کیا پہیہ الٹا گھومنے کو ہے؟ کیا یہ قوم، جس کے گھر کی رونق ایک ہنگامے پر موقوف رہی ہے، ایک بار پھر تبدیلی کے دہانے پر ہے؟ لوگ، جن سے میری مراد سیاسی طبقہ اور ٹی وی پروگراموں کے رسیا عوام ہیں، سراپا منتظر، اور پوری امید سے ہیں، بس ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔ میں گزشتہ دو یا تین روز سے لاہور میں تھا، اور آپ جس شخص سے بھی ملیں، فضا میں ایک سوال کا ہی ارتعاش پایا جاتا ہے: کیا ہونے والا ہے؟
اس سوال کا تعلق پاناما کیس کے فیصلے سے ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہو گا، اور پاکستانی سیاست کے ایوانوں میں سب سے طویل عرصہ گزارنے والے حکمران خاندان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟ نجم سیٹھی اور اُن جیسے پی ایم ایل (ن) کے دیگر درباریوں کو عوام، یا خود اپنی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے گریزکرنا چاہیے۔ پی ایس ایل کا فائنل (کچھ اسے پی ایس ایل تماشا بھی کہتے ہیں) اب ماضی کا حصہ ہے۔ اس نے کچھ جوش پیدا کیا، اور پھر میڈیا بھی حماقت کی دوڑ میں کسی سے پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔ پی ایم ایل (ن) کی طرف جھکائو رکھنے والے اخبارات میں شائع شدہ کچھ مضامین پڑھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے، کہ وہ اس میچ کو تاریخ کی فیصلہ کن جنگوں کی صف میں دیکھتے ہیں۔
ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ اس میچ کے نتیجے میں قومی اتحاد پروان چڑھا اور دہشت گردی پر کاری ضرب لگی، یا پھر یہ کہ پاکستان کی جیت اور دہشت گردی کو شکست ہوئی وغیرہ وغیرہ، لیکن ابھی قذافی سٹیڈیم کی لائٹس بند ہوئی ہی تھیں کہ مہمند ایجنسی میں ہماری تین فوجی چوکیوں پر ڈیونڈر لائن کے دوسری طرف سے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں پانچ فوجی جوانوں کی شہادت ہوئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دشمن کے حملے کو پسپا کر دیا گیا‘ اور پندرہ دہشت گرد ہلاک ہوئے؛ تاہم پانچ فوجی جوانوں کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس کے علاوہ صوابی میں شورش پسندوں یا دہشت گردوں، یا آپ اُنہیں جو بھی نام دیتے ہیں، کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک کیپٹن اور ایک جوان‘ شہید ہو گئے۔ دہشت گردی کا خطرہ کم ضرور ہوا ہے، ختم نہیں ہوا، اور اس کے خاتمے اور دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے کے لیے ایک چکاچوند کرکٹ میچ کے علاوہ بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاناما کیس قومی منظرنامے پر ابھرنے والا سب سے اہم نقش ہے۔ اس نے ظن و تخمین کو مہمیز دی ہے، قیاس آرائیوں کو سلگایا ہے، اندازوں کی بساط کو گرم کر دیا ہے کیونکہ اس میں بدعنوانی اور غلط بیانی کے سنگین کیسز شامل ہیں، اور اگر فیصلہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان، جو اس کیس کے مرکزی کردار ہیں، کے خلاف چلا جاتا ہے تو پھر ملک کسی بھی صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔ فیصلہ کیا ہو گا، یہ تو صرف فرشتے ہی جانتے ہیں، لیکن حکمران خاندان پریشان، اور حکمران جماعت سخت اضطراب کا شکار ہے۔ بنچ پانچ جج صاحبان پر مشتمل ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا منفرد لمحہ ہے۔ اس سے پہلے بھی فاضل جج صاحبان یادگار فیصلے سناتے رہے ہیں۔ اُن میں سے بعض مارشل لا کی بھی توثیق کرتے دکھائی دیے، اور ایسا ایک مرتبہ نہیں، کئی مرتبہ ہوا۔ ایک وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، سندھ سے تعلق رکھنے اور عہدے سے برطرف کیے جانے والے کچھ وزرائے اعظم، جیسا کہ محمد خان جونیجو اور بے نظیر بھٹو کی عدالت نے داد رسی نہ کی۔ دوسری طرف پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وزیرِ اعظم، نواز شریف، کو صدارتی فرمان کے تحت عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عدالت نے بحال کر دیا۔ حالات ایک جیسے، لیکن فیصلے مختلف، چنانچہ ناقدین کو دہرے معیار کا الزام لگانے کا موقع مل گیا۔ جسٹس منیر، جنہوں نے سب سے پہلے ''نظریہ ٔ ضرورت‘‘ اختراع کیا، سے لے کر چیف جسٹس انوارالحق، جنہوں نے بھٹو کی سزائے موت کے حکم کو برقرار رکھا، اور چیف جسٹس ارشاد حسن خان تک، جنھوں نے جنرل مشرف کے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کی توثیق کر دی، اعلیٰ عدلیہ یا تو مفاد پرستی کا شکار ہو گئی، یا پھر اس نے طاقتور کا ساتھ دینے میں ہی عافیت گردانی؛ تاہم چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے عدالتِ عالیہ نے آزادی کا شاندار مظاہرہ کیا، لیکن اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ دیگر اہم فیصلوں میں اس نے ایگزیکٹو طاقت کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا۔
تاہم یہ وقت اور ہے۔ پاناما کیس کی سماعت کرنے والا جسٹس کھوسہ کا بنچ خود مختار اور آزاد، اور صرف اپنے ضمیر کے سامنے ہی جوابدہ ہے۔ یہ فیصلہ جو بھی ہونا ہے، بنچ کسی دبائو کے بغیر، اپنی فہم و فراست، قانون اور انصاف کے تقاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔ اگر ممکن ہوتا تو پی ایم ایل (ن) اسے دبائو میں لا چکی ہوتی۔ آخر یہ وہی پارٹی نے جس نے جسٹس سجاد علی شاہ، جو حالیہ دنوں رحلت پا گئے، کی سپریم کورٹ پر چڑھائی کر دی تھی اور چیف صاحب کو جلدی سے اپنی عدالت سے فرار ہونا پڑا؛ تاہم آج پی ایم ایل (ن) ایک کمزور جماعت ہے۔ اس کی تاب و تواں اس درجے کی نہیں جتنی 1998ء میں تھی جب سپریم کورٹ پر حملہ کرکے بھی بچ نکلی تھی؛ چنانچہ اب یہ ماضی کے دائو نہیں آزما سکتی۔ ایک تو آج فوج اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی، اور پھر پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی قوتیں اس کی راہ میں مزاحم ہوں گی؛ چنانچہ پی ایم ایل (ن) کو بدترین صورت حال کا اندیشہ ہی کیوں نہ ہو، وہ خالی اور کھوکھلی دھمکیاں دینے، جن میں کچھ وزرا، جیسا کہ سعد رفیق اور رانا ثنا اﷲ پیش پیش رہتے ہیں، اور دانت پیسنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ دوسرے نسخے، جن کے ذریعے یہ ججوں کو رام کیا کرتی تھی، آج دستیاب نہیں ہیں۔
یہ بات سب کو یاد ہے کہ اپنی طویل سیاسی اننگز کے دوران نواز شریف صاحب کو ہمیشہ عدالتوں کی طرف سے نرمی اور رعایت ملی۔ وہ الزامات اور مقدمات، جو دوسرے سیاست دانوں کو عہدوں سے ہٹا دیتے، یا اُن کا سیاسی کیریئر تباہ کر دیتے، ان کا اور ان کی فیملی کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ پی پی پی کا کوئی وزیر اعظم اصغر خان کیس سے نہیں بچ سکتا تھا۔ یہ کیس 1990ء کے انتخابات میںکچھ سیاست دانوں، جن میں نواز شریف اور شہباز شریف بھی شامل ہیں، پر آئی ایس آئی سے رقم لینے کی بابت ہے۔ کسی بھی سیاسی شخصیت کے لیے ماڈل ٹائون کیس، جس میں پولیس کی فائرنگ سے چودہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، سے بچ نکلنا ناممکن تھا۔ اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ کے اعتراف کے بعد کون سا سیاسی مینار ہے جو زمین بوس نہ ہو جاتا؟ لیکن شریف برادران اب تک پاکستانی سیاست میں وہ ''اکیلس‘‘ ثابت ہوئے ہیں جنہیں کوئی گزند پہنچ ہی نہیں پایا۔ لیکن اب پہلی مرتبہ ایسا ہے کہ جب نواز شریف اور ان کے قریبی اہل خانہ، دونوں بیٹے اور صاحبزادی، عدالت میں ایک مشکل کیس سے دوچار، تصورات سے تہی داماں اور از حد لاچار، بنچ کے سامنے کھڑے ہیں۔ شریف فیملی کے وکلا کی طرف سے مکتوب قطری کی صورت میں اپنایا گیا دفاعی طریق کار ملک بھر میں مذاق کا نشانہ بن کر قومی لطیفہ بن گیا ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کسی کو اپنے ٹیکسوں کا مسئلہ ہو یا کسی اور چیز پر کوئی جواب نہ بن پڑے تو اُس کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ وہ بھی قطر، بحرین یا کسی اور صحرائی ریاست سے خطوط کا پلندہ منگوا لے۔
تاہم اس کیس کی اہمیت شریف فیملی کے مقدر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس مقدمے میں صرف اُن کا ہی نہیں پوری قوم اور نظام کا بھی ٹرائل ہے۔ چنانچہ جو بھی فیصلہ سامنے آیا، اچھے یا برے، دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔ فی الحال اس کیس نے فیصلے سے پہلے ہی شریف فیملی کی ساکھ کا خون تو کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان پر الزامات لگائے جاتے تھے لیکن کہا جاتا تھا کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے؛ تاہم پاناما سماعت نے بہت کچھ فاش کر دیا ہے، جیسا کہ سمندر پار خفیہ اکائونٹس، جائیدادیں اور منی لانڈرنگ کے الزامات، اور شریف فیملی کے پاس ان کا کوئی جواب موجود نہیں۔ اگر وہ اس طوفان سے بچ نکلے تو بھی آسمان کا رنگ بدل چکا ہو گا۔ دامن پر لگے یہ داغ آسانی سے اور جلدی دور نہیں ہوں گے۔