"AYA" (space) message & send to 7575

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
پاناما کیس کا فیصلہ پڑھنے کے بعد اس تاثر کو ذہن سے جھٹکنا مشکل ہے کہ فیض صاحب نے یہ لافانی اشعار 14 اگست نہیں، 20 اپریل کے حوالے سے لکھے تھے۔ فیصلے کے زیادہ تر حصے نے شریف فیملی کی لندن اور دیگر مقامات پر چھپائی ہوئی دولت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ احتساب اور ریاست کے معاملات چلانے کے لیے ایمانداری کی ضرورت پر بھی کافی اخلاقی ہدایت موجود ہے؛ تاہم اس کا فوری نتیجہ صاف اور سب کے سامنے ہے۔ 
نواز شریف کو اپنے طویل سیاسی کیریئر کے کٹھن ترین قانونی چیلنجز کا سامنا تھا اور وہ بال بال بچے۔ اگر مزید ایک جج صاحب ادھر سے اُدھر ہو جاتے تو ان کا کھیل ختم تھا۔ عملا اُنہیں bail out کر دیا گیا ہے۔ تمام قانونی دلائل، وضاحتیں اور توجیحات ایک طرف، فیصلے کا صاف نتیجہ یہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اُنہیں کوئی کلین چٹ نہیں ملی اور نہ ہی الزامات سے بر ی کیا گیا ہے، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ نااہلی کی تلوار اُن کی سیاسی گردن پر نہیں گری۔ اور پاکستان میں بچ نکلنے کی ہی اصل اہمیت ہے نہ کہ اعلیٰ اخلاقیات کی پاسداری کی کہانیوں یا بے داغ کردار کے تاثر کی۔ اُن کا عہدہ بچ گیا، اگرچہ لگائے گئے الزامات پہلے کی طرح اپنی جگہ پر موجود ہیں، لیکن اُن کے وفاداروں کے لیے ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ وہ تو فیصلے کو اپنی واضح فتح قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اُن کے رہنما نے مقدس پانی سے اشنان کر لیا ہے۔ 
جس جج صاحب نے کہا تھا کہ پاناما کیس کا فیصلہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا، اُن کا فرمانا درست تھا۔ اس فیصلے کو جس حوالے سے بھی دیکھیں، ذہانت کا ایک شاہکار ہے۔ تمام پانچوں ججوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وزیر اعظم یا اُن کے خاندان کی دولت پر اٹھائے گئے سوالوں کا جواب نہیں ملا، رقم کی ترسیل کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا، کوئی بینک تفصیل سامنے نہیں رکھی گئی۔ پانچوں فاضل ججوں میں سے کسی نے قطری شہزادے کے دونوںخطوط کو اہمیت کے قابل نہ سمجھا۔ لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ دو جج صاحبان ایک نتیجے پر پہنچے اور تین جج صاحبان مختلف نتیجے پر۔ 
اب اکثریتی فیصلے کے مطابق اس کیس کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے جسے ساٹھ روز کے اندر اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنی ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کے سب سے بہترین حصے کا دارومدار اس امید پر ہے کہ ابہام اور غلط بیانیوں کی جس دھند کے پار فاضل عدالت نہ جا سکی اور کچھ تلاش نہ کر سکی، اب ان سے کہیں کمزور اور کم درجے کی جے آئی ٹی اس میں کامیاب ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر لوگوں نے گبن کی شاہکار تخلیق ''رومن سلطنت کا زوال‘‘ نہ پڑھی ہو، لیکن وہ اپنے اداروں کی تاریخ سے واقف ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں، اور اس ضمن میں کسی کو انہیں کچھ سکھانے کی ضرورت نہیںکہ پاکستان کی تاریخ میں، اس کے قیام سے لے کر اب تک، کسی کمیشن، ٹربیونل یا انویسٹی گیشن نے کوئی بامقصد نتیجہ نہیں نکالا۔ ان کے ذریعے صرف یا تو کسی ایشو سے توجہ ہٹائی گئی یا اس کی باعزت تدفین کر دی گئی۔ 
کالم کی گنجائش اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ بنائے گئے کمیشنز اور جے آئی ٹیز کے انجام کا ذکر کیا جا سکے، لیکن اگر ہم حالیہ تاریخ کے کچھ صفحے ہی پلٹیں تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ماڈل ٹائون قتل کیس کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والے یک رکنی جوڈیشل کمیشن کا کیا بنا؟ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی کا کیا بنا؟ یہ ہلاکتیں کسی دور افتادہ ویرانے میں نہیں، لاہور کے قلب میں ہوئی تھیں۔ ہم ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی جانتے ہیں۔ پولیس کی براہِ راست فائرنگ کے نتیجے میں دو خواتین سمیت چودہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ کس نے ڈاکٹر قادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ ہلاکتیں ہوئیں؟ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر نہ لائی گئی، اسی طرح جے آئی ٹی کی تحقیقات پر بھی پُراسراریت کا پردہ ڈال دیا گیا۔ 
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مطابق 1990ء کے انتخابات، جن میں نواز شریف پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم بنے، دھاندلی زدہ تھے۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اُس وقت نواز شریف اور ان کی جماعت کے کچھ سیاست دانوں کی طرف سے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام (جو اصغر خان کیس کہلاتا ہے) کی بھی تحقیقات کی جائیں اور قصوروار ثابت ہونے والوں کو سزائیں دی جائیں۔ اس ضمن میں نواز شریف سے بھی ایف آئی اے کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم نے تحقیقات کیں۔ ان کی طرف سے پیش کیا گیا جواب پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں۔ فرمایا کہ الیکشن مہم کے دوران اتنے افراد سے ملاقات ہوتی ہے کہ اُنہیں نہیں یاد اگر آئی ایس آئی کے کسی مبینہ کارندے نے اُن کے ہاتھ پیسے تھمائے تھے۔ لیکن اگر ایسا واقعی ہوا ہے تو وہ تمام رقم، مع سود واپس لوٹانے کو تیار ہیں۔ معاملہ ختم۔ 
یہ دلیل تو ہر کوئی دے سکتا ہے، اور پھر جیلیں ویران ہو جائیں۔ نواز شریف کے لیے منی لانڈرنگ کرنے پر اسحاق ڈارکا ایک طویل اعترافی بیان موجود ہے؛ تاہم سیاسی ماحول میں تبدیلی کے ساتھ، جبکہ پی پی پی مرکز میں اور پی ایم ایل (ن) پنجاب میں اقتدار میں آ گئی، تو تحقیقاتی ایجنسیوں کو اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں دلچسپی نہ رہی۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُنھوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے اعتراف پر فیصلہ لے لیا کہ اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں کیونکہ یہ جبر اور دبائو کے تحت دیا گیا تھا۔ 
یہ ہے اس ملک میں انصاف کی حالت۔ میڈیا میں بدعنوانی کی تمام تر گفتگو ایک طرف، کیا طاقت ور اور بااختیار افراد کا کبھی احتساب ہوا ہے؟ اس اسلامی جمہوریہ میں ہمیں لفظ احتساب بہت مرغوب ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کا عملی مصرف کیا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری تاریخ میں بننے والے تمام کمیشنز اور جے آئی ٹی بے نتیجہ رہی ہیں؛ چنانچہ پاناما فیصلے کے نتیجے میں قائم ہونے والی جے آئی ٹی سے کس کو کسی معجزے کی امید ہے؟ 
پاناما سماعت نے ایک تاریخی موقع فراہم کیا تھا۔ فیصلہ اُس تاریخی سطح پر نہیں پہنچ پایا۔ اگر تھوڑا سا ترازو دوسری طرف جھکتا تو منظر یکسر بدل جاتا۔ اور ایسا ہوتا تو نئی سیاسی حرکیات جنم لیتیں، عوام الناس کا پھر سے اداروں پر اعتماد بحال ہو جاتا، اور پھر ہم شاید ورڈز ورتھ کی زبان میں کہہ سکتے۔۔۔ ''اس صبح کو دیکھنے والے خوش قسمت ہیں‘‘۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ بیس اپریل کا معرکہ دلیری کی بجائے احتیاط کے ہاتھ رہا۔ 
چنانچہ فیض صاحب کی بات ہی حرفِ آخر ہے:
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی 
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں