اگر پاکستان کو آگے بڑھنا اور سامنے آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے تو اسے نئی قیادت درکار ہے۔ اس وقت ہمارا حکمران طبقہ تیس سال پرانا ہے۔ ہمیں مسندِ اقتدار پر نئے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں تازہ تصورات اور جدت آمیز فعالیت درکار ہے۔
حکمرانوں کی تبدیلی صرف سیاسی عمل سے ہی ممکن ہے، اس لیے 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات بہت اہم ہوں گے۔ وہ بہتر قیادت سامنے لانے کا موقع فراہم کریں گے، یا پھر ان سے اس عمومی تصور کو تقویت ملے گی کہ بیس کروڑ نفوس کے اس ملک میں تبدیلی ناممکن ہے۔ اور پھر ہمیں فقط ایسی چیزوں پر تکیہ کرنا پڑے گا، جیسا کہ پاک چین اقتصادی راہداری، اس امید پر بھروسا رکھتے ہوئے کہ چین سے بطور قرض لیے گئے سرمائے سے سڑکیں اور انفراسٹرکچر وہ معجزے رونما کریں گے جو ہم خود برپا نہ کر سکے۔
چین میں انقلاب چینی تصورات اور عزم کی بدولت آیا۔ ہم امید لگائے بیٹھے ہیں کہ چینی مدد اور تعاون سے اس سے ملتا جلتا انقلابِ پاکستان آ جائے گا۔ انقلابِ چین کی کٹھالی میں چینی عوام نے اپنی قسمت اور اپنے حالات بدلے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ چینی دوست ہمارا مقدر بدلیں گے۔ آزادی کے بعد انگریزی محاورے کے مطابق ہم نے تمام انڈے امریکی باسکٹ میں ڈال دیے۔ ہمارا جھکائو امریکہ کی طرف ہو گیا۔ ہم نے اپنے آپ کو مغرب کے ساتھ ملا لیا، اس لیے کہ ہماری اشرافیہ کو یقین تھا کہ ہماری قومی سلامتی کا تحفظ صرف اسی راہ پر چل کر ممکن ہے۔
شروع میں بھارت نے ہم پر کوئی حملہ نہیں کیا لیکن ہم نے ہندوستان کو ایک ہوّا بنا دیا۔ ہماری حکمران اشرافیہ نے اس تصور کو پھیلایا اور اسے قومی زندگی کا اولین اصول بنا دیا کہ بھارت پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان دیواریں راتوں رات ہی بلند نہیں ہوئیں۔ تقسیم کے بعد پہلے عشرے کے دوران دونوں ممالک کا سفر نسبتاً آسان تھا، لیکن 1965ء کی جنگ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ اس کے اختتام پر دیواریں بلند ہو گئیں اور نیشنل سکیورٹی پاکستان کا قومی نظریہ بن گئی۔ انڈیا نے ہم پر حملہ کیا، لیکن یہ 1971ء کی روداد ہے۔ اُس نے جارحیت کے لیے وقت کا خود تعین کیا جب مشرقی پاکستان میں حالات آلائو اور ابال کی طرف جا چکے تھے۔ بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھایا، اور جب یہ قصہ مکمل ہوا تو پاکستان دولخت ہو چکا تھا۔ مشرقی بازو الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے دو باہم مربوط الفاظ ''سازش‘‘ اور ''غداری‘‘ کا واویلا مچانا شروع کر دیا۔ ہمارے لیے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم کرنا آسان نہیں کہ دیگر عوامل کے ساتھ بنگلہ دیش کے اصل معمار مغربی پاکستان کے حکمران طبقات تھے۔
آج ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے تمام انڈے چینی ٹوکری میں رکھنے جا رہے ہیں۔ سویلین حکمران اور فوج بھی ایک ہی منتر پڑھ رہی ہے کہ سی پیک پاکستان کی قسمت بدل دے گی۔ عمومی اتفاق رائے سے اس کا نام ''گیم چینجر‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری سابق امریکی اور موجودہ چینی ٹوکریاں رنگ اور ساخت کے اعتبار سے مختلف ہوں لیکن ان میں جو قدر مشترک ہے وہ دوسروں پر انحصار کرنے کی ذہنیت ہے۔ اپنے تمام تر دعووں کے برعکس ہم دوسروں پر انحصار کرنے والی قوم ہیں۔ ہم نے ہمیشہ بیرونی سہارے تلاش کیے، ہمارا فولادی کشکول ہمیشہ آگے کو رہا اور ہم نے اسی فلسفے کی پیروی کی کہ دوسرے آکر ہمارے مسائل حل کریں گے۔
ہو سکتا ہے کہ سی پیک وہ الہ دین کا چراغ ثابت ہو جو ہم سمجھ رہے ہیں، لیکن انفراسٹرکچر کی مختلف تعمیرات ہماری راسخ شدہ عادات کو کیسے بدلیں گی؟ کیا ہم پہلے سے زیادہ محنتی ہو جائیں گے؟ کیا ہمارے کام کرنے کے طریقے بدل جائیں گے؟ کیا رشوت اور بدعنوانی ختم ہو جائے گی؟ کیا ہماری اشرافیہ ملکی دولت لوٹ کر بیرونی ممالک میں جمع کرنا موقوف کر دے گی؟ ہمارا تعلیمی نظام انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس میں مختلف طبقات کے لیے مختلف نظام ہیں۔ اول درجے کے سکول امرا کے لیے، ناقص سرکاری سکول عوام الناس کے لیے۔ کیا سی پیک ان روشوں کو تبدیل کر دے گی؟ کیا یہ اقتصادی راہداری ہمارے حکمران طبقوں کو ملک بھر میں یکساں نظامِ تعلیم متعارف کرانے کی
ترغیب دے گی؟ کیا اس کی وجہ سے ہماری یونیورسٹیاں علم اور تحقیق کے مراکز بن جائیں گی؟ کیا اس اسلامی جمہوریہ میں ہر طرف علم اور آگاہی کو فروغ حاصل ہو گا؟ کیا چین کے تعاون سے تعمیر کردہ کول پاور ہائوسز اسلامی جمعیت طلبہ کو ڈنڈے کے زور سے عقیدے کی عظمت قائم کرنے کے فریضے سے باز رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
ہمارے سکولوں اور کالجوں میں جماعتِ اسلامی کے طلبہ ونگ نے ڈنڈا بردار اسلام متعارف کرایا تھا۔ افغان جہاد اور اس میں ہماری شمولیت سے کلاشنکوف بردار اسلام نے اُس کی جگہ لے لی۔ کیا سی پیک عقیدے کے ان مسلح ونگز سے ہماری جان چھڑا سکتی ہے؟ کیا یہ مختلف لشکروں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرلے گی؟ ہمارے ہسپتالوں کی اصلاح کون کرے گا؟ شمالی کوریا کو دیگر مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن اس کے دارالحکومت، پونگ ینگ میں وہ مسائل نظر نہیں آتے جو اکثر تیسری دنیا کے دارالحکومتوں کا خاصہ ہیں۔ اس کی سڑکیں کھلی اور صاف ستھری، بہترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم، بہترین سکول اور ہسپتال۔ شہر میں نہ کوئی کچی آبادی ہے اور نہ ہی فقیروں کے لشکر۔ ہم ذرا اپنے بڑے شہروں اور سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں پر تو ایک نظر ڈالیں۔ کیا چینی قیادت سی پیک کے حصے کے طور پر ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم بھیج کر ہمارے ہسپتالوں کی حالت سدھارے گی؟ کیا چینی سنٹرل کمیٹی یا Politburo ہمیں مشورہ دے گی کہ ایک بستر پر دو مریضوں کو لٹانا درست نہیں، جیسا کہ لاہور جناح ہسپتال یا سروسز ہسپتال میں نظر آتا ہے۔ شہروں میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہمارا بڑا قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ خود ہم اپنا کوڑ ابھی نہیں اٹھا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے راولپنڈی اور لاہور کا کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لیے ایک ترک کمپنی، جبکہ کراچی کے لیے ایک چینی کمپنی سے معاہدے کر لیے ہیں۔ کیا یہ بھی اقتصادی راہداری کے ایجنڈا میں شامل ہے کہ ہمیں اپنا کوڑا کرکٹ خود اٹھانے کی تعلیم دی جائے۔
اب بات صرف سی پیک تک محدود نہیں بلکہ ہم اس سے بھی وسیع تر منصوبے، 'ون بیلٹ، ون روڈ‘ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس منصوبے کا کیا یہ بھی حصہ ہو گا کہ چینی دانشور آ کر ہمیں سمجھائیں کہ پلاسٹک کی اشیا سے پیدا ہونے والی تباہی، جو پلاسٹک بیگز کی صورت ہر جگہ موجود ہے، سے کیسے نمٹا جائے۔ پلاسٹک بیگز نے ہماری آبی گزرگاہیں مسدود کر دی ہیں اور یہ ہمارے قصبوں اور دیہات کو تباہ کر رہا ہے۔ ہماری عقل کا اندازہ لگائیے کہ ہمیں تو اس کی بھی جانکاری نہیں کہ پاکستان میں کون سے درخت اگائے جائیں۔ اس بارے میں انگریزوں کا فہم ہم سے کچھ بہتر تھا۔ اُنھوں نے یہاں آکے دیسی پودے لگائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی باہر سے آ کے بتائے کہ فلاں درخت لگا لو، جیسا کہ یوکلپٹس، جو کہ ہماری زمین کے لیے تباہ کن ہے، ہم وہی کرنے لگ پڑتے ہیں۔ کیا اقتصادی راہداری ہمیں صیحح درخت لگانے کا درس دے گی؟
کون سی اوپر سے اترنے والی دانش کی بدولت ہم آخرکار یہ سمجھ پائیں گے کہ دنیا میں مفت لنچ کہیں نہیں ملتا۔ کم از کم حقائق میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب امریکی ہمیں کچھ دیتے تھے، یا ہمارے کشکول میں کچھ ڈالتے تھے‘ وہ مفت میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ ایسی مہربانیوں کے عوض ہمیں بہت کچھ کرنا پڑتا تھا۔ جیسا کہ ہم نے ضیا دور میں اور مشرف دور میں بھرپور طریقے سے دیکھا۔ اگر ہماری اشرافیہ سی پیک کے گن گاتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ چینی دوست ہمارے لیے فری لنچ کا اہتمام کرنے جا رہے ہیں تو ہم اس سے بڑی تاریخی غلطی نہیں کر سکتے۔ وہ ہوشیار کاروباری بزنس مین کی طرح اس واضح خیال کے ساتھ آ رہے ہیں کہ وہ لگائے جانے والے سرمائے کے عوض منافع کمائیں گے اور اُنہیں اس منصوبے سے بہت تزویراتی فائدے ہوں گے۔ کیا ہمارے پاس بھی اتنی عقل ہے کہ ہم بھی اسی تندہی سے مفادات کا تحفظ کر سکیں اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکیں؟
فوج سی پیک کی کامیابی کے لیے پُرعزم ہے، سویلین بھی پُرعزم ہیں؛ تاہم ڈان اخبار کی ظاہر کردہ سی پیک کی بنیادی دستاویز ہماری نہیں، چینیوں کی تحریر کردہ ہے۔ کیا ہمارے رہنمائوں نے اس کا احتیاط سے مطالعہ کیا ہے؟ کیا ہم اس کے ممکنہ نتائج سے باخبر ہیں؟ کیا ہم نے بھی اس کے مضمرات پر اسی طرح سے گہرا غور کیا ہے جیسا کہ چینی دوستوں نے؟