سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے اپنے تحریری بیان میں ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اُن سے کہا تھا۔۔۔۔ یہ ایک فون کال تھی۔۔۔ کہ روس کے اُن کے ساتھ رابطے کا تاثر ایک ایسے بوجھ کی مانند ہے جس کی موجودگی میں اُن کی بطور صدر فعالیت متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں جے آئی ٹی جس قسم کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کے ہیں جن کا امریکہ میں صدر ٹرمپ کو سامنا ہے۔ یہ الزام ممکنہ منی لانڈرنگ، پُراسرار منی ٹریل اور بیرونی ممالک میں اثاثہ جات چھپانے کے بارے میں ہے۔ اگر ٹرمپ محسوس کرتے ہیں کہ ایف بی آئی کی تحقیقات سے اُن کی حکومت کرنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے تو جے آئی ٹی کی تحقیقات قومی مفادات کے نگران کے طور پر وزیرِ اعظم نواز شریف کی کارکردگی کو کس قدر نقصان پہنچا رہی ہوں گی۔
ٹرمپ کے بچے کسی مالی ہیرپھیر کے الزام میں زیرِ تفتیش نہیں ہیں۔ نواز شریف کے دو بیٹوں سے پاناما گیٹ نامی سکینڈل کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ کیا وزیرِ اعظم کے ذہن پر ان کا بوجھ نہ ہو گا؟
میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر جانتا ہوں کہ ایک دن عدالت میں پیشی آپ کی ذہنی حالت، آپ کی قوتِ فیصلہ، آپ کی نیند، حتیٰ کہ آپ کی بھوک اور آپ کے ناشتے اور ڈنر کے معمولات تک کو برہم کر دیتی ہے۔ جیسا کہ اُن کے بیٹے جے آئی ٹی کے سامنے تواتر کے ساتھ پیش ہو رہے ہیں... اور ہمارے سامنے اُس منظر کی ایک افشا شدہ تصویر بھی ہے جہاں طویل سوالات ہو رہے ہیں... تو کیا وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے لیے پریشانی کا موقع نہیں ہے؟ کیا یہ تحقیقات اُن کے ذہن پر سوار نہ ہوں گی؟ کیا اس سے اُن کی شب کی نیند اور دن کی بیداری متاثر نہ ہوئی ہو گی؟
پی ایم ایل (ن) یقینی طور پر پریشان ہے۔ ہم اس کے متعدد ترجمانوں کے برافروختہ موڈ کو دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ تو اس قدر حواس باختہ ہو چکے ہیں کہ اُنہوں نے جے آئی ٹی کا موازنہ قصائی کی دکان سے کیا ہے۔ محاورۃً قصائی کی دکان ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں کاٹ چھانٹ ہوتی ہے، لیکن قینچی یا نشتر سے نہیں، بھاری بھرکم بغدے یا چھرے سے۔ حکمران جماعت جے آئی ٹی کے بارے میں یہی تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ کامیاب تو نہیں ہوئی لیکن جے آئی ٹی کے دو ارکان پر تعصب کے الزامات عائد کرتے ہوئے اسے متنازع بنانے میںکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ اور اب قصائی کی دکان کی تشبیہ۔
اور پنجاب کے وزیرِ قانون، رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پی ایم ایل (ن) جے آئی ٹی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر جے آئی ٹی کے خلاف کوئی احتجاج ہوا تو وہ سب سے آگے ہوں گے۔ یہ سخت الفاظ ہیں، اور ان سے ہمیں حکمران جماعت کی بڑھتی ہوئی پریشانی اور اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
تاہم ایسا نہیں کہ پاناما گیٹ وزیرِ اعظم کے دشمنوں کی اختراع تھی۔ یہ افتاد آسمان سے نازل ہوئی۔ اس کی تیاری میں کوئی پاکستانی ہاتھ ملوث نہ تھا۔ دراصل شریف حاندان کے خلاف مالیاتی عدم شفافیت کے الزامات کئی عشروں سے لگائے جاتے رہے تھے... لندن فلیٹس، لاہور کے کچھ بنکوں میں کھلوائے گئے جعلی قاضی اکائونٹس اور اسحاق ڈار کا منی لانڈرنگ کی بابت دیا گیا طویل بیان۔ عوام بہت عرصے سے ان چیزوں کے بارے میںکچھ نہ کچھ جان کاری رکھتے تھے۔ پاناما پیپرز نے عرصہ ٔ دراز سے ہونے والی چہ میگوئیوں پر عالمی ساکھ رکھنے والی مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔
جس طرح انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس حاصل کرنے کی سرگرمیوں کو منظرِ عام پر لانے والے وکی لیکس ایک چونکا دینے والی پیش رفت تھے، اسی طرح پاناما پیپرز نے بھی عالمی بدعنوانی، دولت مند اور طاقتور کھلاڑیوں کے مشکوک مالی معاملات کو بے نقاب کر دیا۔ اس ''ممتاز فہرست‘‘ میں وزیر اعظم کے بچوں کے بھی نام تھے: دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ خاندان اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتا رہا ہے لیکن یہاں سب راز فاش ہو کر رہ گئے۔
پاناما پیپرز کی وجہ سے عالمی سطح پر غوغا بپا ہوا تھا، چنانچہ پاکستان میں بھی شور مچنا لازمی تھا۔ تاہم پاکستان میں سکینڈلز ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں، اور ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ سنگین سے سنگین تر سکینڈلز سے بھی کچھ برآمد نہیں ہو پاتا۔ پاناما پیپرز بھی اسی انجام سے دوچار ہو سکتے تھے لیکن ایک عامل نے ایسا نہ ہونے دیا، اور یہ عمران خان ہیں۔
کئی برسوں سے پی ایم ایل (ن) نے اپنا کافی بچائو کیا، اس نے بہت سے معاملات کو قالین کے نیچے چھپا دیا، یہ اصغر خان کیس سے بچ نکلی۔ یہ کیس 1990ء کے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) میں شامل کئی ایک سیاست دانوں، جن میں نواز شریف اور شہباز شریف کے نام بھی ہیں، کو آئی ایس آئی کی طرف سے رقوم فراہم کرنے کی بابت تھا۔ اگر پی پی پی کا کسی ایسے کیس میں نام آتا تو اس کا حشر ہو جاتا۔ ماڈل ٹائون کیس میں پولیس کی فائرنگ سے دن دیہاڑے چودہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ پی ایم ایل (ن) اس سے بھی بچ نکلی۔
تاہم شریف خاندان پاناما گیٹ سے بچ نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا، اور اس کی واحد وجہ عمران خان کا مچایا ہوا شور تھا جس میں اُنہیں جماعتِ اسلامی کے سراج الحق اور اپنی طرز کے واحد لیڈر، شیخ رشید احمد کا تعاون حاصل تھا۔ اور ہمیں میڈیا کا کردار بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جدید پاکستانی میڈیا (وہ میڈیا جو ایک فوجی آمر، جنرل پرویز مشرف نے پاکستانی قوم کو گفٹ کیا، اگرچہ بہت سوں کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ناگوار گزرتا ہے) کے بغیر بھی یہ ایشو زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ میڈیا تھا جس نے اپنے طور پر کام کرنے کے علاوہ عمران خان کی آواز کو بھی بلند کیا۔
شریف خاندان اُس وقت گھائل ہونا شروع ہوا جب سپریم کورٹ نے پاناما گیٹ پر دی جانے والی درخواستوں کی سماعت کی منظوری دی تو شریفوں کی سچائی اور سچائی سے گریز کی بابت ہر قسم کے سوالات اٹھائے جانے لگے۔
دنیا میں کہیں بھی کسی وزیرِ اعظم پر ایسے الزامات اُس کے منصب سے الگ ہونے کے لیے کافی سمجھے جاتے، لیکن پاکستان میں ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ہم شاید بہت سخت جان ہیں۔ سیاست کے افق پر سرعام ہونے والی توہین بھی ہم آنکھ بند کرکے پی جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ کسی تادیب کے نتیجے کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دے کر آپ سیاسی شہادت کے درجے پر فائز ہو سکتے ہیں‘ لیکن جب آپ پر منی لانڈرنگ اور مالیاتی فراڈ کے الزامات ہوں تو پھر یہ تدبیر کرنا اور دامن بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ شریفوں کے لیے یہی اصل مسئلہ ہے۔ اس سکینڈل میں نیک نامی کمانے کی گنجائش کم ہی ہے۔ اس کے باوجود وہ امید کر رہے ہیں کہ معجزانہ طور پر طوفان گزر جائے گا، اور وہ اقتدار کی شاہراہ پر اُسی ٹھاٹ باٹ سے، جو اُن کا معمول رہا ہے، پھر سے گامزن ہو جائیں گے۔
لیکن اس رویے کے نتائج پاکستان کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ کیا کوئی اس وقت پاکستان کو سنجیدگی سے لے رہا ہے؟ حتیٰ کہ دہشت گردی کا شکار ممالک کا ذکر کرتے ہوئے بھی صدر ٹرمپ نے پاکستان کا نام لینا گوارا نہ کیا۔ اُنہوں نے بھارت کا تو ذکر کیا لیکن پاکستان کا نہیں۔ ہمارے عرب دوست ہمیں سنجیدگی سے نہیں لے رہے... ہم نے ریاض میں یہ دیکھ لیا۔ نواز شریف صرف حاضری لگوانے گئے تھے، اُن کا وہاں کوئی اور کردار نہ تھا۔ اور ہمارے غازی کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف‘ جنہوں نے سعودی پرچم تلے ایک ایسی فورس کی کمان سنبھال لی ہے جو تاحال اپنا وجود ہی نہیں رکھتی، کہاں تھے؟ وہ بھی کہیں نظر نہیں آئے۔
یقینا صرف پاناما گیٹ ہی وہ واحد چیز نہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔ اس کے کچھ اور عوامل بھی ہیں‘ لیکن بدعنوانی کا سکینڈل کسی طور عزت افزائی کا باعث نہیں بنتا۔ اس کا شکار کوئی لیڈر ہو تو اُس کی قوم کی نمائندگی کی صلاحیت ضرور متاثر ہوتی ہے۔
تاہم ہو سکتا ہے کہ ان سارے حالات میں بہتری کا کوئی پہلو نکل آئے۔ ہو سکتا ہے کہ پاناما تحقیقات وہ نشتر زنی ہو جس کی قوم کو بہت دیر سے ضرورت تھی۔ تو کون جانتا ہے کہ یہ تمام معاملات ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر پاکستان کو نئی شروعات کرنے کا موقع فراہم کر دیں۔