شوکت عزیز بھی یہاں وزیر اعظم رہے۔ کیسے اور کہاں سے آئے‘ مشرف بغاوت کے بعد کیسے جی ایچ کیو میں انٹرویو دینے کسی جرنیل کے کمرے کے سامنے انتظار کرتے پائے گئے، یہ الگ داستان ہے۔ پہلے وزیر خزانہ کے طور پہ چُنے گئے اور جب ظفراللہ جمالی اپنے گوہر دکھا چکے تو ان کی جگہ وزیر اعظم بنے۔
جو بھی کہیں شاہد خاقان ایک سیاسی آدمی ہیں اور لاکھ کمزوریاں سہی شوکت عزیز سے بہتر ہو سکتے ہیں۔ مبالغہ نہ سمجھا جائے تو سابقہ مردِ آہن‘ حال جمہوریت کے چیمپئن سے بھی کئی لحاظ سے بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے زمانے میں تو کابینہ شاذ و نادر ہی ملتی تھی۔ مہینے گزر جاتے باقاعدہ میٹنگ نہ ہوتی۔ وزرا کی رسائی بھی وزیر اعظم سے مشکل تھی۔ پارلیمنٹ جانے سے وزیر اعظم گریز کرتے۔ مسائل پہ توجہ دینا یا جسے ہم انگریزی میں concentration کہتے ہیں وہ ہمیشہ ان کا مسئلہ رہا۔ کم از کم ان روشوں کا شکار شاہد خاقان نہ ہوں گے۔
یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ طرز حکمرانی سے خواہ مخواہ کی پنگا بازی چلی جائے۔ شاہد خاقان کے ہوتے ہوئے کسی نئی ڈان لیکس کا امکان نہ ہو گا۔ افواج سے فضول کی لڑائی کا اندیشہ کم رہے گا۔ شاہد خاقان کو کسی مینڈیٹ کا زعم نہیں ہو گا۔ دھیان اس بات پہ ہو گا یا ہونا چاہیے کہ جتنا وقت ملا ہے اس میں کچھ کارکردگی دکھا سکیں۔ بطور ایم این اے میں نے دیکھا تھا کہ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگوں میں وہ اس چاپلوسی اور خوشامد سے پرہیز کرتے تھے جو کہ ن لیگ کا ہمیشہ طرہ امتیاز رہا ہے‘ اور کئی دفعہ دبے یا سلجھے الفاظ میں تنقید کی بھی جسارت کرتے تھے۔ وزرا کی تو اور بات ہے کیونکہ چند ایک کو خیال ہو گا کہ وہ شاہد خاقان سے بہتر وزیر اعظم ٹھہرتے۔ لیکن سوائے سکہ بند خوشامدی ٹولے کے، زیادہ تر ایم این ایز شاہد خاقان کے ہوتے ہوئے زیادہ سکھ محسوس کریں گے۔ ایم این ایز کو خوش کرنے کے لئے ان کے ترقیاتی فنڈز انہوں نے جلدی ریلیز کر دیے ہیں۔ البتہ جب وہ قومی اسمبلی میں آئیں تو انہیں اس امر کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہر وقت کاغذ اور درخواستیں پکڑے وہ درخواست گزاروں کے درمیان گھرے نہ رہیں۔ جمہوریت کی باتیں ہم بہت کرتے ہیں لیکن اپنے کلچر کے ان پہلوؤں سے نجات نہیں پا سکے۔ نواز شریف کا دبدبہ چونکہ زیادہ تھا‘ اس لئے درخواستی گروپ ان سے دور رہتا تھا‘ یا دور رکھا جاتا تھا۔ شاہد خاقان کو اس بارے میں کچھ کرنا پڑے گا‘ نہیں تو قومی اسمبلی میں سانس لینے کی فرصت نہ ملے گی۔
ٹکراؤ سابقہ مرد آہن نے کیا کرنا ہے۔ البتہ وہ اور ان کے گرد خوشامدی ٹولہ ٹکراؤ کا سوچتے ضرور ہیں‘ لیکن بیشتر ن لیگ نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ زبانی نہیں تو عملاً بیشتر ن لیگ نے نواز شریف سے دوری اختیار کر لی ہے۔ وفاداری کا دم تو بیشتر لیڈر بھرتے ہیں لیکن وہ اب آگے کی طرف سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف تو اقتدار سے گئے‘ اور شاید کبھی واپس نہ آئیں‘ لیکن ان کی بقا کے تقاضے کیا ہونے چاہئیں۔ نواز شریف اور ان کے خاندان نے مقدمات بھگتنے ہیں۔ ان کی مصیبتوں کا دور پتہ نہیں کب ختم ہو۔ لیکن ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنے حلقوں میں رہنا ہے اور وہاں سے الیکشنز لڑنے ہیں۔ ٹکرائو کی پالیسی پر وہ گامزن نہیں رہ سکتے۔ مقامی ایس ایچ او سے ٹکرائو انہیں مہنگا پڑتا ہے بشرطیکہ ایس ایچ او ان کا تعینات کردہ یا حواری نہ ہو۔ اسٹیبلشمنٹ جیسی بلا کے سامنے کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ نہ ن لیگ‘ نہ پنجاب کا یہ مزاج ہے۔ اب یہ بات بیشتر پارٹی نمائندگان کے ذہنوں میں بیٹھتی جا رہی ہے کہ نواز شریف کا باب ملکی تاریخ میں ختم ہو چلا۔ مستقبل کی راہیں تلاش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
ایم این ایز چھوڑیے، خود چھوٹے بھائی حالات کو عملیت پسند نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ جی ٹی روڈ مارچ کے حق میں نہ تھے۔ داتا دربار کے سامنے جلسے میں وہ مائیک پہ آنے سے گریز کر رہے تھے۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں انہوں نے پنجاب پارٹی کو یہ ڈائریکٹو دیا ہے کہ اداروں پر تنقید سے گریز کیا جائے۔ فرق واضح ہے۔ نواز شریف نے اداروں پر، جس کا مطلب ہے عدلیہ اور افواج، پر تنقید کے گولے برسانے کی کوشش کی۔ حاصل کچھ نہ ہوا لیکن کوشش تو اپنی جگہ‘ خادم اعلیٰ کا فرمان ہے کہ اداروں کو ہدف نہ بنایا جائے۔
یہی ن لیگ کے لئے بہتر راستہ ہے کہ کشتیاں نہ جلائی جائیں، جو بچ سکتا ہے اسے بچایا جائے اور اگلے انتخابات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی تقریباً واضح کر دیا ہے کہ دشمنی اگر ہے بھی تو جماعت سے نہیں۔ ن لیگ تو ہے ہی اسٹیبلشمنٹ نواز جماعت۔ اسی کی گود میں پلی اور بڑی ہوئی۔ جس قسم کی سوچ ن لیگ کی ہے وہ کسی کے لئے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ تو نواز شریف ہی تھے جن کے ذہن میں یہ خیال گھر کر گیا کہ ہر ایک کو، ہر ادارے کو، نیچا دکھانا ہے۔ ان کی انوکھی سوچ یہ تھی کہ افواج پاکستان بھی پنجاب پولیس بن جائے اور فوج کا سپہ سالار آئی جی پنجاب کی طرح اطاعت گزار ہو۔ اس میں خوشامدی ٹولہ ان کا ہمنوا تھا۔ ہر بے تکی سوچ پر 'واہ واہ‘ کی آواز گونجتی۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد ن لیگ اپنے اصل کو لوٹ رہی ہے۔ اور یہی نواز شریف صاحب سے ہضم نہیں ہو رہا کہ وہ نااہل ہو کے کرسی ٔ اقتدار سے ہٹے اور باقی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ یعنی ان کے جانے سے پہاڑوں سے آنسو نہیں بہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ان کے جانے سے مجموعی حکمرانی میں شاید بہتری آئے۔ سول اور عسکری ادارے آپس میں بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔ اس کی ضرورت بھی ہے‘ خاص طور پہ اس تناظر میں‘ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان بارے اپنی ترجیحات واضح کی ہیں۔ پاکستان کی رسماً تعریف بھی ہوئی لیکن کڑا الزام بھی لگا کہ امریکہ دشمن عناصر کو پاکستان میں پناہ گاہیں میسر ہیں۔ ان کی تقریر میں یہ انتباہ بھی پنہاں تھا کہ پاکستان امریکہ کی مرضی پہ نہ چلے تو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اس صورتحال کا سامنا کیسے کیا جائے؟ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے لئے یہ چیلنج ہے۔ دونوں کو ایک ہی نظر سے حالات کا جائزہ لینا ہے۔ نواز شریف کے ہوتے ہوئے دونوں اطراف کا باہمی تعاون مشکل ہوتا کیونکہ اگر ایک طرف بغض تھا تو دوسری طرف بے اعتمادی۔ شاہد خاقان کے ہوتے ہوئے بہتر تعاون کی امید لگائی جا سکتی ہے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ کون سی قیمت ہے جو امریکی ناراضگی کی وجہ سے ہمیں ادا کرنی پڑے گی۔ ایک تو ہمیں non-Nato ally کا درجہ دیا گیا ہے‘ جس کی وجہ سے امریکی فوجی امداد ترجیحی بنیادوں پہ ہمیں ملتی ہے۔ دوسرا ہر سال ہمیں لگ بھگ ایک بلین ڈالر کی امریکی امداد ملتی ہے۔ قومی حمیت اور غیرت کی ہمیں فکر ہے تو ذہنی طور پہ ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ دونوں چیزیں ہم سے لی جا سکتی ہیں۔ ہم امریکی امداد کے بغیر پہلے بھی رہ چکے ہیں ۔ مزید بھی رہ سکتے ہیں۔ فقط کچھ عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں کمی کرنی ہو گی۔ ترجیحات کو درست کرنا ہو گا۔ اسحاق ڈار کے بلند بانگ دعووں کے برعکس معیشت کی حالت اچھی نہیں۔ برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے اور فارن ایکسچینج ذخائر بھی سکڑے ہیں۔ ان چیزوں کے بارے میں سوچ اور درست حکمت عملی درکار ہے۔ یہ افواج کا کام نہیں، نہ ان میں یہ صلاحیت ہے۔ یہ خالصتاً سویلین حکومت کا کام ہے۔