الفاظ نرم ہوں تو زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ قدم البتہ مضبوط رہنے چاہئیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوازن باتیں صرف ہمارے بارے میں نہیں کہیں۔ ان کا عمومی رویہ بہت سارے معاملات میں غیر متوازن ہے۔ افغانستان پالیسی کے بارے میں ان کی تقریر نے ہلکا سا بھونچال پاکستان میں پیدا کر دیا ہے لیکن ہمیں اس پر زیادہ بپھرنے کی ضرورت نہیں۔
نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد ایک تگڑا بیان سامنے آیا ہے۔ اتنی جلدی میں یہ میٹنگ کرنے کی شاید ضرورت نہ تھی۔ دو تین دن ٹھہر جاتے، اس سے یہ تاثر جاتا کہ پاکستان حوصلے میں ہے۔ ہمارے سخت جواب سے کچھ پریشانی جھلکتی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم امریکی الزامات یکسر مسترد کرتے ہیں‘ اس کی بھی شاید ضرورت نہ تھی۔ ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ امریکی الزامات گمراہ کن ہیں‘ اور ہم یہ دعوت دے سکتے تھے کہ امریکی حکام آئیں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کے اس طرف دہشت گردوں یا طالبان کی پناہ گاہیں ہیں‘ اس پہ ہم سے بات کریں اور ہمیں معلومات فراہم کریں۔ اور ساتھ ہی ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ درحقیقت تو دہشت گردوں کے ٹھکانے اُس پار ہیں جو کہ پاکستان پر حملوںکے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
بات یہ نہیں کہ ہمارا ریسپانس کمزور یا زیادہ لچکدار ہو۔ سخت رویہ رکھتے ہوئے بھی زیادہ سلیقے کے الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں۔ آئے روز امریکہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے ایران کو مخاطب کرتا ہے۔ ایرانیوں کو موقع ملے تو امریکہ کو سُنا دیتے ہیں۔ وہ تو امریکہ کے لئے بڑے شیطان کا خطاب استعمال کرتے ہیں۔ لیکن آئے روز وہ امریکی دھمکیوں پہ پریشانی میں نہیں ڈوب جاتے۔ ہاں، اگر کوئی امریکی کشتی یا patrol boat ایرانی پانیوں میں داخل ہو جائے تو اس کی بخشش نہیں ہوتی۔ اور پھر امریکیوں کو اپنے فوجیوں کو چھڑانے کے لئے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ چین کو بھی امریکہ سے شکایت رہتی ہے لیکن ہمیشہ مخاطب ہوتے ہیں تو نَپے تُلے انداز سے۔
بہرحال ادائیگیٔ الفاظ ضمنی مسئلہ ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا حوصلہ قائم رہنا چاہیے اور ٹھنڈے دل و دماغ سے تمام معاملے کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہم امریکہ کی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ یہ ہمیں صاف کہہ دینا چاہیے۔ یہ بات ہم نے درست نہیں کہی کہ ہمیں امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے نقصان اور قربانیوں کا اعتراف چاہیے۔ اس ضمن میں پاکستان کو کسی قسم کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ ہماری افواج کی قربانیاں ملکی تحفظ اور سلامتی کے لئے ہیں۔ پاکستانی قوم کو اس کا اعتراف ہونا چاہیے۔ یہی کافی ہے۔
اور ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو حضرت مولانا سمیع الحق نے داغ دیا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ کچھ ہوش کی بات کرنی چاہیے۔ یہاں امریکہ ہم پہ یہی الزام لگا رہا ہے کہ ہم ایسی تنظیموں کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں اور مولانا تقریباًاسی بات کی تائید فرما رہے ہیں۔ کوئی انہیں سمجھانے والا ہو کہ موقع محل دیکھ کے بات کی جاتی ہے۔ افغان جنگ اور نام نہاد جہاد کے حوالے سے پاکستان نے پہلے ہی بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اس میں مولانا سمیع الحق جیسے علماء کا کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ اب تو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کی دھمکی آمیز تنبیہ ایک طرف، لیکن یہ ہمارے مفاد میں قطعاًَ نہیں کہ یہ تاثر قائم رہے کہ حقانیوں یا ان جیسے دوسروں کے لئے یہاں پناہ گاہیں موجود ہیں۔ امریکہ کی جنگ نہ لڑنا اور بات ہے۔ امریکہ جانے اور اس کی افغان پالیسی جانے۔ امریکہ اپنے اہداف افغانستان میں حاصل کرتا ہے یا نہیں، طالبان فتح پاتے ہیں یا شکست، یہ ہمارا دردِ سر نہیں۔ دو ٹوک انداز میں بغیر لگی لپٹی رکھے یہ ہمیں امریکیوں کو کہہ دینا چاہیے۔ لیکن جب اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے قریب سے دریافت ہو اور ملا اختر منصور بلوچستان میں ڈرون حملے سے مارا جائے تو پھر ہمارے اخلاقی غصے میں وہ دم نہیں رہتا جو ہونا چاہیے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو اگر یہ شائبہ بھی جائے کہ ایسے عناصر کو سہولیات فراہم ہو رہی ہیں‘ تو یہ ہمارے مفاد میں نہیں۔
افغانستا ن میں امن قائم ہو تو یہ ہمارے فائدے میں ہے کیونکہ وہاں کی شورش ہم پہ اثر انداز ہوتی ہے‘ لیکن مسئلے کا حل ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ امریکی غلط سمجھتے ہیں اور سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن نے درست نہیں کہا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پہ لائے۔ تھوڑا بہت جو ہم کہہ سکتے ہیں‘ ہمیں کہنا چاہیے‘ لیکن جہاں طالبان امریکہ کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے‘ وہ ہم سے ڈکٹیشن کہاں لیں گے۔ افغان تاریخ بتاتی ہے کہ افغان کسی کی نہیں سنتے۔ جب جہاد کے نام پہ ہم نے بہت کچھ ان پہ قربان کیا‘ تب بھی وہ اپنی مرضی کرتے تھے۔ ہم نے انہیں نہیں کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو پناہ دیں۔ آخری دنوں میں امریکی حملے سے پہلے پاکستان نے بہت کوشش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں سے جانے کا کہیں‘ لیکن انہوں نے ہماری ایک نہ مانی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ کوئی اور قوم ہوتی تو کب کی امریکیوں کے سامنے لیٹ گئی ہوتی۔ یہ افغان ہیں کہ لڑتے جا رہے ہیں۔ امریکیوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔ جنگ میں وہ کامیاب نہیں۔ کون سے ہتھیار اور کس تعداد میں افغانستان میں استعمال نہیں ہوئے۔ امریکی تاریخ میں یہ ان کی طویل ترین جنگ ہے۔ جنگ جاری رکھنا بھی مشکل اور افغانستان سے بھاگ جانا بھی مشکل۔ یہی امریکی مخمصہ ہے۔
آسان چیز وہ ہے جو امریکی کر رہے ہیں کہ پاکستان کو دباؤ میں لائیں اور پاکستان سے طرح طرح کی باتیں کہیں۔ یہ اب ہم پہ منحصر ہے کہ خندہ پیشانی سے ان حالات کا سامنا کریں اور اپنے اوپر گھبراہٹ نہ طاری ہونے دیں۔ لیکن جہاں اور باتیں ضروری ہیں‘ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے اندرونی حالات بہتر ہوں۔ وزیر اعظم کمزور اور ناتجربہ کار ہیں۔ وزیر خارجہ بھی اس میدان میں نئے ہیں۔ ایسے حالات میں افواج کا وزن بڑھ جاتا ہے اور ان کا حالات دیکھنے کا انداز اپنا ہی ہوتا ہے۔ یہ معاملات کیسے ٹھیک ہوں گے، حکمرانی کیسے بہتر ہوتی ہے اور مضبوط حکومت کیسے میسر آتی ہے یہ اللہ ہی جانے۔ شیڈول کے مطابق انتخابات میں دس ماہ باقی ہیں۔ یہ لمبا عرصہ ہے لیکن وقت سے پہلے انتخابات کا کوئی طریقہ نظر نہیں آتا۔
تو پھر جو کچھ ہے اسی سے گزارا کرنا پڑے گا۔ اچھے یا برے شاہد خاقان ہی وزیر اعظم ہیں اور انہی کو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا‘ لیکن بہتر ہوتا کہ وہ اتنی جلدی میں سعودی عرب نہ جاتے۔ یہ کون سی ہماری کمزوری ہے کہ تھوڑی سی ہوا چلے تو ہم اس جانب دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ کہتے ہم تھکتے نہیں کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں‘ لیکن حوصلے کی کیفیت یہ ہے کہ باہر کے دلاسے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ وزیر خارجہ کو بھی امریکہ جانے کی ایسی جلدی نہیں ہونی چاہیے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا ذہن پاکستان کے بارے میں بن چکا ہے۔ ایک دم وہ ذہن تبدیل نہیں ہو گا اور خواجہ آصف کب کے بسمارک (Bismarck) ٹھہرے کہ امریکی ان کی بات غور سے سنیں۔
ایک اور احتیاط بھی کر لینی چاہیے۔ اسحاق ڈار کو فی الوقت کسی وفد میں نہیں شامل ہونا چاہیے۔ جیسا کہ ان کے فوٹو بتاتے ہیں‘ وہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور ٹینشن ان کے چہرے پہ نمایاں ہے۔ سعودی ولی عہد سے وزیر اعظم کے ہمراہ ملے تو یہی کیفیت تھی اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں بھی ایسے ہی لگ رہے تھے۔ وہ اپنے قانونی معاملات نمٹائیں، ان چیزوں سے فی الحال دور رہیں۔