لافانی فلم ''کاسا بلانکا‘‘کے وہ مناظر یاد کریںجب کوئی بھی واقعہ پیش آتا، جیسا کہ کسی جرم کا ارتکاب، تو فلم میں ناقابل ِ فراموش پرفارمنس دکھانے والاپولیس کیپٹن ، لوئیس رینالٹ کہتا۔۔۔'' جانے پہچانے مشتبہ افراد کو پکڑ لو‘‘۔ اس طرح انگریزی زبان میں ''ہر بار مشتبہ ٹھہرائے جانے والے افراد ‘‘(usual suspects)کی اصطلاح متعارف ہوئی ۔
جب دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر عالمی دبائو آتا ہے تو ہمارا رد ِعمل بھی کیپٹن رینالٹ سے مختلف نہیں ہوتا۔ ہم بھی ایسے سدابہار مشتبہ افراد کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتے ہیں، اور اس فہرست میں سب سے نمایاں نام جماعت الدعوۃ کے چیف، حافظ محمد سعید کا ہوتا ہے ۔ امریکی دبائو کو ٹالنے یا اس کی شدت کم کرنے کے لیے پاکستان حافظ سعید کو حفاظتی تحویل میں لیتا رہاہے، جیسا کہ اس مرتبہ بھی ۔ پاک امریکہ تعلقات میں تلخی گھل چکی ہے ۔ اب وہ یقینا ویسے نہیں ہیں جیسے افغانستان میں امریکی مداخلت کے عروج کے زمانے میں تھے ۔ یہ مداخلت نہ صرف امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ تھی ، بلکہ اخراجات کے اعتبار سے انتہائی مہنگی بھی تھی۔ اس ملک، جسے ''سلطنتوں کا قبرستان ‘‘کہا جاتا ہے ، میں برائے نام فتح حاصل کرنے کے لیے کم و بیش ایک ٹریلین ڈالر پانی کی طرح بہائے گئے۔ اور چونکہ طالبان شکست کھانے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں، اور شاید انڈیا کے سوا ہر کسی کو احساس ہے کسی بھی معاہدے میں طالبان کی شرکت کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا، چنانچہ یہ صورت کسی طور امریکہ کے لیے دل خوش کن نہیں۔ اس لیے اُسے اپنی بھاری ناکامی کی ذمہ داری ڈالنے کے لیے کسی قربانی کے بکرے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان ایک عجیب صورت ِ حال سے دوچار ہے ۔ افغانستان میں کسی قسم کی بھی مغربی مہم جوئی ہو، ہمارا تعاون ضروری سمجھا جاتا ہے ، لیکن ناکامی کی صورت میں ہم قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم پہلے اُن کی مہم جوئی کا اور پھر ناکامی کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ جب ہم اُنہیں اپنا کندھا پیش کرتے ہیں ، اور ہماری خدمات ناگزیرقراردی جاتی ہیںتو بھارتی دوست دم سادھے خاموشی سے وقت کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔ جب ہم قربانی کے بکرے بن جاتے ہیں تو امریکی، وہی امریکی جنہوں نے ہماری خدمات سے فائدہ اٹھایا اور ہماری سڑکوں کو تباہ کردیا تھا، ہم پر دہرا کھیل کھیلنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اور بھارتی بھی اسی موقع کے منتظر ہوتے ہیں۔ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے میں وہ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ ہنوز اپنے پیدا کردہ بہت سے مسائل سے نکلنے کی کوشش میں ہے ، چنانچہ اس نے فی الحال پاکستان کی طرف توجہ نہیں دی ، لیکن ہمارے سول اور ملٹری حلقوں نے بدترین صورت ِ حال کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے شاید قبل ازوقت خود پر سراسیمگی طاری کرلی ہے ۔ اسی کیفیت میں اُنھوںنے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے اپنے عزم کا ا ظہار کرنے کے لیے ''معروف مشتبہ افراد‘‘ کوحراست میں لے لیا ہے ، اور حافظ سعید ان ''معروف افراد ‘‘ کے سرخیل ٹھہرے۔ ایک میڈیا بریفنگ کے دوران اُن کی بابت سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا۔۔۔''یہ فیصلہ پالیسی کے مطابق ہے جو ریاست نے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے ۔‘‘یہ الفاظ ، جیسا کہ ''پالیسی کے مطابق فیصلہ‘‘، یا ''قومی مفاد ‘‘خاصے بلند آہنگ ہیں، لیکن کیا ہماری سکیورٹی اسٹبلشمنٹ کو احساس ہے کہ ایسے اقدامات سے ایک واضح پیغام جاتا ہے کہ ہاں، پاکستان میں دہشت گردی کا مسلۂ موجود ہے ، اور یہ کہ حافظ سعید جیسے افراد اس مسئلے کی جڑ ہیں؟باالفاظ ِ دیگر ، ایسے اقدامات خود پاکستان کے خلاف فرد ِجرم عائد کردیتے ہیں۔اس سے تاثر یہ جاتا ہے کہ حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ ان الزامات کے تحت قصوروار ہیں، اور جیسا کہ انڈیا الزام لگاتارہے ، حافظ سعید سرحد پار دہشت گردی کے سرپرست ہیں۔
الزامات کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ان اقدامات سے بھارت کے الزام ، کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروہ اُڑی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمے دار ہیں، کو بھی تقویت ملتی ہے ۔ اُ س صورت میں الزام صرف حافظ سعید تک ہی محدود نہیںرہتا۔ امریکیوں کو یقین ہے کہ بھارت کا تو ہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے ، کہ حافظ سعید اور اُن جیسے دیگر افراد، اسٹیبلشمنٹ کے پراکسی ہیں جنہیں انڈیا کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس طرح حافظ سعید کو مورد ِ الزام ٹھہرانے سے ہمارے اداروں کی طرف انگشت نمائی ہوتی ہے ۔ چنانچہ سراسیمگی اور گھبراہٹ کے عالم میں اٹھائے گئے ایسے ہنگامی اقدامات سے ہمارے ہاتھ کیا آتا ہے ؟ان سے امریکی تو ہر گزمتاثر نہیں ہوتے کیونکہ وہ پہلے بھی ہماری ایسی ہی کارگزاری دیکھ چکے ہیں، اورجہاں تک بھارتیوں کا تعلق ہے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ بلندلب ولہجے میں شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ پاکستان عالمی رائے عامہ کو چکما دینے کی کوشش کررہا ہے ۔
پاکستان اور بھارت، دونوں ہی سرحدپار چھیڑچھاڑ میں مصروف رہے ہیں، دونوں نے ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے،لیکن عالمی رائے عامہ کی ''عدالت ‘‘ میں ہم نسبتاً خسارے میں ہیں۔ ہمارے خلاف بھارتی الزام کے پلڑے میں ہماری بے گناہی کی نسبت زیادہ وزن ڈالا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟اس کی ایک وجہ تو پالیسی کی ناکامی ہے ۔ ہمارے رہنما کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ وہ چلائی جانے والی بھارتی مہم کا عالمی ا ثر زائل کرنے اور دنیا کی تشویش کم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس صورت ِحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی سٹیج پر بھارت زیادہ موجودگی اور اہمیت رکھتا ہے ۔ کیا انڈیا نے الطاف حسین کے ساتھ روابط قائم کرتے ہوئے فنڈز فراہم نہیں کیے ؟کیا بلوچستان کی شورش میں انڈیا کا ہاتھ نہیں؟کیا انڈیا افغانستان میں موجود پاکستان مخالف طالبان کی سرپرستی نہیں کررہا ؟لیکن ہم اس کے خلاف مضبوط کیس پیش کرنے میں ناکام رہے ۔ کیااس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما ئوں کی توجہ دیگر امور کی طرف ہے اور وہ اس طرف دھیان دینے کے قابل نہیں؟ستم یہ کہ سول ملٹری تعلقات بھی ویسے نہیں جیسے ہونے چاہیے تھے ۔ یہ ایک قابل ِ غور بات ہے ۔دنیا کی کون سی حکومت اپنی ہی فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی ہے ؟ اختلاف ِرائے ہوسکتا ہے ، اور دنیا بھر میں ہوتا ہے ، لیکن ایسی باتیں پس ِ پردہ زیر ِ بحث لائی جاتی ہیں۔ وزراور مشیر ان اختلافات کی کہانیاں بنا کر میڈیا کے سامنے بیان نہیں کرتے ، جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔
یہاں کچھ معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ سرحد پار مہم جوئی کا دور گزرچکا، اور اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن ضروری ہے کہ یہ احساس سرحد کے دونوں طرف ہو۔ پاکستان کو چھیڑ خانی کی ضرورت نہیں، لیکن اگر انڈیا پاکستان کے مسائل سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی جاری رکھتا ہے تو پھر پاکستانی رہنمائوں کو کھل کر بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ پاکستان کو غیر ضروری حب الوطنی کے اظہار سے بھی اجتناب کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کاکوئی عملی فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستانی رہنمائوں، سول اور فوجی ، کو اپنے دفاع کے ناقابل ِ تسخیر ہونے کی نعرہ بازی سے گریز کرنا چاہیے ۔ اگر ہمارا دفاع ناقابل ِ تسخیر ہے تو دعویٰ چہ معانی دارد ؟ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ؟لیکن جہاں بھارت حد سے تجاوز کرتا دکھائی دے تو پاکستان کو دوٹوک اور جاندار لہجہ اختیار کرنا چاہیے ۔
درحقیقت پاناما زدہ رہنما بعض اوقات یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُنہیں انڈیا کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اُن کی خاموشی ہماری قومی کمزوری کے تاثر کو گہرا کردیتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے بارے میں کیا موقف رکھتی ہے ، ہماری سول اور ملٹری قیادت کوحوصلے اور بلند نگاہی کی ضرورت ہے ۔ اگرچہ کسی قسم کی حماقت سے گریز کرنا ہوگا، اور ، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ سرحد پار مہم جوئی کا زمانہ لد چکا، لیکن ہماری قیادت کو فرضی اور التباسی خوف کو جھٹک پھینکنا ہوگا۔
حافظ سعید ایک معقول عالم ِدین ہیں۔ اُن کا اسلام معتدل مزاج ہے ۔ وہ نہ تکفیری مسلک کے پیروکار ہیں اور نہ ہی سلفی کے، باایں ہمہ وہ ایک اہم عرب ملک کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بہت سے دیگر علما بھی اس ملک کی طرف جھکائورکھتے ہیں۔ اور قدرے دبے الفاظ میں کہنے کی جسارت کرنا چاہتاہوں کہ اس میں 'چیک بک سفارت کاری ‘ کی کارفرمائی ہے ۔ حافظ صاحب کشمیر پر ایک توانا موقف رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں، اور یہ ہمارے بھارتی دوستوں کو زک پہنچاتا ہے ۔ بھارتیوں کو وہ پاکستانی پسند ہیں جو مشترکہ روابط کی بات کریں، لیکن کشمیر کا ذکرکرنے والے پاکستانی ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ لیکن کیا امریکیوں اوربھارتیوں کی سوچ حافظ سعید سے موجودہ سلوک کا جواز فراہم کرتی ہے ؟