شہروں کو افقی طور پر وسیع کرنے کا ہمارا خبط تمام حدود عبور کر چکا ہے۔ لاہور کی مثال لے لیں، ایک وقت تھا جب پنجاب یونیورسٹی (نیو کیمپس) اور ٹھوکر نیاز بیگ شہر کی بیرونی حدود کی نشاندہی کرتے تھے۔ ان کے بعد دیہی علاقے کے مناظر شروع ہو جاتے۔ مشرق میں، بھارتی سرحد کی طرف، دیہات اور کھیت تھے۔ کاشت کاری کے لیے مختص وہ تمام زمین آج ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کا حصہ ہے۔ لیکن شہروں کی بے پایاں توسیع صرف لاہور تک ہی محدود نہیں۔ سینئر صحافی واصف ناگی نے حال ہی میں رونا رویا ہے کہ ملتان کے گرد و نواح میں ہائوسنگ سوسائٹیز کی تعمیر کے لیے آم کے باغات، جہاں مشہور چونسہ آم پیدا ہوتا ہے، کو کاٹا جا رہا ہے۔
پاکستان بھر میں قیمتی زرعی زمین کو اسی طرح تباہ کیا جا رہا ہے۔ کیا کسی نے اس کے نتائج پر غور کیا ہے؟ سیمنٹ، کنکریٹ اور انفراسٹرکچر اہم سہی، لیکن ایک توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور سائنسی اختراع میں ممتاز ترقی یافتہ اقوام بھی ارضیات کو نظر انداز نہیں کرتیں۔ درحقیقت وہ اقوام زراعت کے شعبے میں بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمارے لیے یہ لمحہ ٔ فکریہ ہونا چاہیے۔ شہروں کی توسیع ناگزیر سہی، لیکن اس پر نظر رکھنے اور اس عمل کو قواعد و ضوابط کے تابع کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت زمین میں بے دھڑک اور بلا روک ٹوک سرمایہ کاری اور رہائشی کالونیوں کی مشروم گروتھ تباہ کن عمل ہے۔ کیا اس مسئلے پر کسی کی توجہ ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس کا سادہ سا جواب نفی میں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ دیگر معاملات پر ہے۔ اُن کے پاس ان معاملات، جن سے کوئی فوری سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، پر توجہ دینے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی اُن کا اس طرف کوئی رجحان ہے۔ سڑکوں کی توسیع اور فلائی اوورز کی تعمیر سے ووٹ حاصل کرنا مقصود ہے۔ اسی طرح بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس کی تنصیب میں بھی سیاسی فائدہ نظر آتا ہے، چاہے ساہیوال جیسے زرعی ضلع کی زرخیز زمین پر کوئلے سے چلنے والا پلانٹ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر پنجاب یا سندھ کے وزرائے اعلیٰ شہری علاقوں کی توسیع کے مسئلے پر تقریر جھاڑیں تو اس اقدام سے اُنہیں ووٹ نہیں ملیں گے۔
ماہرِ معاشیات، ندیم الحق نے بہت متاثر کن انداز میں لکھا ہے کہ ہمارے شہروں کو اوپر کی طرف جانے کی ضرورت ہے، اس کا مطلب ہے کہ افقی پھیلائو کی بجائے بلند عمارتیں تعمیرکی جائیں۔ عمودی توسیع کی ایک عمدہ مثال ہانگ کانگ ہے جہاں زمین کی قلت ہے۔ وہ فلک بوس عمارتوں کا شہر بن چکا ہے۔ وہاں ہر طرف بلند عمارتیں دکھائی دیتی ہیں‘ جن میں زیادہ تر آبادی رہائش پذیر ہے، یعنی کم زمین کا وہاں بہترین استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ سنگاپور کے پاس بھی زمین کی کمی ہے۔ اس نے تو سمندر سے بھی ایک خاصا بڑ ا رقبہ کھینچ نکالا، اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
پاکستان میں شہروں کی توسیع کے پیچھے کارفرما دیگر عوامل کے علاوہ ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے شہروں کے اندرونی حصوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی دور تک، بلکہ تقسیم کے بعد بھی لاہور میں مال کے گرد و نواح کا علاقہ وہ تھا‘ جہاں بہترین گھر آباد ہوا کرتے تھے۔ یہ لاہور کا مرکزی حصہ تھا، جسے آپ انگریزی میں Downtown کہتے ہیں۔ وہاں آپ کو کیفے، چائے خانے اور فلیٹیز اور پارک لگژری جیسے ہوٹل ملتے تھے، اور جہاں لوگ بیٹھ کر فن اور ادب اور سیاسیات پر تبادلہ ٔ خیال کرتے تھے۔ نیز وہاں ایسے بہت سے مقامات تھے جہاں خوش مزاج افراد اپنے ذوق کے مطابق مشروبات نوش کر سکتے تھے۔ ٹیمپل روڈ (مزنگ سے لے کر چیئرنگ کراس تک) ، کوپر روڈ، ڈیوس روڈ، ایمپرس روڈ، کوئینز روڈ پُرسکون علاقے تھے۔ اُس وقت واحد ہائوسنگ سوسائٹی ماڈل ٹائون تھی جسے سر گنگا رام نے ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا، اور یہ شہر کے مضافات میں واقع تھی۔
یہ تھا برطانوی لاہور۔ اس سے پہلے مغل اور سکھ دور کا پرانا لاہور دیوار کے اندر اکبر کے شاہی قلعے اور اورنگ زیب کی پُرشکوہ بادشاہی مسجد کے قریب واقع تھا؛ تاہم وقت بدل گیا، ٹیمپل روڈ اور جیل روڈ پر کاروں کے شو رومز آن دھمکے، مال کے کیفے اور ریستوران غائب ہو گئے اور اُن کی جگہ جوتوں اور کپڑوں کی دکانوںنے لی لے۔ مخصوص مشروبات پر پابندی اور سرکاری نیکی اور پرہیز گاری کی یلغار نے مشروبات پیش کرنے والے مقامات بند کرا دیے۔ رقص و موسیقی کی پارٹیاں، جیسا کہ فلیٹیز میں دکھائی دیتی تھیں، ختم ہو گئیں، کبھی عوامی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سینما گھر ہوتے تھے‘ جو اجڑنے لگے۔ الغرض تمام علاقے کی کایا پلٹ گئی۔ اشرافیہ نے اس علاقے سے گلبرگ، اور پھر مزید خوشحالی کے دور میں کیولری گرائونڈ کا رخ کیا اور پھر ڈیفنس کی طرف نقل مکانی شروع ہوئی۔ اور یہ سلسلہ ابھی نہیں رکا کیونکہ لاہور تیز رفتاری سے چاروں طرف پھیل رہا ہے۔
میں جس نکتے کی طرف نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے سٹی ڈویلپرز میں رتی بھر عقل ہوتی، اور اگر وہ ہائوسنگ سوسائٹیز کے جنون میں قدرے کمی لانے پر قادر ہوتے تو لاہور کے پرانے اندرونی حصوں اور شاہانہ ناموں والی سڑکوں کو پھر سے دریافت کیا جا سکتا تھا۔ ان کی پرانی عظمت کو نہ صرف بحال، بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ جو حیثیت نیویارک کے لیے ٹائمز اسکوائر کی، یا لندن کے لیے سوہو (Soho) یا ویسٹ اینڈ کی ہے، وہی حیثیت اس پرانے حصے کی لاہور کے لیے ہو سکتی ہے۔ اگر مناسب سرپرستی کی جائے تو جوتوں اور کپڑے کی دکانوں کی جگہ ایک بار پھر کیفے اور ٹی ہائوس کھل سکتے ہیں؛ تاہم بحالی کے اس عمل کی سب سے اہم شرط یہ ہے مال کے فٹ پاتھوںکو موٹر سائیکلوں سے آزاد کر دیا جائے، اور ٹریفک کو قدرے منظم کیا جائے کیونکہ جیسا کہ آج کی صورتِ حال ہے، ایسا لگتا ہے کہ تمام شہر کاروں کے قبضے میں آ چکا ہے۔
پیرس اور کچھ دیگر شہروں میں یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک یا دو دن کے لیے ہر قسم کی گاڑیوں کی آمد پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ ایک کامیاب تجربہ رہا ہے۔ ذرا تصور کریں، اگر ایک یا دو دنوں کے لیے مال کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا جائے، اس پر کوئی کار یا موٹر سائیکل نہ آئے، صرف سائیکل یا وزیرِ اعلیٰ کی حال ہی میں متعارف کرائی گئی سرخ بسوں (یہ اقدام تمام اوورہیڈ میٹرو منصوبوں سے زیادہ فائدہ مند ہے) کو آنے کی اجازت ہو، تو اس سے ہر کسی کا بھلا ہو گا۔ دکاندار اور تاجر اس سے بطور خاص خوش ہوں گے کیونکہ پیدل چلنے والی خواتین اور بچوں کی تعداد میں اضافے سے مال پر کاروبار کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
لاہور کے اندرونی حصے اپنے مخصوص خدوخال رکھتے ہیں۔ وہاں اب بھی بہت سی پرانی عمارتیں اور مکانات ہیں جو شاندار ماضی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ کیا کیولری گرائونڈ بھی ایسا وصف رکھتی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ڈیفنس رہائش کے لیے ایک پُرآسائش جگہ ہو لیکن میرا خیال ہے کہ جذباتی لوگ بھی یہ نہیں کہیں گے کہ اس میں رہائش کے علاوہ بھی کوئی خوبی ہے۔ دنیا کے مشہور شہروں نے اپنے ماضی کی نشانیوں کو تباہ ہونے سے بچایا ہے۔ اُنھوں نے ان کی حفاظت اور پرورش کی ہے۔ لیکن ہم نے تاریخ اور روایت، دونوں کے ساتھ ہی سنگدلانہ سلوک کیا ہے۔ جہاں تک درخت اور سبزے کا تعلق ہے تو ان کے ساتھ ہمیں قومی سطح پر خدا واسطے کا بیر ہے۔ ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن ہم اپنے شہروں کو صاف رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اپنے بڑے شہروں، جیسا کہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لیے ہمیں ترک اور چینی کمپنیوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ دارالحکومت کے پاس ابھی تک سالڈ ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں، اگرچہ ہم نمود نمائش والے منصوبوں پر بے مقصد رقوم خرچ کرتے رہتے ہیں۔ کیا پاکستانی تخیل میں کوئی کجی پائی جاتی ہے؟
ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ یورپ میں جمہوریت آنے سے پہلے وہاں شہری خود مختاری آ گئی تھی۔ حتیٰ کہ بادشاہت کے دور میں بھی شہروں کے معاملات شہروں کے حاکم سرانجام دیتے تھے۔ شیکسپیئر کے دور میں بھی لندن اور دیگر پرانے شہروں کے لارڈ میئر ہوا کرتے تھے۔ یہاں پاکستان میں خود مختاری کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے بھی عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ یقینا پاکستانی جمہوریت کو تشریح یعنی Redefinition کی ضرورت ہے۔