ایران اور پاکستان کی طرف سے ایک دوسرے کی جغرافیائی حدود میں فضائی حملوں نے پوری دنیا کو چونکا دیا۔ دونوں ممالک کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی قومی سلامتی یقینی بنانے کی خاطر 900کلومیٹر طویل سرحد کے اطراف سرگرم مسلح گروہوں کو نشانہ بنایا۔ 16جنوری کو رات گئے بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایرانی مؤقف کے مطابق اس نے ایک مسلح گروپ پہ میزائل داغے‘ جواب میں پاکستان نے جمعرات کی صبح ایرانی صوبہ سیستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں (سرمچاروں) کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا موثر جواب دیا۔ ان کارروائیوں کا نشانہ بننے والے وہ دہشت گرد تھے جو ریاستی اتھارٹی کے خلاف مسلح مزاحمتی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ یہ کنفلکٹ مینجمنٹ آرٹ کی انتہائی باریک چالیں ہیں جن کی عام فہم زبان میں توضیح ممکن نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاسدران انقلاب کور‘ جو دفاعی ڈھانچہ سے ماورا ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے تابع ایلیٹ فورس ہے‘ نے ایرانی سرحد سے ملحقہ ضلع پنجگور کے پہاڑی علاقے میں جیش العدل نامی گروپ پہ ڈرون حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد ایران نے کہا کہ اس نے پاکستانی حدود میں پناہ گزیں ان ایرانی ''دہشت گردوں‘‘ کو نشانہ بنایا جنہوں نے جنوب مشرقی صوبے سیستان کے شہر راسک میں دہشت گردانہ حملے کیے۔ جائے وقوعہ سے آنے والی وڈیوز میں ایک عمارت کو ہدف بنتا دکھایا گیا جس میں دو بچوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی۔ اس جارحیت کے جواب میں پاکستان نے عارضی طور پہ ایران سے سفارتی تعلقات منقطع اور مشترکہ مشقیں منسوخ کرتے ہوئے تہران سے اپنا سفیر واپس بلانے جیسے اقدام کے بعد ایرانی صوبے سیستان کے سراوان قصبے کے سرحدی گاؤں پر متعدد فضائی حملے کرکے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ تہران نے کہا کہ حملوں میں سات خواتین و بچوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔
جیش العدل‘جو بقول ایران پاکستان میں ایران کا ہدف تھا‘ ایران کے بلوچوں کا ایک ایسا گروپ ہے جو 2012ء کے آس پاس جنداللہ کی تحلیل کے بعد منظر عام پر آیا۔ بظاہر اس گروہ کا مقصد جنوب مشرقی صوبے سیستان میں بنیادی سہولیات اور مذہبی آزادیوں کے لیے لڑنا ہے جو ایران کا سب سے غریب سرحدی کشیدگی سے متاثرہ صوبہ ہے۔ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جیش العدل کی طرف سے سرحد کے قریب ایرانی چوکیوں پر حملوں کی وجہ سے تہران اسے دہشت گرد گروپ قرار دیتا ہے۔ پاکستان نے بھی کہا کہ18جنوری کی جوابی کارروائی میں اس کا ہدف ایران نہیں بلکہ بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے مسلح علیحدگی پسند گروپ تھے جو پاکستان کے اندر سکیورٹی فورسز پہ حملوں میں ملوث ہیں۔ دسمبر میں ایرانی سرحدی چوکی پر جیش العدل کے ایک حملے میں 11پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تاہم یہ پہلا موقع تھا جب ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے کی سرزمین پر براہِ راست حملے کیے۔ شام سے منسلک اہداف کیلئے ایران نے خیبر شکن بیلسٹک میزائل استعمال کیا جس کی رینج 1450 کلو میٹر ہے‘ تاہم پاکستان پر داغے گئے میزائل چھوٹے تھے اور یہ نسبتاً کم فاصلے سے داغے گئے تھے جس کا مقصد ملک کو کسی مکمل جنگ میں دھکیلے بغیر ایران کے ڈیٹرنس کو بڑھانا تھا۔ ایرانی حملے پاکستان میں ایک سٹریٹجک مخمصے کا باعث بنے کیونکہ یہ پاکستان کی خود مختاری کی واضح خلاف ورزی تھی چنانچہ پاکستان نے محسوس کیا کہ درگزر کی صورت میں نہ صرف بھارت بلکہ افغانستان کو بھی حوصلہ ملے گا جہاں افغان طالبان‘ پاکستان مخالف تنظیم کالعدم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے بیان میں پاکستان میں ایرانی حملوں کی کھلی حمایت بھی محلِ نظر تھی۔ دوسرے یہ حملہ افواجِ پاکستان کی ساکھ کے لیے ایک چیلنج تھا جنہوں نے داخلی سطح پر اور دیگر ممالک کے ساتھ اپنے معاملات میں عزم اور مضبوطی قائم رکھی ہوئی ہے‘ تیسرے ایران سے مستقل کشیدگی کی صورت میں پاکستان کے پڑوسیوں کے ساتھ پہلے سے پیچیدہ تعلقات کا توازن مزید بگڑ جاتا۔ جیسے مشرقی سرحد پر موجودہ جنگ بندی کے باوجود بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی اور جس طرح مغربی بارڈر پر‘ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف شورش کیلئے طالبان کی حمایت کی وجہ سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا اس پس منظر میں پاکستانی حکمت کاروں کو افغانستان‘ بھارت اور ایران پر مشتمل طویل المدتی تین محاذوں پر یکساں خطرے کا سامنا دشوار نظر آتا تھا۔ تاہم آخرکار پاکستانی قیادت نے اولو العزمی کی راہ اپناتے ہوئے اپنا ڈیٹرنس قائم کرنے کی خاطر اس بھروسے کے ساتھ جوابی حملہ کرنے کا انتخاب کر لیا کہ وہ تین محاذوں کے مخمصے کو سنبھال سکتے ہیں تاہم پاکستان نے براہِ راست ایرانی فوجی اہداف کے بجائے ایران میں پناہ گزیں بلوچ علیحدگی پسندوں کے کیمپوں کا انتخاب کیا کیونکہ ایران نے بھی پاکستان میں ایسے ہی اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔
ایران کی طرف سے مزید جوابی حملوں کا خطرہ بدستور موجود ہے تاہم ایسی وجوہات بھی ساتھ کھڑی ہیں جو ایران کو مزید کشیدگی سے روکتی ہیں۔ ایران پہلے ہی مڈل ایسٹ میں مسلح مبارزت کے دوائر کافی پھیلا چکا ہے اور پاکستان جیسے جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک‘ جس کے پاس ایران کے مقابلے میں زیادہ طاقتور فوج ہونے کے باعث وہ ہمہ وقت کشیدگی کی سیڑھی پر چڑھنے کو تیار ہے‘ یہی احساس ممکنہ طور پر ایران پر سٹریٹجک دباؤ میں اضافے کا سبب بنا۔ البتہ امریکی پالیسی ساز‘ جو مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی پراکسیز کے سب سے بڑے بینیفشری ہیں‘ پاکستان میں براہِ راست ایرانی فوجی حملے کو ایک نئی اور مفید پیشرفت کے طور پہ دیکھنے لگے۔ ایسے حملے امریکی رہنماؤں کے ایران کو فساد پرور ملک کے طور پہ نمایاں کرنے کے بیانیہ کو تقویت دینے کا وسیلہ بنتے ہیں چنانچہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کے خلاف ایرانی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اسے خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دے کر ایرانی کارروائی سے اپنا فائدہ کشید کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ جہاں تک پاکستان بارے واشنگٹن کے پالیسی نقطہ نظر کا تعلق ہے تو یہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار کے بعد مزید کئی علاقائی تنازعے بھڑک اٹھیں جو معاشی اور سیاسی تناؤ کے ذریعے ملک کو غیر مستحکم رکھیں۔ فوری تعطل سے قطع نظر امریکی پالیسی ساز جو پاکستان کو گزند پہنچانے کی نیت سے اسلام آباد کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں‘ پراکسی جنگوں سے متاثرہ پاکستان کو اپنانے کو بیتاب ہیں لیکن ایران پاکستان کشیدگی کے باوجود دونوں طرف سے فعال تعلقات کو برقرار رکھنے کی فطری ترغیبات زیادہ اہم ہیں۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات کی یہ بنیادی تشخیص امریکہ کی ہند‘ بحرالکاہل پالیسی ترجیحات اور مشرقِ وسطیٰ کے مسائل پر امریکہ کے ساتھ کام کرنے بارے پاکستان کے خدشات سے مملو ہیں جو خطے میں مبینہ ایرانی سرگرمیوں کے ارد گرد لپٹے امریکی ٹریپ کو گہرائی تک دیکھتے ہیں۔
دوسری طرف ایرانی سرحد سے ملحقہ پنجگور اور تربت جیسے کئی اضلاع کے باسی اپنی روزمرہ اشیا کا نوے فیصد ایران سے حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں کی سہل انگاری کی وجہ سے آج بھی کوئٹہ کے پنجاب سے زمینی رابطے طویل اور دشوار گزار ہیں۔ کوئٹہ سے چلنے والے مال بردار ٹرکوں کو فورٹ منرو کے پیچیدہ پہاڑی راستوں سے پنجاب پہنچنے میں دو تین دن لگتے ہیں۔ اگر کوئٹہ سے براستہ پشین‘ خواص‘ زیارت‘ لورالائی‘ میختر مجوزہ متبادل روڈ تعمیر کر لیا جائے تو نہ صرف بلوچستان والوں کی پنجاب تک رسائی آسان ہو جائے گی بلکہ پنجاب کی سبزی بہت کم وقت میں ایرانی بارڈر تک پہنچائی جا سکتی ہے۔