سربراہان کی یورپی دفاع کی غیر تسلی بخش حالت پہ تحفظات کو مسلسل نظرانداز کیا۔
سلامتی کے ماہرین کہتے ہیں کہ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں یورپیوں کو اپنی سلامتی کو سنجیدگی سے لینے کا بہترین چانس ملا تھا لیکن یورپ نے وہ موقع گنوا دیا۔ یعنی یوکرین جنگ کی پیچیدگیوں نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ بہت سے یورپی ممالک ابھی تک یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے ان کی اپنی سلامتی خطرے میں ہے۔ اسی سہل انگاری کے باعث انہوں نے یوکرین کی مددکو فقط امریکی انحصار پہ چھوڑ دیا اور یہی روش یورپیوں کے ایسے سٹریٹجک کلچر کو پروان چڑھانے کی راہ میں حائل ہے جو سکیورٹی اور طاقت پر مبنی ہو‘ قطع نظر اس کے کہ 2024ء میں امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا۔ مضبوط اور مربوط سکیورٹی انفراسٹرکچر کے بغیر یورپ کی بقا ممکن نظر نہیں آتی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یورپی یونین کا کون سا ملک ایک نئے سٹریٹجک کلچر کو آگے بڑھانے میں پہل کرتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یورپی یونین پولینڈ‘ بالٹک ریاستوں‘ جمہوریہ چیک اور رومانیہ کو چھوڑ کر یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ یوکرین کی فتح یورپ کو مزید مستحکم اور محفوظ بنائے گی۔ یورپ میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ مغربی رہنماؤں کا اتنا کہنا کافی نہیں کہ وہ یوکرین کی حمایت کریں گے‘ اگر ملک کو ضروری فوجی سازوسامان نہیں ملتا تو یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اگر یورپ کے کچھ دارالحکومتوں اور واشنگٹن میں یہ سوچ پل رہی ہے کہ یوکرینی مزاحمت کافی تیز یا موثر نہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یوکرین کے پاس اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے فوجی مدد کی کمی ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ جولائی میں ولنیئس سربراہی اجلاس کے دوران نیٹو نے ہمت اور یقین کیساتھ آگے بڑھنے کا موقع ضائع کر دیا۔ اجلاس میں یوکرین کو پھر رکنیت کی پیشکش کی جانی چاہیے تھی لیکن امریکہ اور جرمنی نے یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کی مخالفت اس بنیاد پر کی کہ یہ روس کو مزید اشتعال دلا کر دنیا کو عالمی جنگ کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔ بلاشبہ یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے ہی کافی عالمی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔یہ جنگ اب صرف یوکرین تک محدود نہیں بلکہ یہ تنازع بتدریج عالمی تعلقات کی نزاکتوں کو متاثر کرنے لگا ہے تو پھر یہ جنگ یورپ کیلئے بالخصوص اور مغرب کیلئے بالعموم امتحان ہے بلکہ ان کی بقا کا انحصار بنیادی طور پر ان نتائج پر ہے جو انہیں جنگ سے حاصل ہوں گے۔ جون میں برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بیشک یوکرین پہ حملے بارے ہمارا جو ردعمل پہلے ایک گھنٹے میں تھا‘ اب اس حد تک نہیں رہا تاہم اس کے باوجود یہ جنگ یورپ کی اولین ترجیح ہے۔ ہم اس وقت تک یوکرین کے ساتھ رہیں گے جب تک جنگ جیت کے یوکرین کی تعمیر نو کے علاوہ اسے نیٹو کا رکن بنا نہیں لیا جاتا۔ یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل‘ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز‘ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ‘ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل اور یورپی کمیشن کے صدر ارسلا وان ڈیر لیین نے سربراہی اجلاس میں کہا تھا کہ روس کی جنگ نے ایک سوئے ہوئے دیو کو جگا دیا۔ ایسے اقدامات جن کا صرف چند دن پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا جیسا کہ معروف روسی بینکوں کو سوئفٹ کے بین الاقوامی مالیاتی پیغام رسانی کے نظام سے روکنا اور روسی مرکزی بینک کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا فیصلہ بے مثال رفتار سے نافذ کیا گیا تاہم جنگ میں ناکامی کی قیمت بھی خوفناک حد تک زیادہ ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں