تمام شواہد بتاتے ہیں کہ حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن) کے سامنے مشکل وقت ہے۔ برآمدات کم، جبکہ درآمدات بڑھ چکی ہیں۔ ادائیگیوں کا توازن پہلے سے کہیں برہم، بیرونی ممالک سے زر مبادلہ کی ترسیل، جو قومی آمدنی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، میں نمایاں کمی، جبکہ اس دوران پی ایم ایل (ن) کے معاشی جادوگر، جناب اسحاق ڈار قومی قرضے میں ریکارڈ اضافہ کرتے ہوئے، اور اگر اُنہیں پانچ مزید سال مل گئے پاکستان کو یونان کی سی صورت حا ل کا سامنا ہو گا۔ جب پاکستانی وزیر خزانہ ایک طویل مضمون قلم بند کرتے ہوئے، جیسا کہ اسحاق ڈار صاحب نے حالیہ دنوں کیا، کہتے ہیں کہ پاکستان کے قرضے کی صورت حال بری نہیں تو آپ کو یقین کر لینا چاہیے کہ حالات تشویشناک ہیں۔ جب وزرائے خارجہ بہت زیادہ دعوے کریں تو یہ پریشانی کی علامت ہوتی ہے۔
توانائی کے شعبے میں زیر گردشی قرضہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں غیر ملکی ضمانتوں کا حوالہ دے کر اپنے واجبات ادا کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد زیر گردشی قرضے کی ادائیگی کو پی ایم ایل (ن) نے پاکستان کو درپیش توانائی کا بحران دور کرنے کے سلسلے میں اپنی کامیابی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ لیکن اب پھر اُسی پریشان کن صورت حال نے سر اٹھا لیا ہے، جبکہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے خبردار کر رہی ہیں کہ اگر واجبات ادا نہ کیے گئے تو وہ فلاں اقدامات کرنے کا سوچ سکتی ہیں۔ جب نواز شریف صاحب کا حامی انگریزی اخبار (نام لینے کی ضرورت نہیں) بھی مذکورہ زیر گردشی قرضے کے بارے میں خبردار کرتا ہے تو پھر یقینا اس وارننگ، جبکہ طویل موسم گرما بھی شروع ہونے والا ہے، کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ بے شک یہ دوستانہ رویہ رکھنے والے حلقوں کی طرف سے وارننگ ہے، یہ پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ کی طرف نہیں آئی۔
دو دن قبل ایک اور انگریزی روزنامے کے پہلے صفحے پر ایک رپورٹ تھی جس میں وزارت پانی اور بجلی کے اس متعدد بار دہرائے جانے والے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا کہ بجلی پیدا کرنے کے شعبے میں انقلابی تبدیلی برپا کی جا چکی ہے۔ جرمنی کے ایک ترقیاتی بینک کی تحقیقات پر مبنی یہ رپورٹ حکومت کے اس دعوے کو تسلیم کرتی ہے کہ جب سے نواز شریف وزیر اعظم بنے ہیں، بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، لیکن رپورٹ میں یہ بات کھل کر کی گئی کہ اس اضافے کی وجہ تین پاور سٹیشنز کی پیداوار ہے۔ یہ مظفر گڑھ، جامشور اور گدو پاور سٹیشنز ہیں‘ جو سابق حکومتوں کے منصوبے ہیں۔ قومی گرڈ میں کچھ اضافہ کرنے والے نندی پور کا آغاز بھی 2013ء سے پہلے ہوا تھا۔ موجودہ حکومت کے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ (حکومت) پاور سیکٹر میں اصلاحات لانے، جیسا کہ لائن لاسز کو کم کرنے اور بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ زرعی شعبے کی حالت اس سے بھی ابتر ہے، جبکہ کپاس، جو کہ ہماری اہم ترین نقدآور فصل ہے، کی پیداوار گر چکی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اجناس کی پیداوار میں کمی کا رجحان نمایاں ہے اور کاشت کار حکومت کے ناروا رویے سے نالاں ہیں۔ اور موجودہ حکومت کی سیاسی حمایت کے مراکز پنجاب کے شہری علاقے ہیں؛ چنانچہ اسے کاشت کار حضرات کے مسائل سے کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا۔
ا س پس منظر میں اسلام آباد اور لاہور میں پی ایم ایل (ن) کی حکومتیں کس بات پر نازاں ہیں؟ اس مرتبہ الیکشن میں ان کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کیا ہو گا؟ اگر برآمدات اور بیرونی ممالک سے آنے والی رقوم کے حجم میں گزشتہ برسوں یا زرداری دور کی نسبت کمی واقع ہوتی رہی‘ تو وہ عوام کو اپنی مالیاتی جادوگری کے کس کرشمے سے متاثر کرے گی؟ یہ بات تسلیم کہ پی ایم ایل (ن) تشہیر کے میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، اور اس شعبے پر بھاری رقوم خرچ کرتی ہے۔ اس شعبے کی انچارج وزیرِ اعظم کی ہونہار صاحبزادی ہیں جن کے نام کی بازگزشت پاناما کیس میں سنائی دیتی ہے؛ تاہم ایک حقیقی تشہری مہم کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد چالبازی کی بجائے ٹھوس حقائق پر ہو۔ تو پھر اگلے انتخابات میں ان کے توشہ خانے میں کیا ہو گا؟ اور اگر پی ایم ایل (ن) میں سے کسی کا خیال ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات اُن کے لیے لقمہ تر ثابت ہوں گے تو اُنہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
کیا 2013ء میں پی ایم ایل (ن) کو میٹرو بس کی وجہ سے ووٹ ملے تھے؟ نہیں، اس کی کامیابی کی وجہ دو عوامل تھے۔ ایک یہ کہ عام پنجابی ووٹر پی پی پی سے متنفر ہو چکا تھا، اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی انتخابات کے لیے تیار نہ تھی۔ ووٹ پی ایم ایل (ن) کی حمایت میں نہیں، پی پی پی کی ناقص گورننس اور بدعنوانی کے الزامات کے خلاف پڑا تھا۔ یہ آصف زرداری اور ان کے ٹولے کے خلاف پڑنے والا ووٹ تھا، لیکن اس ووٹ کو اپنے بیلٹ باکس تک لانے کے لیے پی ٹی آئی مناسب تیاری نہ کر سکی۔ اس نے عام انتخابات سے پہلے پارٹی کے داخلی انتخابات کرانے کی حماقت کر دی، نیز اس کے زیادہ تر انتخابی امیدوار نئے کھلاڑی تھے۔ اور پھر یہ بات بھی نہ بھولیں کہ جس وقت عمران خان حادثاتی طور پر سٹیج سے گرنے کے بعد ہسپتال کے بستر پر تھے، وہ وقت انتخابی جلسوں کی قیادت کا تھا۔ یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیںکیونکہ عوامی رد عمل کا دارومدار بروقت کیے گئے کام پر ہوتا ہے۔
نواز شریف صاحب کے پلڑے میں ایک اور باٹ تھا۔ کہا گیا کہ اُنہیں بطور وزیر اعظم کبھی اپنی مدت مکمل کرنے کی مہلت نہیں دی گئی۔ اُنہیں 1993ء میں صدارتی حکم نامے اور 1999ء میں فوجی مداخلت کی وجہ سے گھر جانا پڑا تھا۔ کہا گیا کہ اگر اُنہیں اپنی مدت مکمل کرنے دی جاتی تو وہ حیران کن کارکردگی دکھاتے۔ الیکشن کے دن یہ التباس پورے وزن کے ساتھ فضا میں موجود تھا۔ جس طرح پی پی پی نے اپنی مدت مکمل کی، اسی طرح پی ایم ایل (ن) بھی اگلے سال اپنی مدت مکمل کرنے جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی کارکردگی پی پی پی جتنی تباہ کن نہ ہو، لیکن اگلے عام انتخابات میں اس کے سیاسی اثاثے تحلیل ہو چکے ہوں گے۔ اس کے پاس دکھانے کے لیے کیا ہو گا؟ کیا اورنج ٹرین، جیل روڈ لاہور پر سگنل فری کاریڈور انتخابی کامیابی کے لیے کافی ہوں گے؟ پی ایس ایل کے لاہور میں ہونے والے فائنل کی خوشنما گونج اگلے چند روز بعد ماند پڑ جائے گی، اور زندگی کے حقائق کا شور واپس آجائے گا۔ اور ہم نہیں جانتے کہ پاناما کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس کیس نے نواز شریف اور ان کی فیملی کی ساکھ کو بے پناہ زک پہنچائی ہے۔ قومی بیانیے میں شامل ہونے والا لفظ ''پاناما‘‘ آسانی سے جان نہیں چھوڑے گا۔
آج سے لے کر عام انتخابات تک، دونوں بھائی ترقیاتی کاموں کے فیتے کاٹنے میں مصروف رہیں گے۔ شاید اس کام میں دن رات ایک کر دیے جائیں اور اس دوران پی ایم ایل (ن) کا میڈیا بریگیڈ بھی پارٹی کی کامیابیوں کو اجاگر کرتا رہے گا۔ لیکن کیا 2018ء میں انتخابی کامیابی کے لیے یہ سب کچھ کافی ہو گا؟ کیا پاناما کے بھوت اپنے اپنے مقابر میں واپس چلے جائیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نواز شریف کی سیاسی کامیابی کے عروج کا زمانہ ہے۔ وہ بطور وزیر اعظم تیسری مدت مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ ایسا موقع پاکستان میں کس کو نصیب ہوا ہے؟ پاکستان کی تاریخ اتنے وزرائے اعظم کو آتے اور جاتے دیکھ چکی ہے کہ ایک مرتبہ مولانا کوثر نیازی مرحوم نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں وزرائے اعظموں کے لیے ایک الگ قبرستان ہونا چاہیے؛ تاہم بنیادی سوال اپنی جگہ پر موجود کہ نواز شریف صاحب نے اپنی اور اپنی فیملی کی دولت میں بے پناہ اضافہ کرنے کے سوا حاصل کیا کیا ہے؟ جب وہ 1980 کی دہائی میں سیاست میں آئے تو وہ بہت بڑے سرمایہ کار نہ تھے، لیکن اب اُن کا شمار بہت آرام سے ارب پتی کلب میں ہوتا ہے۔ لیکن پھر تیسری دنیا میں دولت مند اسی طرح بنتے ہیں۔ جب اُن کے ستارے گردش کرتے ہیں تو پھر اُن کیا بنتا ہے؟
ا س وقت پاکستان کے سامنے اہم ترین سوال انتخابی چوائس کا ہے۔ ایک طرف وہ سیاسی طور پر گھسے پٹے مہرے ہیں جو ماضی کے جمود کی علامت ہیں، یا پھر عوام اپنی تاریخ کا نیا ورق پلٹنے کی کوشش کریں۔ اگلا سال شریف برادران کے لیے آسان نہ ہو گا لیکن یہ پاکستان کے لیے پُرجوش ہنگام ثابت ہو گا۔