ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں۔ آپ اُن کے نظریات یا سیاست کے بارے میں جو بھی رائے رکھتے ہوں، ایک بات طے ہے کہ ٹرمپ بے کیف اور اکتا دینے والے شخص نہیں۔ وہ چونکا دیتے ہیں، حیران کر دیتے ہیں‘ لیکن وہ آپ کو بوریت کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ ہلری کلنٹن پورے امریکہ پر بے کلی طاری کر سکتی تھیں۔ اُن کی باتیں پرانی اور انداز جانا پہچانا اور انوکھے پن سے تہی داماں تھا۔ لیکن یہ بات آپ ٹرمپ کے بارے میں نہیں کہہ سکتے۔
برطانیہ بریگزٹ کی طرف بڑھ چکا، سکاٹ لینڈ میں ایک مرتبہ پھر آزادی کے نعرے سنائی دینے لگے ہیں، فرانس میں نئے سیاسی امکانات ہویدا ہیں۔ وہاں صدارتی انتخابات کے پہلے رائونڈ کی ووٹنگ میں لیڈ کرنے والے صاحب، عمانوائیل میکرون سیاسی میدان میں نووارد ہیں اور اس سے پہلے کسی انتخابی مہم کا تجربہ نہیں رکھتے۔ اُنہیں دوسرے رائونڈ میں انتہائی دائیں بازو کی امیدوار، میرین لی پن کا سامنا ہے۔ ان دونوں میں سے جو بھی جیت جائے، وہ ایک نئے عہد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ روایتی سیاسی جماعتوں، سوشلسٹ اور رپبلکن، کے نمائندے بری طرح ناکام رہے ہیں۔
آپ اس صورتِ حال کا پاکستان سے موازنہ کریں: ہم اُنہی جانی پہچانی راہوں کے اسیر، ہماری سیاست جمود کا شکار، نواز شریف 1980ء کی دہائی کی نشانی، ضیا دور کی باقیات، لیکن وہ سیاسی اکھاڑے میں ابھی تک موجود ہیں۔ جیسا کہ یہی کافی نہ تھا، میڈیا کی فضائوں میں یہ تبصرے بھی سنائی دے رہے ہیں کہ وہ 2018ء کے عام انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ابھی پاناما کیس ختم نہیں ہوا، اور اگلے سال تک کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ان سیاسی پنڈتوں نے انتخابات کے متعلق اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ بدعنوانی اور لندن فلیٹس اور غیر ملکی بینکوں میں چھپائی گئی دولت سے صرفِ نظر کر لیں تو بھی شریف برادران اب بوریت کی علامت بن چکے ہیں۔ وہ اپنے بہترین دور میں بھی بھٹو صاحب کی طرح ولولہ
انگیز نہ تھے، لیکن اب ایک طویل عرصے سے وہی گھسے پٹے جملے، وہی جانے پہچانے بیانات اور وہی قائدین ہمارے سامنے ہیں۔ کتنی مرتبہ اس یاددہانی کی ضرورت ہے کہ لاہور اسلام آباد موٹر وے نواز شریف نے بنائی تھی؟ چاہے موٹر وے ہو یا کوئی اور تعمیرات، شریف برادران کی گفتگو اسی پر ختم ہوتی ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے کنزرویٹو پارٹی میں زندگی کی روح دوڑا دی تھی، لیکن اقتدار میں دس سال گزارنے کے بعد اُن سے ٹوریز تنگ آ گئے اور بغاوت کرتے ہوئے اُنہیں چلتا کر دیا۔ ٹونی بلیئر کی قیادت میں لیبر پارٹی نے مسلسل تین مرتبہ انتخابی کامیابی حاصل کی، اور یہ لیبر پارٹی کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے، لیکن دس سال کے بعد، اور عراق جنگ کے بارے میں دروغ گوئی کا انکشاف ہونے پر، پارٹی مسٹر بلیئر سے تنگ آ گئی اور اُن سے جان چھڑا لی۔
چین یک جماعتی ریاست ہے، لیکن وہ بھی یہ اصول تقریباً طے کر چکے ہیں کہ ہر دس سال بعد قیادت میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ جاپان میں وزرائے اعظم کی مسلسل تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ جنوبی کوریا کی ایک سابق صدر بدعنوانی کے الزام میں جیل میں ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی تبدیلی یکسانیت کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ سیاسی پنڈت درست کہتے ہیں کہ پی ایم ایل (ن) اگلے عام انتخابات جیتنے جا رہی ہے تو پھر ہمیں لمبی تان کر سو جانا چاہیے۔ ہم ملک میں ایک جملے کی بازگشت سنیں گے، ''انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبے‘‘۔ طلبہ میں مزید لیپ ٹاپ تقسیم کیے جائیں گے، شریف برادران کے ذہن میں تعلیم کو فروغ دینے کا واحد تصور یہی ہے۔ اپنے پچھلے دور میں اُنھوں نے پیلی ٹیکسیوںکا ڈھونگ رچایا تھا، اب ہم اورنج ٹیکسیوں کی بات سن رہے ہیں۔
ہاں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک نئی چیز ہے۔ شروع میں اس میں ایک تازہ کھنک موجود تھی، لیکن اب اس کے بارے میں ایسا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے جیسے یہ راہداری فعال ہوتے ہی پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ صحافت یکسانیت کی سرزمین میں بارآور نہیں ہوتی، اور ہمارے ہاں یکسانیت کی فضا گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں مزید پانچ سال کا اضافہ کر لیں‘ پھر بہتر ہو گا کہ مجھ جیسے افراد کشکول ہاتھوں میں تھامے درویش بن کر درگاہوں کی طرف نکل جائیں۔ (میں اس انداز میں بھٹ شاہ اور سہون شریف جانے کے خواب دیکھتا رہتا ہوں)۔
لیکن صرف شریف برادران پر ہی الزام کیوں؟ ہمارا قومی بیانیہ ہی اکتاہٹ سے لبریز، ایک ہی حمام گرد باد کا اسیر ہے۔ ایک وقت تھا جب میں سوچا کرتا تھا کہ بھارتی اخبارات میں کچھ نہیں ہوتا۔ جب دہلی جانا ہوتا تو میں صبح کافی سارے اخبارات خریدتا اور آدھے گھنٹے میں اُنہیں دیکھ لیتا۔ اب یہی صورتِ حال ہمارے اخبارات کی بھی ہے۔ میں روزانہ پانچ اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں، تین انگریزی اور دو اردو، اور صفحے پلٹتا جاتا ہوں، لیکن پڑھنے کی کوئی خاص بات نہیں، وہی گھسے پٹے بیانات اور وہی میگا پروجیکٹس۔ پرویز مشرف کی خبریں اخبار پر جچتی تھیں، یا کم از کم اُن پر لکھنے کے لیے کوئی موضوع تھا، جو کہ فوجی آمریت تھی۔ شروع میں تو بہت کم لکھاری اُن کی فوجی حکومت کے خلاف لکھتے تھے، لیکن جب صحافیوں کو احساس ہوا کہ یہ کوئی سخت گیر آمریت نہیں، بلکہ اس میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہے تو بہت سے یار دوست شیر ہو گئے۔ اُس وقت کراچی میں ایم کیو ایم کو فقیدالمثال طاقت حاصل تھی، اور صحافتی برادری کے لوگ ذاتی تحفظ کے احساس سے پھوٹنے والی دانائی سے راہنمائی حاصل کرتے ہوئے اس کے خلاف کوئی لفظ نہیں لکھتے تھے‘ بلکہ تنقید کرتے ہوئے ایم کیو ایم کا نام لینے سے بھی پرہیز کرتے‘ لیکن یہی صحافت مشرف پر تنقید کے نشتر چلانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتی۔
وکلا کی تحریک پر بھی لکھنے، بلکہ ٹی وی پر دکھانے کے لیے بہت کچھ تھا۔ ہم میں سے بہت سے ریلیوں میں شرکت کرتے، کیمروںکے سامنے تبصرے کرتے، اور یہ سب کچھ براہِ راست نشر ہوتا۔ یہ وہ وقت تھا جب وکلا کو تشہیرکا چسکا لگ گیا اور ہم سیاسی مبصرین جمہوریت کی عظمت کے گُن گاتے، آمریت کی مذمت کرتے اور وکلا ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے، کوئی بھی کیمروں کے سامنے سے ہٹنے کانام نہ لیتا۔ بہت ہی ولولہ انگیز وارفتگی کا ماحول تھا، اور ہم سب سمجھ بیٹھے کہ ہم انقلاب کے کسی لمحے میں موجود ہیں جہاں سے ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی سربلندی کا دور شروع ہو جائے گا۔ جنرل مشرف ایک کونے میں گھرے دکھائی دیتے تھے۔ ایک طرف لال مسجد کا تنائو تھا تو دوسری طرف وکلا تحریک کا دبائو، اور آہستہ آہستہ حالات پر اُن کی گرفت ڈھیلی ہونے لگی۔ اُن کا تختہ تو نہیں الٹا لیکن وہ ایک کمزور شخص بن چکے تھے۔
اگلے انتخابات میں نواز شریف کی کامیابی کی پیش گوئی کرنے والے سیاسی پنڈت غالباً شواہد کو پڑھنے میں غلطی کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاناما فیصلے بعد بھی وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر موجود ہیں، بالکل جس طرح وکلا تحریک کے بعد بھی مشرف صدر کے عہدے پر موجود رہے، لیکن کمزور ہو چکے تھے۔ الزامات اپنی جگہ پر موجود ہیں اور نواز شریف اور اُن کے بیٹوں کے لیے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینا آسان معاملہ نہ ہو گا۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ شریف فیملی کے وکلا سپریم کورٹ کو مطمئن نہ کر سکے، اور اس مرتبہ وکلا کی خدمات بھی حاصل نہ ہوں گی۔ اب نواز شریف اور اُن کے دونوں بیٹوں کو خود ہی جے آئی ٹی کو مطمئن کرنا ہو گا۔ یہ مشکل کام وہ کیسے سرانجام دیں گے؟ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ قطری خطوط کام نہیں دیں گے۔ اس موسمِ گرما میں آزمائش کی بھٹی دہکتی رہے گی، اور جے آئی ٹی باقاعدگی سے سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرتی رہے گی۔ یہ ابتلا بہت سخت جان افراد کے لیے بھی آسان نہیں ہو سکتی۔ بیوروکریسی سے نمٹنا ایک بات ہے، لیکن جب آپ بدعنوانی کی تحقیقات کا سامنا کر رہے ہوں تو آرمی چیف اور دیگر جنرلوں کے سامنے آنا اور بات ہے۔ اس کے لیے آپ اعتماد کہاں سے لائیں گے؟
لیکن پھر کیا ہو گا؟ ایک وقت تھا جب مجھ جیسے لوگ امید رکھتے تھے کہ ہمارے حالات ضرور بہتر ہوں گے۔ بھٹو کو اقتدار پر دیکھ کر ہم نے سوچا تھا کہ اب ہم بہتری کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ خواب کیسے چکنا چور ہوا۔ ہم نے سوچا تھا کہ ضیا کے بعد ایک نرالا جمہوری دور شروع ہو گا، لیکن یہ صرف ایک پہیے کا چکر ہی ثابت ہوا، کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی کوئی سفر طے ہوا۔