"AYA" (space) message & send to 7575

بھاری مینڈیٹ کے دیرینہ مسائل

تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم، جو ایک لحاظ سے ہماری قومی زندگی کے سب سے تجربہ کار سیاست دان گردانے جا سکتے ہیں، کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس پر وہ کبھی قابو نہیں پا سکے۔ شاید مزاج کی وجہ سے یا کسی نفسیاتی نکتے کی بنا پر وہ کسی بھی آرمی چیف کے ساتھ سہل طریقے سے نہیں چل سکے۔ یہ کسی ایک آرمی سربراہ کی بات نہیں ہے، جس سے بھی اُن کا واسطہ پڑا، اُس کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوتا رہا۔ 
اُنہیں جنرل اسلم بیگ کے ساتھ مسائل اور جنرل آصف نواز کے ساتھ سنگین اختلافات رہے۔ جنرل جہانگیر کرامت جیسے انتہائی شائستہ اور جینٹل مین چیف کے ساتھ بھی الجھ بیٹھے۔ اُن کے جنرل مشرف کے ساتھ مسائل کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں۔ اس کے بعد جنرل راحیل شریف کے ساتھ تو تمام دور میں تعلقات کشیدہ رہے۔ اب اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بھی نام نہاد ڈان لیکس پر ان کے اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کا وزیرِ اعظم آفس کے نوٹیفکیشن کو مسترد کرنا ایک غیر معمولی مثال ہے۔ فوج نے حکومتوں کی چھٹی کرائی ہے، وزرائے اعظم کو گھر بھیجا ہے لیکن ایسا بیان پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے جیسے (1) اس مسئلے پر فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا، (2) حکومت نے اس مسئلے کو غیر محتاط انداز میں ہینڈل کیا۔ 
جمہوریت پر لیکچر دینا اور یہ کہنا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو وہ لکیر عبور نہیں کرنی چاہیے تھی جو اُنہوں نے کی ہے، سب اپنی جگہ پر درست، لیکن حقیقی دنیا میں غالب حقائق آئینی نزاکتوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈان اخبار والی کہانی سامنے نہیں آنی چاہیے تھی۔ یہ غیر ذمہ دارانہ رویے کی انتہا تھی کہ حکومت اپنی ہی فوج اور انٹیلی جنس سروسز کے خلاف ایک کہانی کی تشہیر کر رہی ہے۔ دنیا میں ایسا اور کہاں ہوتا ہے؟ بند دروازوں کے پیچھے ہر بات کی جاتی ہے، لیکن آپ ایسے مواد کو اخبار کے پہلے صفحے کی زینت نہیں بناتے۔ خاص طور پر جب یہ الزام ہو کہ فوج دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتے ہوئے ملک کی سفارتی تنہائی کا باعث بن رہی ہے۔ یہ موقف تو بھارت پاکستان کے بارے میں اختیار کرتا ہے۔ وہ سرحد پار دہشت گردی کا الزام پاک فوج پر لگاتا ہے؛ تاہم فوج کی ناراضی کی وجہ اس کہانی کا مواد نہیں، جو اگر افشا نہ کیا جاتا تو شاید کسی کو اس کا پتہ نہ چلتا، بلکہ یہ قوی تاثر ہے کہ اس کا نام بدنام کرنے اور اس کی ساکھ مجروح کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔
نواز شریف کبھی بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیتے تھے، لیکن جب نواز شریف کے قریبی افراد ایسی حساس کہانیاں منظرِ عام پر لائیں تو اس پر کیا کہا جا سکتا ہے؟ اس پر نواز شریف کیا کہلائیں گے؟ کیا اس کے بعد فوج میں کوئی نواز شریف صاحب کے ساتھ حساس معاملات پر بات کرتے وقت دل میں اطمینان رکھے گا؟ حکومت چلانے والے خاص گروہ کو صورتِ حال کی سنگینی کا علم ہونا چاہیے تھا۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید سے وزارت کا قلم دان تو واپس لے لیا گیا لیکن وہ اب بھی وزیرِ اعظم کے قریب ترین رفقا میں سے ہیں۔ ایک انکوائری کمیشن قائم کیا گیا لیکن دوسری طرف اس معاملے کو لٹکائے رکھا۔ شاید امید کی جا رہی تھی کہ جنرل راحیل شریف کے بعد خطرے کے بادل چھٹ جائیں گے اور طوفان گزر جائے گا؛ تاہم اس معاملے پر ناراضی کسی ایک شخص کی ذات تک محدود نہ تھی بلکہ یہ تشویش اور غصہ تمام ادارے کا تھا‘ لہٰذا موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو یہ مسئلہ ورثے میں ملا۔ جب وہ افسروں سے خطاب کرنے مختلف گیریژنز میں جاتے تو اُن کے سامنے اس مسئلے کی بابت سوالات رکھے جاتے؛ چنانچہ وہ اسے کیسے فراموش کر سکتے تھے؟
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ ٔ امن کی فوج نہیں ہے۔ یہ فوج بہت سے محاذوںپر لڑ رہی ہے۔۔۔ فاٹا، لائن آف کنٹرول، داخلی سکیورٹی، کراچی وغیرہ، اور اس دوران آئے روز نوجوان افسر اور جوان اپنی جانوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران تو ایسے ہیں کہ ہلکی سی پریشانی محسوس ہو تو لندن اور دیگر مقامات کی طرف پرواز کر جاتے ہیں۔ اگر اُنہیں طبی معائنے کی ضرورت ہو تو وہ پاکستان کے ہسپتالوں کو اس قابل نہیں سمجھتے اور بیرونی ممالک کی طرف دوڑتے ہیں۔ کیا وزیرِ اعظم نے کبھی فاٹا یا دیگر مقامات پر فوجی دستوں سے ملاقات کرنے کی زحمت کی ہے؟ جب افغان سرحد پر تعینات ایک نوجوان افسر حکومت کی بدعنوانی اور بیرونی ممالک میں دولت چھپانے کی کہانیاں سنتا ہے‘ تو وہ کیا محسوس کرتا ہو گا؟ ڈان سٹوری پر اُس کا ردِعمل کیا ہو گا؟ اُس کے جذبات کھول اٹھیں گے، یا وہ بیٹھ کر 1973ء کے آئین کا مطالعہ شروع کر دے گا؟
نواز شریف کو جنرل راحیل شریف کے ساتھ مسائل تھے کیونکہ کہا جاتا تھا کہ جنرل صاحب کی حاصل کردہ شہرت اور مقبولیت کے سامنے حکومت پستہ قامت دکھائی دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی شخصیت کو اجاگر کرنے کی شعوری کوشش کرنے والا حلقہ اُن کے گرد موجود ہو لیکن اگر پاکستان کی سکیورٹی بہتر ہوئی ہے، اگر ٹی ٹی پی (TTP) اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے قدم اکھڑے ہیں، اگر کراچی نسبتاً ایک محفوظ شہر بن گیا ہے تو اس کی بنیادی وجہ فوج کی پیش قدمی ہے (فاٹا میں پی اے ایف کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا)۔ اگر ان سب محرکات کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ جنرل راحیل شریف مصطفیٰ کمال یا ڈیگال بننا چاہتے تھے تو بھی اُن کی رخصتی اور جنرل باجوہ جیسے غیر سیاسی جنرل کی آمدکے ساتھ سول ملٹری تعلقات معمول پر آنے چاہیے تھے۔ لیکن چند ماہ کے اندر اندر ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اور فوج کے درمیان ایک اور بحران نے سر اٹھایا ہے۔ اس کی کیا وضاحت کی جائے؟ کیا اس میں طبیعت کے ساختی اجزا کی کوئی خرابی کارفرما ہے؟
حیرانی کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کو سیاسی عروج فوج کی وجہ سے ملا، اُنہیں ضیا دور میں تیار کرکے میدان میں اتارا گیا،گورنر پنجاب جنرل جیلانی نے اُنہیں 1981ء میں پنجاب کا وزیرِ خزانہ چنا، اور یہاں سے اُن کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا۔ جنرل جیلانی کی سفارش پر جنرل ضیا نے اُنہیں 1985ء میں پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔ آئی ایس آئی کے چیف، جنرل حمید گل نے 1990ء میں وزیرِ اعظم بننے میں ان کی مدد کی۔ ایسا پسِ منظر رکھنے والے سیاست دان کے تو فوج کے ساتھ بہترین تعلقات ہونے چاہیے تھے، لیکن اس کی بجائے ہم کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف نے اپنے دور میں آنے والے ہر آرمی چیف کے ساتھ الجھنا ضروری سمجھا۔ کیوں؟ مسئلہ کہاں ہے؟ 
ایک وضاحت تو یہ ہو سکتی ہے کہ نواز شریف صاحب پنجاب کی اُس برانڈ کی بیوروکریسی کے ساتھ ہمیشہ خوش رہے ہیں‘ جس کی مہارت خوش آمد اور ہر بات پر 'یس سر‘ کہنے کی رہی ہے۔ فوج کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی آرمی چیف بھی، چاہے وہ کتنا ہی نرم خو کیوں نہ ہو، یہ طرزِ عمل اختیار نہیں کر سکتا۔ کوئی آرمی چیف، چاہے کتنا ہی شائستہ کیوں نہ ہو، عام سیاست دانوں کی طرح چرب زبان نہیں ہو سکتا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ دونوں بھائیوں، بڑے اور چھوٹے، میں اُس اعتماد کا فقدان ہے کہ وہ وردی پوش افسران کے سامنے تزویراتی اور عالمی معاملات، فرض کریں انڈیا اور افغانستان، پر فعال بات کر سکیں۔ خدا جانتا ہے کہ ہماری فوج میں بھی بقراطوں کی بہتات نہیں، لیکن ہماری سیاسی قیادت کی فہم و فراست کا یہ عالم ہے کہ وہ فوج کے ساتھ سنجیدہ نوعیت کی گفتگو کم ہی کر سکتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ نواز شریف ملک کے منتخب شدہ رہنما ہیں، لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ فوج کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمارا المیہ یہ ہے کہ جہاں ملک و قوم کو استحکام درکار ہے، وہاں ایک کے بعد دوسرا بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ 
مزید یہ کہ ڈان لیکس وہ آخری دریا نہیں جو وزیرِ اعظم کو عبور کرنا ہے ۔ پاناما کیس ابھی تمام نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کا مینڈیٹ رکھنے والی جے آئی ٹی نے وزیرِ اعظم اور ان کی فیملی کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنی ہیں۔ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر اس مجموعی صورتِ حال میں کوئی چیز یقینی ہے تو صرف یہ کہ پاناما فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم ہائوس میں مٹھائی کی تقسیم کچھ جلد بازی میں کی گئی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں