مردم شماری کے ابتدائی نتائج سے تو ہم پر خوف طاری ہو جانا چاہیے، یا کم از کم ان لوگوں پہ جن کو زُعم ہے کہ وہ ملک کے مستقبل کے بارے میں متفکر ہیں۔ ماشاء اللہ ہماری مجموعی تعداد اب 207 ملین سے اوپر ہو گئی ہے‘ اس میں گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر کی آبادی شامل نہیں۔ اور جہاں تک آبادی کے اضافے کی شرح کا تعلق ہے، ہم نے عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔
ایک وقت تھا جب ہم اپنے بنگالی بھائیوں اور بہنوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ وہ صرف بچے پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، باقی کسی کام کے نہیں۔ اب اللہ کا کرنا ہے کہ ہماری آبادی بنگلہ دیش سے تیس ملین یا تین کروڑ زیادہ ہو چکی ہے۔ اور اگر یہ نکتہ بھی ہمیں سوچنے پہ مجبور نہیں کرتا تو کرہء ارض پہ اور کوئی دلیل نہیں جو کر سکے۔
اس سے زیادہ ڈراؤنی بات یہ ہے کہ اگلے تیس سال میں مملکت خداداد کی آبادی ڈبل ہو چکی ہو گی۔ ہم میں سے بہتوں کو یہ یقین ہے کہ پاکستان کا وجود میں آنا اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ بالفاظ دیگر پاکستان کی پیدائش کے پیچھے کوئی آسمانی مقصد تھا۔ لیکن یہ بھی کیا کوئی آسمانی مقصد تھا کہ افزائش نسل میں ہم اپنا کوئی ثانی نہ چھوڑیں؟ جب ہماری آبادی دس کروڑ تھی‘ ہم اپنے کشکول کے سہارے جی رہے تھے۔ باہر کی امداد، جو گداگری کا شائستہ متبادل ہے، کے بغیر ہم رہ نہیں سکتے تھے۔ آبادی پندرہ کروڑ تک پہنچی‘ پھر اٹھارہ کروڑ اور ہمارا کشکول فولاد کا اور ناقابل تسخیر رہا۔ اب اکیس کروڑ ہو گئے ہیں یا اس سے بھی کچھ زیادہ اور یہی حالت ہے۔ تیس سال میں جب آبادی چار سو ملین یا چالیس کروڑ تک پہنچ چکی ہو گی تو پھر کیا کریں گے؟ پھر تو بڑے سے بڑا کشکول چھوٹا پڑ جائے گا۔
چند سال پہلے جب بیگم خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی وزیر اعظم تھیں‘ مجھے وہاں بطور الیکشن آبزرور جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈھاکہ سے سلہٹ براستہ سڑک گئے تو زمین پہ آبادی کا پریشر یوں سمجھیے کہ محسوس ہوتا تھا۔ ایک گاؤں ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔ کھلی جگہیں بہت کم تھیں اور جب ہمیں ایک دو بار ضرورتِ زندگی کیلئے رُکنا پڑتا تو دقت محسوس ہوتی۔
ہمارے پاس زمین بنگلہ دیش سے زیادہ ہے لیکن جی ٹی روڈ پہ چلیے... وہی جی ٹی روڈ جس پہ قائدِ جمہوریت نے چند روز پیشتر سفر کیا، اس امید کے ساتھ کہ عوام کھڑے ہو جائیں گے اور انہیں واپس وزیر اعظم ہاؤس پہنچا دیں گے... تو اسی قسم کا پریشر محسوس ہوتا ہے۔ 2004ء میں لاہور سے دہلی بس پہ جانے کا اتفاق ہوا اور جب سرہند اور پانی پت سے گزرتے ہوئے دہلی کے پڑوس میں پہنچے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ انسانوں کے ایک سمندر کو چیرتے ہوئے ہم گزر رہے ہیں۔ 1947ء میں ہمارا زمین اور آبادی کا تناسب پورے برصغیر میں سب سے بہتر تھا۔ پاکستان کے اس حصے کی آبادی تب 35 ملین یا 3.5 کروڑ تھی، اور اب دیکھیے ہم نے اپنا حال کیا کر لیا ہے۔
ڈر تو ایک طرف رہا‘ اس صورتحال کی ہمیں کچھ فکر بھی ہے؟ مستقبل میں دیکھنا اور آنے والے چیلنجز کو سمجھنا کبھی بھی ہمارا طرہء امتیاز نہیں رہا۔ ہم موجودہ وقت میں ہی رہتے ہیں اور اگر مستقبل کا خیال ہے تو صرف آخرت کا۔ اس کا ڈر ہمارے دلوں پہ حاوی رہتا ہے۔ قبر میں کیفیت کیا ہو گی اور جب فرشتے آئیں گے تو ہمارا حساب کتاب کیسے لیا جائے گا۔ آخرت میں سرخرو ہونے کی امید میں ہم ہر چیز کرتے ہیں۔ ماہِ رمضان میں روزے رکھتے ہیں، فریضہ حج بساط کے مطابق ادا کرتے ہیں‘ اور باقی جو سطحی قسم کی ذمہ داریاں مذہب نے ڈالی ہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم میں سے جو افضل ہیں ٹیکس چور ی تو کرتے ہیں‘ لیکن صدقہ خیرات دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں زیادہ تر آخرت کی فکر میں کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں اور ابھی کے مسائل کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہوتے۔ ہماری آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح ایک ٹک ٹک کرتا بم ہے، ان بموں سے کہیں زیادہ خطرناک جو ہمارے جوہری ذخائر میں ہیں۔ لیکن ہمیں اس بم کی قطعاً پروا نہیں۔ دہشت گردی کا خطرہ ایک آنی جانی چیز ہے۔ 2014ء سے پہلے جب افواج نے فاٹا میں آپریشن شروع نہیں کیا تھا‘ تو خطرناک حدوں کو چھُو رہا تھا‘ لیکن آپریشن کے بعد دہشت گردوں کو شکست ہوئی اور یہ خطرہ اتنا سنگین نہ رہا‘ لیکن آبادی کا دھماکہ کوئی آنی جانی چیز نہیں۔ اگر ہم نے اس کے بارے میں اب سے ہی نہ سوچا تو ہمارے ترقی کے تمام خواب ویسے کے ویسے ہی رہ جائیں گے۔
لیکن اس بارے میں سوچے گا کون؟ ہماری حکومتوں‘ سول ہوں یا فوجی‘ کی یہ ترجیح ہی نہیں۔ آخری بار جس کسی نے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھا وہ ایوب خان تھے‘ اور وہ ایک فوجی تھے۔ اس کے بعد یہ مسئلہ ہماری ریڈار سکرین سے اُتر گیا‘ اور نتائج ہمارے سامنے ہیں... شرح آبادی بالکل کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ نہ ہماری سیاسی کلاس‘ نہ کوئی اور اس بارے میں سوچنے کی زحمت کرتا ہے۔ کبھی آپ نے کوئی ٹی وی ٹاک شو اس مسئلہ پہ دیکھا ہے؟ میڈیا کیلئے یہ سیکسی مضمون نہیں۔
ایک اورچیز جس کے بارے میں ہمیں متفکر ہونا چاہیے وہ پلاسٹک ہے۔ چاہے وہ پولی تھین کا بیگ ہو‘ جس میں ہم اپنی شاپنگ کرتے ہیں‘ یا پلاسٹک کی دیگر بنی ہوئی چیزیں۔ یہ چیزیں ہماری سرزمین کو نہ صرف گندا‘ بلکہ برباد کر رہی ہیں۔ اور نہ صرف سرزمین‘ بلکہ ہمارے چشموں، دریاؤں اور سمندر کو بھی۔ اگلے روز ایک انگریزی اخبار میں کراچی بندرگاہ کا فوٹو چھپا تھا‘ جس میں ماہی گیری کی کشتیاں لنگر انداز ہیں اور ان کے چاروں اطراف پانی نظر نہیں آ رہا بلکہ ایک پلاسٹک کا سمندر تھا۔ سارے جہان کا گند وہاں نظر آ رہا تھا۔ ڈر لگنا چاہیے ایسے مناظر سے لیکن ہمیں کوئی پروا نہیں۔
کراچی کا آدھا کچرے کا مسئلہ حل ہو جائے اگر پولی تھین بیگ کا کچھ سدباب کیا جائے۔ فقط یہ ایک قدم اور مسئلہ قابل حل ہو جائے گا۔ پھر ہمیں چینی کمپنیوں سے ٹھیکے نہ کرنے پڑیں کہ وہ ہمارا کچرا اٹھائیں۔ ویسے بھی ہم کس قسم کی جوہری طاقت ہیں؟ شہروں کا کچرا اپنے بل پہ اٹھا نہیں سکتے، راولپنڈی اور لاہور میں ترکی کمپنیوں سے ٹھیکے کرنے پڑتے ہیں اور کراچی میں چینی کمپنی سے، اور ہم اپنی جوہری طاقت کے گن گاتے تھکتے نہیں۔
حال ہی میں کینیا نے پولی تھین بیگ کے بارے میں سخت قانون بنایا ہے۔ جو کوئی اس کو بنائے، بیچے حتیٰ کہ استعمال کرے گا‘ اسے چار سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ کیا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے؟ کبھی آپ نے کسی سیاستدان کو اس موضوع پہ گفتگو کرتے سنا ہے؟ کیا ہمارے لیڈران کو اس کا کبھی ادراک ہوا؟ میں نے ایک دفعہ تجویز دی تھی کہ چونکہ افواج ہر چیز میں پہل کرتی ہیں‘ اور پالیسی سازی میں بھی آگے آگے ہیں‘ تو شاید افواج ہی اس بارے میں پہلا قدم اٹھائیں‘ اور پلاسٹک بیگ کے استعمال پہ چھاؤنیوں اور ڈیفنس کے دیگر علاقوں میں مکمل پابندی عائد کریں۔ ظاہر ہے تجویز بے سود رہی۔ کس نے اس پہ کان دھرنا تھا۔ افواج عموماً حرکت میں تب آتی ہیں‘ جب انہیں یہ وہم یا یقین ہو کہ مسئلہ قومی سلامتی کا ہے۔ شاید کوئی روشن دانشور ایسا مکالمہ لکھے کہ پلاسٹک بیگ سے تباہی قومی سلامتی کا ایشو بن رہا ہے۔ پھر کیا پتہ افواج اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی قدم اٹھائیں‘ اور دیکھا دیکھی باقی مملکت کو بھی اس مسئلے کا احساس ہو جائے۔ امید پہ ہی دنیا قائم ہے حالانکہ بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔