مبصرین کے عالی مرتبت قبیلے میں شامل ہم میں سے کچھ خود ساختہ ابہام کا شکار ہیں۔ ہم ٹرپل ون بریگیڈ کے ہاتھوں حکومت کا تختہ الٹے جانے اور سپریم کورٹ کی قیادت میں جوڈیشل طریقِ کار کے تحت ہونے والی کارروائی میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔
فوج نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، بلکہ ڈان لیکس پر نرمی دکھانے پر فوجی قیادت کو غیر معمولی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نواز شریف کو ایک جوڈیشل کارروائی کا سامنا ہے جو فوج یا آئی ایس آئی کی پیش قدمی کی بجائے عمران خان، جماعتِ اسلامی اور شیخ رشید احمد کی دی گئی درخواستوں کا نتیجہ ہے۔
نواز شریف اور اُن کے خاندان کے مبینہ مالیاتی فریب کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی عدالتِ عظمیٰ کے ایک بنچ نے قائم کی تھی، نہ کہ جی ایچ کیو نے۔ بہرحال وزیر اعظم نواز شریف سے ہمدردی رکھنے والوں یا اُن کے قریبی حلقوں نے پوری تندہی سے یہ تاثر پھیلایا ہے کہ نواز شریف کسی جوڈیشل کارروائی کا سامنا نہیں کر رہے، بلکہ وہ ایک سیاسی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ اگر یہ تصور فساد انگیز نہیں تو بھی لغو اور مہمل ضرور ہے۔
پاناما لیکس فوج کی اختراع نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ لیکس کہاں سے آئے تھے۔ فوج یا آئی ایس آئی نے قطری خطوط نہیں گھڑے۔ وہ شریفوں کے دفاع کا اگر کُل نہیں تو بھی ایک اہم حصہ تھے کیونکہ اُن خطوط کے علاوہ شریف خاندان مے فیئر فلیٹس کی ملکیت کی بابت بنک ٹرانزیکشن یا کاغذ کا ایک ٹکڑا تک پیش نہ کر سکا۔
فوج یا کسی ملٹری ایجنسی نے نواز شریف اور اُن کے بیٹوں کو ٹی وی پر یا قوم سے خطاب کرتے ہوئے متضاد بیانات دینے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ تقاریر شریفوں کے ذہن، تخیل اور تدبر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اب اگر وہ جوڈیشل کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں، جس کا جے آئی ٹی جزو لاینفک ہے، اور اگر اُن کے فراہم کردہ جوابات سے خواص تو کجا، سادہ لوح عوام بھی مطمئن نہیں تو اس میں کس کا قصور ہے؟
ٹیکس چوری، اثاثوں کو چھپانا اور منی لانڈرنگ آرمی ایکٹ کے تحت نہیں، ریاست کے عام قانون کے تحت جرائم ہیں۔ شریفوں سے سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تشکیل پانے والی جے آئی ٹی پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ اُنہیں کسی فوجی عدالت کا سامنا نہیں۔ شریفوں کی طرف جھکائو رکھنے والے میڈیا کے نقیب یہ تاثر ارزاں کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کسی قسم کی مہان سازش ہو رہی ہے۔ پتلی تماشا کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کا خود بھی یہی مطلب ہے۔
پاکستان 1999ء کے مشرف شب خون کے نتیجے میں شریفوں کی ہونے والی ایک شہادت کے نتائج پہلے ہی بھگت چکا ہے۔ اُس وقت تک نواز شریف کا کھوکھلا پن عیاں ہو چکا تھا‘ لیکن فوجی بغاوت نے اُن کی بہت سی کوتاہیوں کو دھو دیا اور وہ راتوں رات جمہوریت کی علامت بن گئے۔ پاکستان اُن کی دوسری شہادت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور تو اور، قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔
اگر ہم قومی منظرنامے پر پیش آنے والے واقعات کو درحقیقت ایک سازش کہنا چاہتے ہیں تو پھر سازش کہیں اور سے نہیں، آسمان سے نازل ہوئی ہے۔ جب پاناما لیکس پہلے پہل منظرِ عام پر آئے تو صدر ممنون حسین جیسا وفا شعار شخص بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ یہ آسمان سے گرنے والی بلائے ناگہانی ہے اور اس میں بڑے بڑے نام پھنسے ہوئے دکھائی دیں گے۔
جب نواز شریف خود اپنے مقاصد کے لیے معزول شدہ چیف جسٹس، افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چلا رہے تھے تو اُن کا میزانیہ یہ تھا کہ پاکستان کو ہر چیز سے بڑھ کر ایک آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے‘ اور اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
اگر اب اُن کے اپنے بولے گئے الفاظ اُن کے سامنے آ گئے ہیں تو اُس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اُن کا ٹرائل آزاد عدلیہ ہی کے سامنے ہی ہو رہا ہے... سپریم کورٹ کا ایک بنچ کسی بھی طرف سے دبائو یا ہدایت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بے خوفی سے اپنا کام کر رہا ہے۔ اگر وہ اثر قبول کرنے والے جج ہوتے تو نواز شریف کی نصف پریشانیاں دور ہو چکی ہوتیں۔ اُنہیں اپنے طویل سیاسی کیریئر اور اقتدار کے دوران دوستانہ اور مفاہمت آمیز ججوں سے واسطہ پڑتا رہا۔ اب اُنہیں پہلی مرتبہ ایک مختلف صورتِ حال کا سامنا ہے‘ جسے ہینڈل کرنا اُن کے اور اُن کے خاندان کے لیے کٹھن ثابت ہو رہا ہے۔
کیا قانون کو اپنا راستہ بنانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے؟ اور اگر اس موقع پر قانون اپنا راستہ بنا رہا ہے تو اس کا ہم کیا کر سکتے ہیں؟ شریفوں کے حامی بہت شد و مد سے یہ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا لیکن جمہوریت پٹڑی سے نہ اتری۔ اگر نواز شریف کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو یہ پٹڑی سے کیوں اتر ے گی؟
کیا پتہ وہ اس کیس میں بے گناہ ثابت ہوں اور نااہل نہ قرار دیے جائیں؟ اس صورت میں وہ چوتھی، بلکہ پانچویں مرتبہ بھی وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں، اگر پاکستان کے عوام اُنہیں ووٹ دیں اور آسمان کی بھی منشا یہی ہو۔ لیکن اگر پاناما انکشافات سے ابھرنے والے الزامات کے نتیجے میں وہ نااہل یا کچھ اور قرار پاتے ہیں تو آسمان کیوں گر پڑے گا؟ کیا جمہوریت کسی مہلک خطرے سے دوچار ہو جائے گی؟ یہ پاکستان کے لیے ایک افسوس ناک دن ہو گا اگر جمہوریت کسی ایک فرد یا کسی ایک خاندان کی خوشحالی اور تحفظ سے منسوب کر دی جائے۔
فرض کریں اگر وزیر اعظم نواز شریف کو کچھ ہو جائے تو اُن کی پارٹی تو اپنی جگہ پر موجود رہے گی۔ اور یہ پارٹی پنجاب اور قومی اسمبلی میں اکثریت رکھتی ہے۔ تو وہ کسی اور کو قائد منتخب کر سکتی ہے۔ پی ایم ایل (این) کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے اور انتخابات وقت پر ہونے چاہییں، یا جب نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں اگلا وزیرِ اعظم تازہ انتخابات کا اعلان کرے۔ اس میں کیا غلط بات ہے؟
ہمیں ٹھوس اور سامنے آنے والے معروضات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے تو جے آئی ٹی کو اپنی تحقیقات مکمل کرنی ہیں۔ اس کے بعد اسے اپنی تحقیقات سپریم کورٹ بنچ، جس کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل خان کر رہے ہیں، کے سامنے پیش کرنی ہیں۔ پھر ان تحقیقات کی روشنی میں بنچ فیصلہ کرے گا۔ ہمیں اُس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ جو بھی حتمی فیصلہ آئے گا ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے نظام کو لاحق خطرے کا بے بنیاد اور فرضی خوف پھیلانے اور صدارتی نطام کا شوشا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
نواز شریف کو اقتدار کے دوران پاناما پیپرز سے اٹھنے والے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ وہ نہ تو نظام ہیں اور نہ ہی مجسم جمہوریت، اور نہ ہی وہ پاکستانی عوام کی امیدوں یا مقدر کا واحد محور ہیں۔ جب ہم عید کی تعطیلات کے دوران اس ہنگامہ خیز ڈرامے سے کچھ وقفہ حاصل کریں گے‘ اور جے آئی ٹی کے اپنا کام مکمل کرنے کا انتظار کریں گے تو ہمیں یہ معروضات ذہن میں رکھنے چاہئیں۔