"AYA" (space) message & send to 7575

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

پاناما کیس کی سماعت کرنے والے پانچ جج صاحبان نے بھی الفریڈ ہچکوک کی سنسنی خیز فلموں جیسے تجسس کا ماحول قائم کردیا ہے ۔ اگر یہ کوئی فلم ہوتی تو اسے دیکھنے کے لیے پکچر ہائوس بھر جاتے اور جج صاحبان کسی نہ کسی انعام کے حقدار قرار پاتے ۔ اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تمام قوم ، جسے اور بھی بہت سی پریشانیاں لاحق ہیں،دم سادھے اس کیس کے فیصلے کی منتظر ہے ،اور اس کیس پر بہت سی چیزوں کا دارومدار ہے ، جیسا کہ نواز شریف فیملی کی سیاسی قسمت، پی ایم ایل (ن) کا مستقبل اور بے شک، قومی سیاست کی سمت، لیکن کم از کم سیاسی طبقے اور سیاسی معاملات پر محو ِ سخن رہنے والے گفتار کے غازیوں کی نگاہ اس سنسنی خیز ڈرامے کا پردہ اٹھنے کی منتظر ضرور ہے ۔ 
بھٹو کو منظر عام سے ہٹائے جانے سے پاکستان کا چہر ہ بدل گیا۔ نام نہاد افغان جہادنے بھی ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ 1977ء کے جنرل ضیاء کے شب خون سے پہلے بھی ایک پاکستان تھا، افغان جہاد سے پہلے بھی ایک پاکستان تھا ، اور ان کے بعد اب ایک مختلف پاکستان ہے ۔ مبالغے سے پرہیز کرتے ہوئے، موجودہ کیس بھی ہمارے مستقبل پر دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔ آپ شیخ رشید کو پسند کریں یا نہ کریں، یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ الفاظ کی دنیا کے کھلاڑی ہیں ۔ اُنھوں نے بہت عمدگی سے اس کیس پرتبصرہ کیا ہے کہ اس کے فیصلے کے نتیجے میں یا ن لیگ کا تابوت برآمدہوگا یا پاکستانی انصاف کا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ صاحب کا تبصرہ اُن کے ذاتی رجحان کا آئینہ دار ، اور یک طرفہ ہے کہ وہ صرف اُسی فیصلے کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق سمجھیں گے جو نواز شریف صاحب کی چھٹی کرا ددے ۔ لیکن اگر نوا زشریف کو کوئی گزند نہیں پہنچتا تو پھر ذرا تصور کریں کہ کیسے کیسے طنزیہ تبصرے اور چلبلے لطائف فضا کو گرما دیںگے۔ ایک منقسم ماحول میں ، جیسا کہ اب ہے، ہر کسی نے اپنا ایک ترازو اٹھایا ہوتا ہے ۔ 
ایک وقت تھا جب ملک کے لوگ دلیر تھے اور اپنے تصورات کابے باکی سے اظہار کردیتے تھے ۔وہ گلیوں میں نکلتے ، اپنے نظریات کی خاطر پولیس کی لاٹھیاں اور گولیاں کھاتے ، اُنھوں نے ایوب خان کے خلاف احتجاج کیا، اور پھر انتہائی دائیں بازو کے حامل افراد نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی، 1983 ء میں اندرونی سندھ جنرل ضیا ء کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا، لیکن آج صولت ِکردار کا واحد مظاہرہ پیہم گفتار ہے ۔ ہم میں سے زیادہ تر اسی میدان کے مرد ہیں۔ اُس وقت مزاحمت آسان نہ تھی، اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی، فوجی عدالتیں کوڑوں کی سزاسناتیں ، جو کہ لرزہ خیزاذیت تھی ، سیاسی کارکنوںکو لاہور قلعے جیسی جگہوں پر قیدو بند کی صعوبتیں سہنی پڑتیں ۔ لوگ بلوچستان یا ملک کے کچھ دیگر حصوں میںاب بھی ''غائب ‘‘ ہوسکتے ہیں ۔ یہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کا ایک پہلو ہے۔لیکن آج پاکستان میں کوئی بھی سیاسی قیدی نہیں۔ سیاسی جبر جنرل ضیاء دور کاغالب پہلو تھا، اور مت بھولیں، بھٹو دور میں بھی یہ موجود تھا، لیکن شکرہے ، آج پاکستان کے منظر نامے پر سیاسی جبر و تشدد کا کوئی نقش باقی نہیں۔ 
آج ہمارے ہاں سماجی گھٹن پائی جاتی ہے ، اقلیتوں سے نفرت انگیز جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، توہین کے حوالے سے مشکوک کیس دائر کیے جاتے ہیں ، ملک بھر کے تھانوں میں پولیس تشدد ایک معمول کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ مبینہ پولیس مقابلوں میں صر ف دہشت گرد ہی نہیں، عام مجرم بھی پار کردیے جاتے ہیں۔ جہادی دہشت گردی، بم دھماکوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، لیکن آج ماضی کے سیاسی جبر کی فضا بہت حد تک صاف ہے۔ اس کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ سیاسی فعالیت بڑی حد تک دم توڑ چکی ہے ۔ لوگ گلیوں میںکسی حد تک احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں لیکن اُس وقت جب کسی طاقتور ، فرض کریں پولیس، کی طرف سے کسی کمزور پر زیادتی کی جائے ۔ لوگ کسی فوری داد رسی کے لیے اپنے علاقے کی سڑکیں بند کردیتے ہیں، اورجیسے ہی مقامی حکام اُنہیںانکوائر ی کے وعدے کا لولی پاپ دیتے ہیں تو وہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ تاہم عوامی تحریکیں، جیسی کبھی یہاں چلاکرتی تھیں، اب دکھائی نہیں دیتیں۔ عوام، اور حتیٰ کہ تحریکوں کی قیادت کرنے والا سیاسی طبقہ اب نقاہت اور کاہلی کا شکار ہے۔ سیاسی عمل میں اُن کی پسندیدہ سرگرمی اب ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر پروگراموں کے شرکا کو چیخ وپکار کرتے دیکھنا ہے ۔ ٹی وی پروگراموں نے اب عوامی احتجاج کی جگہ لے لی ہے ۔ 
آخری مرتبہ گلیوں اور سڑکوں پر عوامی احتجاج وکلا تحریک کے دوران دیکھنے میں آیا تھا جب چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جنرل پرویز مشرف نے گھر بھیجنے کی کوشش کی ۔ چیف صاحب کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی اُس تحریک کے دوران ایسے ایسے دعوے کیے گئے کہ اُنہیں اب یاد کریں تو ہنسی آجاتی ہے۔ اُن لانگ مارچوں کے دوران کہا گیا کہ آخر کار پاکستان قانون کی حکمرانی کے راستے پر چل نکلا ہے ۔ مجھے وہ ٹاک شو یاد ہے جس میں چوہدری اعتزاز احسن سے ملکی معیشت کے بارے میں پوچھا گیا تو موصوف نے جواب دیا کہ عدلیہ کی بحالی معیشت سمیت ہر چیز کو درست کردے گی۔ آج اعتزاز احسن کا تجزیہ قدرے کم جوشیلا ہے، اب و ہ کہتے ہیں کہ اُس تحریک نے قوم کو اگر کوئی قابل ِ ذکر چیز دی تو پرتشددوکلا اور خود سر جج تھے۔ یہ تاثر غلط نہیں، لیکن اس سے ایک اہم نکتہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ۔ عدلیہ میں کچھ قباحتیں ہوں یا نہ ہوں لیکن یہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ اس تحریک کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان میں آزادی کا عنصر نمایاں ہوگیا ۔ ماضی میں، وکلا تحریک سے پہلے، میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ہائی کورٹ کے کوئی جج صاحب اورنج لائن منصوبے پر حکم ِ امتناعی جاری کرتے ، اور نہ ہی میری چشم ِ تصور اُس ماحول کو دیکھ سکتی جس میں عدالت ِ عالیہ کا بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے ۔ 
پی ایم ایل (ن) کے چند ایک وزرا کی طرف سے کچھ احمقانہ بیانات ضرور آئے ہیں لیکن مجموعی طور پر حکمران جماعت سپریم کورٹ پر کسی قسم کا عوامی دبائو ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ یقینا ہم نے ایسی عوامی ریلیاں نہیں دیکھی ہیں جو ترک صدر، طیب اردوان نے ترک عدالتوں کے خلاف نکالی تھیںکیونکہ اُن کے خیال میں ترک عدلیہ فتح اﷲ گولن کے لیے ہمدردی رکھتی تھی۔اب چاہے اس فیصلے سے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ جائے یا عوام کو تائو آجائے ، ایک بات یقینی ہے کہ جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ فاضل جج صاحبان کی اپنی صوابدید کے مطابق ہوگا۔ اُن پر کسی طر ف سے ہلکے سے اثر، چہ جائیکہ ڈکٹیشن ، کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیومالائی داستانوں میںمستبد کا درجہ دیوتائوں کے مساوی ہوتا ہے ، ان کے پاس تاریخ رقم کرنے کی طاقت موجود ہے ۔ 
اس دوران تجسس نہ صرف اپنی جگہ پر موجود، بلکہ جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں، یہ مزید گہرا بھی ہوتا جارہا ہے ۔ اب پوچھا جانے والا سوال یہ نہیں ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، بلکہ یہ سامنے کب آئے گا۔ لیکن ٹھہریں، میں یہاں کچھ بھول رہا ہوں ۔اس وقت کیلنڈر پرمارچ کی پندرہ تاریخ ہے ، اور رومن تاریخ میں وسط مارچ کو ایک اہمیت حاصل ہے ۔ پندرہ مارچ کو جولیس سیزر کا قتل ہوا ، اور اس واقعہ کو شیکسپیئر نے اس موضوع پر لکھے گئے ایک کھیل میں امر کردیا۔ ایک نجومی سیزر کو خبردار کرتا ہے ۔۔۔''مارچ کے وسط سے خبردار رہنا‘‘، لیکن التباسی خوش فہمی کا شکار سیزر اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ کیس کی سماعت کرنے والے جج ، صاحبان ِعلم ہیں، اور وہ شیکسپیئر پر نظر رکھتے ہوں گے۔ گویا وہ وسط مارچ کے مطلب ، بلکہ اس کی اہمیت سے بھی واقف ہوںگے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں