پاکستان کا پرانا سیاسی نظام، جس کے سرخیل شریف ہیں، جان لیوا لمحات سے گزر رہا ہے۔ ہر چیز اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ شریفوں پہ گرنے والے افتاد کوئی بے معانی عمل نہیں، یہ کہیں زیادہ تیز و تند نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ کچھ سادہ لوح یار دوست ان سب واقعات کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ ڈاکٹر جانسن نے کیا خوب کہا تھا کہ حب الوطنی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔ آج ایسا لگتا ہے کہ آخری پناہ گاہ جمہوریت بن گئی ہے۔ یہ کیا خوب بات ہوئی کہ دنیا جہان کی لوٹ مار کریں، جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگائیں، باہر اس دولت کو خوبصورت طریقے سے چھپائیں لیکن جب آپ سے کچھ سوال کیا جائے، جیسا کہ اب شریف خاندان سے کیا جا رہا ہے، تو آپ چلا اُٹھیں کہ یہ تفتیش نہیں، جمہوریت پر ایک حملہ ہے۔
نوجوان شریف، حسین نواز، کو تو حسین شہید سہروردی بھی یاد آ گئے۔ سہروردی فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ حسین نواز کہتے ہیں کہ سہروردی سے لے کر اب تک سیاست دانوں پر ہی ظلم ڈھائے گئے ہیں۔ گویا اُنھوں نے خود کو اور اپنے والد صاحب کو نہ صرف سہروردی بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی صف میں بھی لا کھڑا کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شریفوں کا سب سے بڑا طبقاتی دشمن تو بھٹو تھا‘ جنہوں نے اُن کی اتفاق فائونڈری کو قومی تحویل میں لیا۔ مزید برآں، جس فوجی آمر نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا، اُس کے سب سے چہیتے سیاسی شاگرد نواز شریف تھے۔ تو اگر آج بھٹو کے ساتھ ہی اپنے آپ کو کھڑا کرتے ہیں تو یہ عمل دلچسپی سے خالی نہیں۔
یہ کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ الزام جنرل راحیل شریف پر لگتا تو پھر بھی کوئی تُک تھی۔ اُن کے بارے میں وزیرِ اعظم صاحب کو اور اُن کی جماعت کو بہت سی شکایات تھیں۔ یہ بھی شکایت تھی کہ 2014ء کے دھرنوں کے پیچھے اُس وقت کے کچھ جرنیل ریشہ دوانیاں کر رہے ہیں‘ لیکن سازش کا الزام موجوہ فوجی سربراہ‘ جنرل قمر باجوہ، پر بالکل مضحکہ خیز ہے۔ بلکہ جنرل باجوہ کو تو خود بھاری تنقید کا سوشل میڈیا پر سامنا کرنا پڑا۔ یہ تاثر پھیلا کہ ڈان لیکس کے حوالے سے اُنھوں نے شریفوں پہ ہاتھ ہولا رکھا ہے۔
عدلیہ کے بارے میں بھی عجیب سے عجیب تر افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ عدلیہ کی کیا شریفوں سے لڑائی ہے؟ ابھی تک تو یہ کہا جا رہا تھا کہ عدلیہ کی قیادت... اس سے زیادہ کہنا مناسب نہیں ہے... شریفوں کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ اب ایک دم اُن سے ہمدردی رکھنے والے حلقے یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ ان کے خلاف کسی قسم کی دشمنی رکھتی ہے۔ شریف خاندان جتنا مشکلات کی دلدل میں پھنس رہا ہے، اتنی ہی احمقانہ سازش کی تھیوریاں اُڑائی جا رہی ہیں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے تک عقل کا تقاضا یہی سمجھا جا رہا تھا کہ اگلے انتخابات میں شریف خاندان کی جیب میں ہیں۔ اور اس یقین کے لیے یہ دلیل یہ دی جا رہی تھی کہ عدلیہ بھی ان کے ساتھ ہے، اور دوسرے جی ایچ کیو میں بھی معاندانہ رویہ رکھنے والی قیادت نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی جے آئی ٹی نے اپنے کام کا آغاز کیا، ان سب خوش فہمیوں کے غباروں سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی۔ اور میڈیا میں موجود شریفوں کے ہمدرد، جن کی تعداد کم نہیں ہے، دہری سازش کی باتیں کرنے لگے۔ ایک سازش شریف خاندان کے خلاف اور دوسری جمہوریت کے۔ گویا جمہوریت اور شریف خاندان کو ایک دوسرے کے نعمل البدل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ مرتبہ حکمران طبقے کو دوسری بار مل رہا ہے۔ جب نواز شریف کو 1999ء میں عہدے سے ہٹا کر جیل میں ڈالا گیا تو راتوں رات فوجی آمریت کی چھتری تلے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے جمہوریت کے چمپئن بن گئے۔
جلاوطنی کے دوران سعودی میزبانوں نے اُنہیں ہر ممکن آرام فراہم کیا، اُن کی رہائش کے لیے ایک محل مختص کیا گیا۔ ظاہر ہے دستر خوان پُرتکلف ہوتا اور کیونکہ خود سے کسی چیز کا مطالعہ کرنے کی سردردی کبھی نہیں لی تو نمازِ مغرب کے بعد پاکستانی پریس میں شائع ہونے والے اُس دن کے وہ مضامین باآواز بلند پڑھ کر سنائے جاتے جن میں فوجی حکومت پر تنقید اور نواز شریف کی توصیف کی گئی ہوتی لیکن تمام تر سعودی آسائشوں کے باوجود دونوں شریف بھائی مقدس سرزمین کی بجائے گناہ گار مغرب کی فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ پہلے شہباز شریف نے مقدس سرزمین سے جانے میں کامیاب ہوئے۔ اُنھوں نے ایک تحریری درخواست کی جس کے صفحات پر اوپر نیچے اُنھوں نے دستخط کیے کہ کمر کے درد کے علاج کے لیے اُن کا نیویارک جانا ناگزیر ہے۔
یہ ایک چکوالی، جنرل مشرف کے انتہائی قریبی دوست، ریٹائرڈ بریگیڈئیر نیاز احمد آف دولمیال تھے جنہوں نے شریف خاندان کی وکالت کرتے ہوئے شہباز شریف کو نیویارک جانے کی اجازت دلوائی۔ بعد میں نواز شریف کی لندن روانگی میں بھی اُنہی کا ہاتھ تھا۔ اُس وقت شریف فیملی کے پاسپورٹس ریاض میں پاکستانی مشن کے پاس تھے۔ بریگیڈیئر صاحب کی مہربانی سے پاسپورٹس خاندان کو واپس ملے تھے۔ جب نواز شریف لندن گئے تو اُن کا قیام کہاں تھا؟ اُنہی فلیٹس میں جن کی ملکیت اور منی ٹریل کے بارے میں جے آئی ٹی تحقیقات کر رہی ہے۔
لیکن اگر سازش نہیں تو جو سٹیج پاکستان میں سجتا جا رہا ہے اُس کے معانی کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید شریف خاندان کا ماضی ہے جو اُن کے دامن گیر ہو رہا ہے۔ اگر یہ سازش ہے تو خود ساختہ ہے اور اس کا سکرپٹ کسی اور نے نہیں، شریفوں نے ہی لکھا ہے۔ بدقسمتی اُن کی یہ ہے کہ پاناما کی بلا اُن کے سر پر آسمان سے گری، ورنہ نہ سکینڈل بنتا، نہ پرانے راز فاش ہوتے، نہ حسین نواز وغیرہ کو کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑتا۔
لیکن دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کسی پاکستانی ہاتھ نے اس مسئلے کو مرنے نہیں دیا تو وہ عمران خان کا ہے۔ نہ صرف اُنھوں نے اس مسئلے کو زندہ رکھا بلکہ سپریم کورٹ تک پہنچا دیا، اور پھر معاملات اپنی رفتار پکڑتے گئے۔ سپریم کورٹ کے پاس معاملہ آیا تو شریف خاندان کی مشکلات تب اجاگر ہوئیں جب اُن کے پاس پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے الزامات کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ تھا، نہ رقم کی ترسیل کا کوئی ثبوت، نہ کوئی دستاویز، نہ کوئی قابلِ یقین گواہی۔ لے دے کے حکمران خاندان کو اُن دو قطری خطوط کا سہارا لینا پڑا جن کی بدولت شبہات تو کیا دور ہونے تھے، طنز و مزاح کا دسترخوان بچھ گیا۔ تو کہاں ہے سازش؟ کیا کوئی پسِ پردہ ہاتھ ہے جو ان واقعات کو کنٹرول کر رہا ہے؟ کیا کوئی خفیہ ایجنسی ایسا کر رہی ہے؟
شریف خاندان بہت سے کیسز اور معاملات میں بچ نکلے ہیں۔ قدرت کی اُن پہ یہ خاص مہربانی سمجھیں۔ لیکن اب وہ ایک ایسی مشکل سے دوچار ہیں جس سے بچ نکلنا آسان نہیں لگتا۔ اورکیونکہ وہ صاحبِ اقتدار ہیں، اس صورتِحال کی قیمت مملکت کو بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ حکمرانی یوں لگتا ہے کہ رک گئی ہے۔ پاکستان ساکت و جامد کھڑا لمحات کی گنتی کر رہا ہے۔
یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا تو جکڑے ہوئے پہیے آزاد ہوں گے اور ملک آگے کی طرف جا سکے گا۔