وزیر اعظم کی قربانی تو ہو گئی‘ لیکن ن لیگی حکمران خاندان کا امتحان ابھی شروع ہوا ہے۔ نیب کے ریفرنس بس آنے کو ہیں اور وہ منظر دیکھنے والا ہو گا جب یہ سارے افراد ضمانتیں کرا کے پیشیاں بھگت رہے ہوں گے۔ کیا یہ پھر بھی بڑی معصومیت سے کہیں گے کہ ہم پہ تو کوئی کرپشن کا الزام نہیں‘ اور ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔ کئی آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے، لندن جائیدادوں کی فہرست اتنی لمبی کہ بندہ گنتے گنتے تھک جائے، لیکن اصرار پھر بھی یہ کہ ہمارا سر فخر سے بلند ہے۔ وہ سر داد کا مستحق ہے جو اتنے سامانِ رسوائی کے بعد بھی جھنڈے کی طرح بلند ہے۔
جس کا ڈر تھا وہ بھی آہستہ آہستہ رونما ہو رہا ہے۔ ہمارے شیخ الاسلام‘ جو کچھ دنوں سے گمشدہ تھے‘ کی طرف سے اعلان آیا ہے کہ وہ جلد وطن لوٹ رہے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کا خونیں قصہ پھر اٹھے گا اور پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے مطالبہ ہو گا کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور شائع کے جائے۔ پنجاب حکومت‘ بالخصوص خادم اعلیٰ اور ان کے زیرک وزیر قانون، رانا ثناء اللہ، کی بھرپور کوششوں کے باوجود یہ قصہ تاحال دفن نہیں ہو سکا ہے۔ اگر اُس پر کوئی نئی جے آئی ٹی بنے، (کیونکہ پرانی جے آئی ٹی نے تو پنجاب کے حکمرانوں کو مکمل چھوٹ دے دی تھی) تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن افراد کے نام اس ایف آئی آر میں درج ہیں‘ ان کا کیا بنے گا۔ یا یوں کہیے کہ ان کا حشر کیا ہو گا۔
عجب انصاف ہے، چودہ افراد‘ جن میں دو خواتین بھی تھیں‘ پولیس گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ ساٹھ تا اسی افراد گولیوں سے زخمی ہوئے اور نامزد افراد‘ جنہوں نے اس سانحہ سے پہلے میٹنگ پر میٹنگ کی تھی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو کیسے سبق سکھایا جائے‘ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ لیکن جیسا کہ ہمارا ایمان ہے‘ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاناما پیپرز کی وجہ سے سابق وزیر اعظم کے ساتھ یہ ہو گا اور انہیں منصب چھوڑنا پڑے گا؟ ماڈل ٹاؤن کا قصہ سلگ رہا ہے۔ یہ کسی کی بھول ہی ہو سکتی ہے کہ اس کا کچھ نہیں بنے گا۔ جس دن باقر نجفی رپورٹ سامنے آئی تو خادم اعلیٰ‘ جو اس ملک کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں، کہاں اپنا منہ چھپائیں گے؟
پاکستان کو اگر استحکام نصیب نہیں ہو رہا تو یہ ان پرانے قصوں کی وجہ سے ہے۔ ایک طرف نہ ختم ہونے والی کرپشن اور ساتھ ہی ساتھ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات۔ جنہوں نے یہ بیج بوئے وہ قدرت کی پکڑ میں ہیں۔ سابق وزیر اعظم کی اقتدار سے معزولی کے بعد کھیل ختم نہیں ہوا‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ شروع ہوا ہے۔ ن لیگ کا باقی ماندہ اقتدار نیب ریفرنسز کی پیشیوں اور ماڈل ٹاؤن قصے کی بازگشت میں گزر جائے گا‘ اور الیکشن پھر آئیں گے نہ کہ اس سارے حساب کتاب سے پہلے۔ اور حکمران خاندان کو یہ دکھ بھی سہنا پڑے گا کہ جوں جوں ان کے اقتدار کا سورج ڈھلتا جائے گا‘ ان کا حریف عمران خان زور پکڑتا جائے گا۔
دو چیزوں کا اگر ہم موازنہ کریں (1) نواز شریف کا اپنے ایم این ایز کے سامنے الوداعی خطاب اور (2) عمران خان کا اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ، تو صاف پتہ چلتا ہے کہ قومی سیاست کا دھارا کن نئے تقاضوں میں ڈھل رہا ہے۔ نواز شریف کا چہرہ گرا ہوا یعنی افسردہ تھا‘ اور سوائے گھسی پٹی باتوں کے کہنے کو ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ وہی پرانا راگ کہ ہم نے ملک کو ترقی دی ہے‘ عوام کی بہبود کے لئے کام کیا ہے۔ کراچی کے حالات کی بہتری اور فاٹا میں دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کا سہرا بھی اپنے سر لیا اور افواج کا ذکر تک نہ کیا‘ جنہوں کے اس سلسلے میں بے شمار قربانیاں دیں۔ دیگر لیگی چہرے بھی بجھے بجھے تھے۔ اس کے برعکس عمران خان کا جلسہ ایک تو بھرپور تھا، پھر حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے سامعین، اور جوش و جذبے سے لبریز بھی۔ عمران خان مستقبل کی باتیں کر رہا تھا کہ قوم کو صحیح راہ پہ ڈالنے کے لئے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ن لیگ کے اکٹھ میں ماضی کی اداسیاں جھلک رہی تھیں۔
تو مسئلہ یہ ہے کہ قوم کب تک اس بوجھ کو اٹھائے رکھے گی؟ حکمرانی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ آخری مہینوں میں اقتدار عملاً نواز شریف کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا اور کوئی بڑا فیصلہ لینے کی وہ پوزیشن میں نہیں رہے تھے۔ خادم اعلیٰ جب وزیر اعظم بنیں گے تو وہ کیا گُل کھلا سکیں گے؟ ن لیگ تو اپنے اقتدار کا دامن ہی سمیٹتی رہے گی‘ اور ایک طوفان نہیں کئی طوفانوں کا سامنا ہو گا۔ نیب ریفرنسز ہی کافی ہوں گے۔ اسی میں نواز شریف اور ان کا خاندان الجھا رہے گا۔ ایسی حکومت کے بوجھ تلے قوم کا وقت برباد ہو گا۔ ان لوگوں پہ کرپشن کا ٹھپہ لگ چکا ہے۔ یہ عسکری سربراہوں یا غیر ملکی مہمانوں سے کیا بات کر پائیں گے؟
بھٹو صاحب کمال ہنر سے اپنے حریفوں کو طرح طرح کے ناموں سے نوازتے تھے۔ خان عبدالقیوم خان کے بارے میں ایک بار کہا کہ یہ Double-barrel خان ہیں، آگے بھی خان پیچھے بھی خان۔ ایئر مارشل اصغر خان بھی ان کی جملے بازی کی زد میں آئے۔ کچھ اسی طرح کی صلاحیت عمران خان میں بھی ہے۔ شہباز شریف کو ڈرامہ شریف کہہ کے پکارتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کو انہوں نے ایل این جی عباسی کا نام دے دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں اشخاص شروع دن سے چھوٹے بڑے تنازعات کی لپیٹ میں ہوں گے۔ حکمرانی وہ خاک کر سکیں گے؟
لطف کی بات یہ ہے کہ ن لیگ جس حال میں تھی اسی میں ہے۔ نئے وزیر اعظم کا چنائو درپیش ہے تو ایک ہی خاندان کے تنگ دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا سوال پیدا ہوتا ہے تو عظیم مفکر حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی نام ذہن میں نہیں آتا۔ 35 سال سے یہ لوگ مختلف شکلوں میں اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ جمہوریت‘ شہنشاہیت کے اصولوں پہ چلائی جا رہی ہے۔ سبق نہ تاریخ سے سیکھا نہ موجودہ حالات کے جبر سے۔ کیا قوم سے اس سے بڑا مذاق ہو سکتا ہے کہ چھوٹے بھائی جان وزیر اعظم ہوں اور ان کے ہونہار فرزند پنجاب کے وزیر اعلیٰ؟
اب تک تو یہ چیزیں ہمارے نصیب کا حصہ تھیں۔ کیا اب بھی نکھٹو رستم ہی ہماری قسمت میں ہیں۔ فوجی حکمرانوںکو ہم روتے ہیں اور یہ ورد کرتے نہیں تھکتے کہ ہماری نجات جمہوریت میں ہے۔ بجا فرمایا، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری جمہوریت کی کوکھ سے یا کوئی زرداری نکلتا ہے یا پھر نواز شریف؟ پاناما پیپرز کے فیصلے کی اہمیت یہ ہے کہ پرانی سیاست گری پر زوردار وار ہوا ہے۔ اس سے امید پیدا ہو چلی ہے کہ ہماری قسمت بدل سکتی ہے۔ حالات بدل سکتے ہیں اور نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ ابھی تو شروع کا سین مکمل ہوا ہے۔ قومی منظر نامہ اس وقت کسی Shakespearean ڈرامے سے کم نہیں۔ ابھی بہت سارے سین آنے ہیں۔ اور تیر تیز چلنے ہیں۔ مزید بتوں نے گرنا ہے۔ یہ کھیل کہاں ختم ہوتا ہے‘ ابھی دور کی بات ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ن لیگ جس حال میں تھی اسی میں ہے۔ نئے وزیر اعظم کا چنائو درپیش ہے تو ایک ہی خاندان کے تنگ دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا سوال پیدا ہوتا ہے تو عظیم مفکر حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی نام ذہن میں نہیں آتا۔ 35 سال سے یہ لوگ مختلف شکلوں میں اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ جمہوریت‘ شہنشاہیت کے اصولوں پہ چلائی جا رہی ہے۔