یہ معمول کے حالات نہیں کیونکہ ملکی تاریخ میں ایک باب ہچکولے لیتا ہوا ختم ہو رہا ہے اور نئے نے ابھی جنم لینا ہے۔ اگلے انتخابات تک یہ ہیجانی صورتحال رہے گی۔ اس دوران قائدِ ائیرکنڈیشنڈ انقلاب کا رونا دھونا جاری رہے گا۔ ابھی تو انہیں صرف نااہلی کا زخم لگا ہے۔ جب نیب مقدمات کھلیں گے اور وہاں پیشیاں بھگتنا پڑیں گی تو نجانے پھر کیا کیفیت ہو گی اور کون سی مزید الٹی سیدھی باتیں سننے کو ملیں گی۔ فی الحال تو آئین کی ترمیم کا ان کو سوجھا ہے۔ مزید زخموں کی صورت میں پتہ نہیں اور کن چیزوں کی ترمیمات کا خیال پریشان ذہن میں آئے۔
بہرحال آئین میں ترمیم کی ان کی تجویز بجا ہے۔ جب 1997ء میں دوسری بار وزیر اعظم بنے تو تمام بکھیڑے ایک طرف کرکے امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔ نہ الیکشن ہوتے نہ عوام سے رجوع کرنا پڑتا۔ بس تاحیات امیرالمومنین رہتے۔ اس ضمن میں ایک آئینی ترمیم کا باقاعدہ مسودہ پارلیمانی پارٹی کے سامنے رکھا گیا۔ بہت سے وفاداران فوری حمایت پہ تیار تھے۔ بھلا ہو میاں خورشید قصوری اور ان جیسے دیگر لیڈران کا جنہوں نے دوستانہ احتجاج سے قائد جمہوریت کو اس حرکت سے باز رکھا۔ قائد محترم سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اب کون سی ترمیم کا خاکہ ان کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ ایک ترمیم کا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی عدالت اور جج صاحبان شریف خاندان کے خلاف کسی قسم کا فیصلہ صادر نہ کر سکیں۔ نیز یہ کہ خاندان تمام قوانین سے مبرّا ہو۔ جو سوچ تڑپنے کا باعث بن رہی ہے‘ یہ ہے کہ کون سی وزارتِ عظمیٰ ہو گی جو عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہو۔ ایک ترمیم یقینا قانونِ شہادت میں بھی لانا مقصود ہو گی کہ اگر کوئی گواہی سرزمین قطر سے آئے تو باقی تمام گواہیوں پہ مقدم ہو گی۔
ان کی باتوں کو سنجیدگی سے کون لے؟ مزار اقبال پر حاضری دیتے ہیں تو انہیں سانحہ مشرقی پاکستان یاد آ جاتا ہے۔ پورا شہر لاہور یوم آزادی کی سرمستی میں غرق ہے۔ شام ڈھلے شہر کی تمام شاہراہیں کھچاکھچ بھری ہیں۔ نوجوان اونچا سپیکر لگائے مال روڈ پہ جہاں جی چاہے گاڑی روک کے رقص کرنے لگتے ہیں‘{ اور قائد انقلاب فرماتے ہیں کہ قوم بھاری دل سے یوم آزادی منا رہی ہے۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قوم کی خوشیاں دوبالا ہوتیں اگر وہ وزیر اعظم رہتے۔ میں 14اگست کی دوپہر کو ایک تقریب میں پھنس گیا اور بروقت چکوال کی طرف روانہ نہ ہو سکا۔ شام کو ہوٹل سے نکلا تو مال روڈ پہ ڈرائیو کرنا محال تھا۔ رینگتے رینگتے کینال بینک تک گاڑی پہنچی تو دیکھا کہ نہر کے دونوں اطراف سڑک موٹر سائیکلوں اور کاروں سے بھری ہوئی ہے۔ اس وقت وہاں سے ٹھوکر نیاز بیگ جانا ناممکن تھا۔ عافیت اسی میں سمجھی کہ ارادہ سفر ترک کیا جائے اور رات جم خانہ کلب میں قیام کیا جائے۔ یعنی شام اہالیان لاہور کی سرمستی کی نذر ہو گئی۔ اور قائد کاروانِ جمہوریت فرماتے ہیں کہ عوام کا دل بوجھل ہے۔ اس پورے سیلاب میں قائد کی ایک فوٹو نظر نہ آئی‘ کجا یہ کہ کوئی نعرہ ان کی بے رحم نااہلی کے بارے میں سننے کو ملتا۔
جنابِ قائد اپنے ہی خیالوں کی دنیا میں قدم رکھے ہوئے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرے گا وہ وہیں کے مکین ہو کے رہ جائیں گے‘ اور انہیں وہی کچھ نظر آئے گا جو ان کے تخیلات مرتب کریں گے۔ ہر جانے والے پہ یہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جب جنرل مشرف وطن واپس لوٹ رہے تھے تو انہیں یقین تھا کہ کراچی ائیر پورٹ پر لاکھوں کا مجمع ان کا منتظر ہو گا۔ عجیب کیفیت سے گزرے جب ایسا منظر پیش نہ آیا۔ جب جناب الطاف حسین کی تکلیف دہ تقریروں کا سلسلہ ٹیلی ویژن پہ بند ہوا اور پوری قوم کو اس اذیت سے نجات ملی تو وہ سوچتے نہ ہوں گے کہ اس ناانصافی پہ کراچی کے لاکھوں شہری غصے سے بھرے دل لیے سراپا احتجاج ہوں گے‘ اور کراچی کی سڑکوں پہ ان کے نعرے لگ رہے ہوں گے؟ ایسا کچھ نہ ہوا اور رفتہ رفتہ وہ سوچ بھی ذہنوں سے محو ہوتی گئی کہ ایسا وقت بھی تھا کہ ٹی وی لگائیں تو ہر چینل پہ ان کا دلفریب چہرہ ہی نظر آتا تھا‘ لہٰذا جو قائدِ ائیرکنڈیشنڈ انقلاب پہ گزر رہی ہے اور مزید گزرے گی‘ یہ انوکھی بات نہیں۔ ایسے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
وہ اشتہارات تو ملاحظہ ہوں جن میں ایک طرف ہیٹ پہنے قائد اعظم ہیں اور ساتھ ہی ہیٹ پہنے خادم اعلیٰ ہیں۔ داد دینے کو جی چاہتا ہے ان ہنرمندوں کو جن کی یہ اختراع ہے۔ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اپنے آپ کو کہاں جا ملایا... قائد اعظم سے۔ ایسی بھی تصویریں ہیں جن میں خادم اعلیٰ اور ان کے ہونہار فرزند ٹھوڑی کے نیچے مُکا لگائے بیٹھے ہیں تاکہ گمان گزرے کہ شاعر مشرق کی طرح غور و فکر میں گم ہیں۔ ہیٹ پہن کے قائد اعظم کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور منہ کے نیچے مُکا لگا کے مُفکر بن گئے۔ یہ ہیں اس دورِ حکمرانی کی ڈرامے بازیاں۔ یہ تو شکر کا مقام ہے کہ حبیب جالب بخشا گیا ورنہ وہ وقت بھی تھا جب کوئی تقریب ایسی نہ ہوتی جس میں خادم اعلیٰ ترنم کے ساتھ یہ نہ گا رہے ہوتے ''ایسے دستور کو صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘‘۔ یہ ایسا ہی ہے کہ امریکہ میں کوئی Rockefeller یا اور چوٹی کا سرمایہ دار باآواز بلند اور جھومتے ہوئے کارل مارکس کے ترانے گاتے ہوئے دکھائی دے۔
ان کی کوئی پکڑ نہ تھی۔ پیپلز پارٹی ان کے ساتھ مقابلے کا میچ کھیلنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی۔ بینظیر بھٹو نے ایک سے زیادہ بار انہیں مات دی لیکن جب سے پیپلز پارٹی جناب زرداری کے قبضے میں آئی ہے‘ اس کی سوچ اور ترجیحات بدل گئی ہیں۔ بجائے ن لیگ کا مقابلہ کرنے کے پیپلز پارٹی تقریباً اس کی دُم چھلا بن کے رہ گئی ہے۔ لیکن قدرت کا بھی اپنا ایک نظام ہوتا ہے۔ سالہا سال تک ایسا لگتا تھا کہ پی ٹی آئی کسی دُور افتادہ صحرا میں گم ہے۔ عمران خان کے لاکھ جتنوں کے باوجود وہ کچھ نہیں بن پا رہا تھا۔ لیکن اچانک 2011ء میں یہ معجزہ رونما ہوا کہ لاہور مینار پاکستان کے سائے تلے ایک دھماکہ خیز جلسہ منعقد ہوا‘ جس نے ہر چیز کو ہلا کے رکھ دیا۔ جو خلا پیپلز پارٹی کے پگھلنے سے پیدا ہوا وہ بتدریج پی ٹی آئی بھرتی گئی۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ ترازو کے ایک پلڑے میں ن لیگ ہے اور دوسرے میں پی ٹی آئی۔ ایک سورج ڈھل رہا ہے اور دوسرا ابھرنے کو ہے۔ قائدِ انقلاب رونا روتے ہیں کہ مجھے کیوں برطرف کیا گیا، میرا قصور کیا تھا اور پی ٹی آئی فوراً ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہواؤں میں جواب بکھیر دیتی ہے کہ یہ ہیں وجوہات جن کی بنا پہ یہ ماجرا سرزد ہوا۔ ن لیگیوں کا ترانہ ہے: شیر آیا، شیر آیا۔ اس کا جواب پی ٹی آئی والوں نے حالیہ جلسہء لیاقت باغ میں دیا‘ جسے بیان کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے کہ وفادار بُرا نہ مان جائیں۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ سیاست میں تو بہت سارے چہرے اور دامن بے نقاب ہو گئے۔ کتنی پارسائی کی داستانیں پاناما پیپرز اور اس سے اٹھنے والے دھویںکی نذر ہو گئیں‘ لیکن صحافت کے دلیرانہ میدان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک پوری لائن ہے پارسا چہروں کی جو اس شوروغل میں بے نقاب ہوئی۔ بہت سے رستم جو گزرے زمانوں میں پتہ نہیں کیا راگ الاپتے تھے راتوں رات آئین کے پاسدار اور جمہوریت کے چیمپئن بن گئے۔ چہروں پہ ایسا میک اپ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بڑے سے بڑا آرٹسٹ اس مقام پہ نہ پہنچ سکے۔