پاناما کیس جب تک زندہ رہا، خاصا ڈرامائی، بلکہ دھماکہ خیز تھا۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے کئی ایک ہیرو اپنے انداز، اپنی کلاکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے ماحول کو گرم رکھے ہوئے تھے۔ اب یقین کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ یہ کھیل تقریباً ختم ہو چکا۔ پاکستان کی مقامی اختراع، جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم، جو ہنگامہ اور ہلچل مچانے میں فقیدالمثال، لیکن عملی نتیجہ صفر، کے ہاتھوں میں آنے کے بعد یہ معاملہ رفتہ رفتہ فراموشی کی دنیا میں کھو رہا ہے۔
مشکلات کے گرداب میں گھرے ٹرمپ کے وائٹ ہائوس کو اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم فوراً پاکستان بھیجنی چاہیے۔ امریکی قانون پریشان کن پہلو رکھتا ہے، اور جب امریکی صدور سے غلط کاریوں کا ارتکاب ہوتا ہے، یا وہ طے شدہ راستے سے سنگین انحراف کرتے ہیں تو اُن کے خلاف خصوصی طور پر مقرر کردہ تفتیش کار تحقیقات کرتے ہیں، جن کے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں، جیسا کہ صدر نکسن کے ساتھ ہوا۔ اگر ٹرمپ کی ٹیم پاکستانی تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے وائٹ ہائوس کے روس کے ساتھ رابطے کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لیے کوئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے لے تو اُن کے تمام مسائل راتوں رات غائب ہو جائیں گے۔
پاکستانی اختراع کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی۔ ایک مرتبہ جب کوئی معاملہ، جس کی تفتیش مقصود ہو، اس کے سپرد کر دیا جائے تو اس پر فاتحہ پڑھ لیں۔ اس لیے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ جب ایک جے آئی ٹی حکمران خاندان، شریف فیملی پر منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے کے الزام کی تحقیقات کا ذمہ اٹھا چکی تو ہمیں ظن و تخمین کے گھوڑوں کو لگام دے کر ایک طرف ہو کر سکون سے بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ جے آئی ٹی بھی دیگر جے آئی ٹیز کی طرح کہیں نہیں پہنچ پائے گی۔
یہ کوئی پیش اندیشگی یا وہم نہیں، میں اس پر شرط لگانے کے لیے بھی تیار ہوں۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ساٹھ دن کے اندر تحقیقات لازمی طور پر مکمل کی جائیں، اور اس کی رپورٹ فاضل جج صاحبان کو پیش کی جائے۔ اس مدت کے اندر اس ٹیم کے عقابی نگاہ رکھنے والے ارکان لندن فورنسک فرمز، پاناما حکام، قطری شہزادے، جس کے ادبی شاہ پاروں پر شریف فیملی کے تمام تر دفاع کا انحصار ہے، اور اُن ممالک کی حکومتوں، جہاں شریف فیملی نے مبینہ طور پر اپنے اثاثے چھپائے ہوئے ہیں، کو بمشکل خطوط ہی لکھ پائیں گے۔
یہ تمام کاوش ظرافت سے مالا مال ہے۔ دیگر مکتوب الیہان کے نام لکھے گئے خطوط کے علاوہ ایک خط قطری شہزادے کے نام غالباً دفترِ خارجہ کے ذریعے ارسال کیا جائے گا۔ وہاں قطر میں ہمارے سفیر سے کہا جائے گا کہ وہ یہ مکتوب شہزادے صاحب کو بھیج دیں۔ فرض کریں وہ اس وقت قطر میں موجود نہ ہوں، کیونکہ موسمِ گرما کی تمازت میں اکثر و بیشتر عرب شہزادے یورپ کے تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں، جیسا کہ جنیوا یا جنوبی فرانس۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قطری شہزادے کی تلاش وقت طلب بھی ہو سکتی ہے۔ کیا پتہ وہ گرمیاں گزارنے کہاں گئے ہوں، اور اگر پتا چل بھی جائے تو خط کے پہنچتے پہنچتے وہ کہیں اور کا عزم سفر باندھ سکتے ہیں۔
چنانچہ جے آئی ٹی کے پاس ہر پندرہ دن کے بعد سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ کو بتانے کے لیے کیا ہو گا؟ کیا وہ سپریم کورٹ بنچ کو کوریئر ایجنسی کی رسیدیں دکھاتی پھرے گی؟ مزید یہ کہ جے آئی ٹی پاناما حکام سے کیا پوچھے گی؟ جہاں تک میں جانتا ہوں، ہمارا پاناما کے ساتھ ایسی معلومات کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ تو یہ بھی ایک بند گلی ثابت ہو گی۔ اصغر خان کیس، جو 1990ء کے انتخابات میں آئی ایس آئی کی طرف سے رقوم کی تقسیم کی بابت تھا، نسبتاً کہیں سادہ معاملہ تھا کیونکہ اس پر آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف کا بیانِ حلفی موجود ہے۔ لیکن کسی پاکستانی ایجنسی نے اس معاملے کی تسلی بخش تفتیش نہیں کی۔ اسی طرح ماڈل ٹائون ہلاکتوں پر بھی جے آئی ٹی بنی تھی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اور یہاں ہم امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پاناما پیپرز جیسے کہیں زیادہ پیچیدہ کیس کی صرف ساٹھ دنوں میں تحقیقات مکمل کر لی جائے گی۔
اصل پاناما کیس کی سماعت کرنے والا پانچ رکنی بنچ وزیرِ اعظم یا اُن کے بیٹوں کو طلب کرکے اُن سے اُن کی جائیداد اور رقم کی گمنام ترسیل کے بارے میں پوچھ سکتا تھا۔ لیکن اگر کہیں زیادہ اتھارٹی رکھنے والے بنچ نے ایسا نہ کیا تو ہم درمیانی درجے کے افسران، جن کے پیشِ نظر اُن کی ملازمت اور مستقبل ہو، پر مشتمل ایک جے آئی ٹی سے کیا توقع وابستہ کر سکتے ہیں؟ کیا یہ افسران اُن اثاثوں کا کھوج لگا لیں گے جو اُن کے سینئر بوجوہ نہ لگا سکے؟ پاناما پیپرز ایک سیاسی ایشو کے طور پر موجود رہے گا، اور آنے والے مہینوں میں یہ یقینی طور پر انتخابی ایشو بھی بن جائے گا، لیکن عملی طور پر اس کا ڈنک نکل چکا ہے۔ وزیرِ اعظم کے سر پر لٹکی تلوار ٹل چکی ہے۔ کچھ افراد یہ سوچ ضرور رکھتے ہیں کہ جے آئی ٹی میں دفاعی اداروں، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں کی موجودگی سے فرق پڑے گا۔ یہ ایک جذباتی قیاس آرائی ہے کیونکہ دو کرنلز یا بریگیڈئرز کے بس کی بات نہیں کہ وہ جے آئی ٹی کی کارروائی پر چھا جائیں اور تاریخ کو از سرِ نو رقم کریں۔ خاص طور پر جبکہ ہم نے دیکھا کہ ڈان لیکس کا معاملہ کس آسانی سے ختم ہو گیا اور فوج نے غیر متوقع طور پر لچک دکھاتے ہوئے اپنا پہلا موقف واپس لے لیا۔
ایک بات البتہ یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جس نے اس کیس کو زندہ رکھا، وہ عمران خاں ہے۔ وہ اب بھی اس مسئلے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا‘ اس امید کے ساتھ کہ شریف خاندان کو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے، اگرچہ عمومی رائے یہ ہے کہ موجودہ حکمران ٹولے کو شرمندہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ برسہا برس سے اُنھو ں نے اپنی اس صلاحیت کا لوہا منوایا ہے کہ جو سکینڈلز دیگر سیاست دانوں کو غرق کرکے رکھ دیتے، اُنھوں نے دھول کی طرح اُڑا دیے۔
اب یہاں سے معاملات کیا رخ اختیار کریں گے؟ کچھ محتاط اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ فوج کے راحیل شریف دور کے دن بیت چکے۔ جنرل باجوہ کے دور میں سول ملٹری تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ ڈان لیکس کا قصہ تمام ہوا۔ پاناما پیپرز کا پارہ اتر رہا ہے۔ اب ہمارے سامنے سیاسی میدان میں تین گھڑ سوار باقی ہیں۔ ایک بحال شدہ طاقت رکھنے والے نواز شریف، دوسرے گم شدہ طاقت کے متلاشی آصف زرداری اور ان دونوں کا سامنا کرنے والے عمران خان۔ ہر وقت کرپشن کی یاد دلاتے رہنا کس کو اچھا لگتا ہے؟ لیکن عمران خان یہی کچھ کر رہا ہے۔ پنجاب میں ہو تو شریف برداران پر اُس کے تیر برستے ہیں، سندھ میں توپوں کا رخ آصف زرداری کی طرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہمارے ان دونوں رہنمائوں میں کوئی قدر مشترک ہے تو وہ عمران خان کی نفرت ہے۔
الغرض، پاناما کیس اختتام پذیر سمجھیں، اگرچہ اس کی گونج سیاسی افق پر ارتعاش پیدا کرتی رہے گی۔ انتخابات سامنے ہیں، اور ایک مرتبہ پھر پانی پت کا میدان پانچ دریائوں کی سرزمین میں سجے گا۔