اس وقت کسی اور معاملے کی کوئی اہمیت نہیں، ہر چیز ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ قوم، یا اس کا سیاسی طبقہ دم سادھے پاناما کیس کے فیصلے کا منتظر ہے۔ یہ کب آئے گا؟ یہ کیا ہو گا؟ پاکستان کے مستقبل قریب کا دارومدار سی پیک، افغانستان کی صورت حال یا بھارت کے ساتھ تعلقات پر نہیں، بلکہ اس کیس کا فیصلہ اس کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ شرط یہ ہے کہ فیصلہ واضح ہو اور اس میں مرکزی معاملے، جو شریف فیملی کے خلاف الزامات ہیں، سے اغماض نہ برتا گیا ہو۔
وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے شاندار وکلا کوئی قابلِ اعتماد وضاحت پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ مکتوب قطری کا کاغذی پیراہن ہی اُن کی واحد ڈھال تھا، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کی آزادی اور دیانت پر کسی کو کلام نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس انتظار میں مزید بے تابی کا عنصر شامل ہوتا جا رہا ہے، کہ فیصلہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ کچھ لوگ کہتے سنائی دیے کہ یہ پندرہ مارچ کو آئے گا، لیکن وسط مارچ گزر گیا، تو پھر کہا گیا کہ محترم جج صاحبان یومِ پاکستان، تئیس مارچ کی فضا کو مکدّر نہیں کرنا چاہتے تھے، جبکہ میرا خیال ہے کہ اگر فیصلہ اس سے پہلے آ جاتا تو یہ ایک یادگار یومِ پاکستان بن کر تاریخ کی کتب میں نمایاں حیثیت پاتا۔
لیکن شاید مجھ جیسے لوگوں نے اس فیصلے سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ یہ فیصلہ بھی پاناما انکشافات کی طرح آسمان سے نازل ہونے والی ایک بلائے ناگہانی ہو گا اور اس ملک کی سیاسی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔ قطع نظر اس سے کہ ہم کیا چاہتے ہیں، اس کے سٹیک کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ یا تو نواز شریف کو بری کر دیا جائے گا، گو اس کا مطلب کلین چٹ دینا نہیں بلکہ جزوی طور پر رہا کرنا ہے۔ یا پھر عدالت ان کے معاملات پر گہرے شکوک و شبہات کا اظہار کرے گی، نیز اُن کی دروغ گوئی بھی سامنے آ جائے گی۔ اس صورت میں ان کے نااہل قرار دیے جانے کا راستہ کھل جائے گا۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پی ایم ایل (ن) کو ہلا کر رکھ دے گا۔ ایک تلاطم کا سا سماں پیدا ہو جائے گا؛تاہم یہ امید افزا اور رجائیت آمیز صورتِ حال ہو گی۔ ایک اور ممکنہ راستہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم کی سخت الفاظ میں سرزنش کر دی جائے، لیکن اس کے کوئی قانونی نتائج نہ ہوں۔ اس صورت میں وزیرِ اعظم باقی سال اگلے انتخابات کی تیاری کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کرنے اور فیتے کاٹنے میں مشغول رہیں گے۔ ہم دو باتیں نوٹ کرسکتے ہیں: 1) جج حضرات پر کوئی دبائو نہیں، وہ جو بھی فیصلہ کریں، اُن کا اپنا اور اپنی صوابدید کے مطابق ہو گا، اور‘ 2) اُن کی سوچ کسی پر بھی آشکار نہیں ہوئی۔ اُنھوں نے اپنے خیالات کو مکمل طور پر چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کیا فیصلہ ہونے جا رہا ہے، کسی کو ایک لفظ کی بھی بھنک نہیں پڑی۔ ہر کسی کو تجسس ہے، ہر کوئی تاریکی میں ہے۔ شریف فیملی دلیر دکھائی دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ بھی اندھیرے میں ہے۔ یہ ہر کسی نے دیکھا کہ پی ایم ایل (ن) نے سکوت اختیار کر لیا ہے، حتیٰ کہ اس کی کچھ دیر تک سنائی دینے والی نعرے بازی بھی دم توڑ چکی ہے۔ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں صورتِ حال کو پڑھنے میں غلطی کرتے ہوئے اس بات سے بے خبر ہوں کہ تاریکی میں کیا ہو رہا ہے، لیکن حکمران خاندان کے پاس دعائیں اور ورد وظیفے کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔
یہ بات شریف برادران کے متعلق بارہا کہی جا چکی ہے کہ وہ بہت سے طوفانوں سے بچ نکلے۔ ایسے ایسے مقدمات اور الزامات جو دوسروں کے حق میں مہلک ثابت ہوتے، اُنہیں گزند پہچائے بغیر گزر گئے۔ ہمارے پاس آئی ایس آئی کے ایک چیف کا سپریم کورٹ کے سامنے دیا گیا بیانِ حلفی موجود ہے کہ 1990ء کے انتخابات کے موقع پر پی ایم ایل (ن) سے تعلق رکھنے والے کچھ سیاست دانوں میں رقم تقسیم کی گئی۔ شرفا کی اس فہرست میں نواز شریف اور شہباز شریف کے نام نمایاں ہیں۔ ذرا تصور کریں اگر پی پی پی پر ایسا کوئی الزام ہوتا تو کون سی قیامت ہے جو اس پر نہ ٹوٹتی‘ لیکن شریف برادران کا بال تک بیکا نہ ہوا۔ اس کے بعد ماڈل ٹائون کیس کو لے لیجئے، جس میں پولیس کی فائرنگ سے چودہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے لیکن اس کا بھی کچھ نہیں بنا۔ پولیس افسران کس کے احکامات کی تعمیل کر رہے تھے؟ مکمل خاموشی ہے۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کہاں ہے؟ خاموشی۔ اور بظاہر انصاف کے ایوان بھی اس کی بابت کچھ نہیں پوچھ رہے۔
پاناما تاریخ رقم کرنے کا ایک موقع ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، اس کے پاس پاکستان کے مستقبل کو ڈھالنے کا موقع ہے۔ کچھ دیگر اہم عدالتی فیصلوں کے نتائج محدود اور مختصر مدت کے تھے۔ جب جنرل ضیا، اور بعد میں پرویز مشرف نے شب خون مار کر حکومت کا تختہ الٹا اور سپریم کورٹ نے ان اقدامات کی توثیق کر دی تو اس کے نتائج فوری، لیکن وقتی تھے؛ تاہم پاناما کیس کا فیصلہ موجودہ سیاسی بساط کو الٹ کر رکھ سکتا ہے۔ ضیا نے بھٹو کا تختہ الٹا، لیکن پی پی پی زندہ رہی گو فوجی حکمران کو اس کی توقع نہیں تھی، لیکن ایسا ہی ہوا۔ دوسری طرف پی ایم ایل (ن) مشرف کے اقدام کے فوراً بعد بکھرنا شروع ہو گئی۔ اس کے نصف کے قریب رہنما بھاگ کر ق لیگ کی طرف چلے گئے۔ 2002ء کے انتخابات میں پنجاب کے ایسے بہت سے انتخابی حلقے تھے جہاں پی ایم ایل (ن) کو کھڑا کرنے کے لیے امیدوار تک نہ ملے۔ دراصل یہ ایک ایسی جماعت ہے جس کے بچائو کے لیے اقتدار ضروری ہے۔ ان سے اقتدار لے لیں، یا اس کے ڈھانچے پر ضرب لگائیں تو اس کے سیاسی قلعے کی فصیل منہدم ہونا شروع ہو جائے گی؛ چنانچہ اگر کوئی یہ سمجھ رہاہے کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کے خلاف آیا تو ن لیگ احتجاجی ریلیاں نکالنے لگے گی تو اسے اپنی سوچ پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس کے ایم این اے اور ایم پی اے گلیوں اور سڑکوں پر آنے کی بجائے دیگر دستیاب امکانات کا جائزہ لیتے دکھائی دیں گے۔ پاکستانی سیاست کا یہی سکہ رائج الوقت ہے۔
ایوب خان کو ہلانا ناممکن دکھائی دیتا تھا، لیکن جب احتجاجی تحریک چلی تو اُن کے قدموں تلے زمین ہلنے لگی۔ 1977ء کے انتخابات سے پہلے بھٹو کی طاقت کا سورج بھی نصف النہار پر تھا۔ جب انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو اُنھوں نے اور اُن کی جماعت نے ایسی قابلِ اجتناب غلطیاں کرنا شرو ع کر دیں‘ جنہوں نے حالات کا رخ تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ مارچ 2007ء میں مشرف ہر سفید و سیاہ کے مالک دکھائی دیتے تھے، لیکن پھر ایک ناگہانی بلا کی طرح ایسے واقعات پیش آئے کہ اُن کا طاقتور دکھائی دینے والا قلعہ ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ 2016ء کے آغاز میں شریف برادران کے سامنے واحد مسئلہ جنرل راحیل شریف تھا۔ اُس وقت سیاسی اور ملکی افق پر سپہ سالار کی مقبولیت کا سورج جگمگا رہا تھا، اور پاناما نامی کسی چیز کا دور دور تک کوئی شائبہ نہ تھا‘ لیکن پھر جیسے ایک برق سی کوندی، اور ایک نئی صورتِ حال سامنے آ گئی۔
جسٹس کھوسہ بنچ کے لیے اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنا یا اسحاق ڈار کے منی لانڈرنگ کے اعتراف کو کھنگالنا کوئی مجبوری نہ تھی، لیکن جج صاحبان نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر سماعت مکمل ہونے پر بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور یوں موجودہ سسپنس کا ماحول پیدا ہو گیا۔ کیا یہ تمام ڈرامائی واقعات اس لیے پیش آئے تھے کہ ان کا اختتام عامیانہ سا ہو؟ کیا تمام ہنگام ہائے شوق کی منزل گھر گرہستی کا معمول ہونا چاہیے؟ چونکہ ہمیں بہت سے معاملات کا علم نہیں، لہٰذا صرف وجدان اور تخیل ہی ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ بڑے واقعات فوراً ہی وقت کی دھند میں غائب نہیں ہو جاتے، وہ کسی انجام کی طرف ضرور بڑھتے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی سماعت اور بنچ کے تبصرے بلاوجہ نہیں تھے۔ وہ کسی اور کھیل پر پردہ ڈالنے کے لیے نہیں تھے، امکان ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی مطلب ضرور نکلے گا؛ چنانچہ تجسس ابھی اپنی جگہ پر موجود ہے، بلکہ اس ڈرامے کا بہتر ین حصہ ابھی نظروں کے سامنے آنا باقی ہے۔