عید کی چھٹیوں میں دو بڑی خبریں آئیں۔ ایک یہ کہ شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا۔ دوسری یہ کہ ہندوستان کی مشہور زمانہ ایکٹریس اور ڈانسر سنی لیون نے شراب اور گوشت کا استعمال چھوڑ دیا۔
شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ اُن نے یہ خوب مہارت اپنا لی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیسے چھیڑا جائے۔ ہر امریکی دھمکی کا جواب ایک میزائل ٹیسٹ سے دے دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا اگر امریکہ کے لئے خطرہ پیدا کرے تو اسے ایسی آگ اور غصے کا سامنا کرنا پڑے گا جو دنیا نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ کم جونگ اُن ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں‘ اور اب تو ہائیڈروجن بم کا بھی مبینہ دھماکہ کر دکھایا ہے۔ جب آپ پہلے ہی انتہا کی دھمکی دے چکے ہوں تو پھر یہی رہ جاتا ہے کہ بپھرے ہوئے انداز میں کہیں ''اِب کی بار مار کے دیکھ‘‘۔ امریکہ دانت چبائے یہی کر رہا ہے۔
سنی لیون کا مسئلہ قدرے مختلف ہے۔ یاد رہے کہ بے بی ڈول کی دُھن پہ ان کا ڈانس جب سامنے آیا تو کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔ آپ یُوٹیوب پہ جائیں تو کم ہی گانوں یا ڈانسز پہ اتنی ہٹس دیکھنے کو ملیںگی۔ اس زمانے میں اِسی گانے اور ڈانس کی دھوم تھی۔ لہٰذا ایسی شاہکار ہیروئن کی طرف سے ایسے انتہائی قدم کی خبر آئے تو آدمی سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسا ماجرا کیسے وقوع پذیر ہوا اور اس کے محرکات کیا ہیں۔ اپنی طرف سے سنی لیون صاحبہ نے وضاحت کی ہے کہ ان کے جسم میں بہت گرمی پیدا ہو گئی ہے اور انہیں مشورہ ملا ہے کہ وہ شراب اور گوشت سے پرہیز کریں۔
ظاہر ہے اس ملک میں ہمیں ان نازک معاملات کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے۔ یہ باہر کے مذاہب اور کلچر ہیں جن میں ایسی ناپسندیدہ حرکتوں کو نہ صرف اچھی نظروں سے دیکھا جاتا ہے‘ بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ زندگی ان کے بغیر نامکمل ہے۔ ہمارا مسئلہ تو سیدھا اور صاف ہے۔
ہم پانی پہ اکتفا کرتے ہیں‘ یا زیادہ سے زیادہ روح افزا اور قہوے پر۔ یہ بے راہ روی کے مظاہر کلچر ہی ہیں‘ جہاں مختلف رنگ کی مشروبات کا استعمال لائق تحسین جانا جاتا ہے۔ نخرے دیکھیے، سفید گوشت یعنی مچھلی و پرند کے ساتھ سفید رنگ کا مشروب، لال گوشت یعنی بیف و مٹن کے ساتھ لال رنگ کا شربت۔ حد یہ کہ کھانے کے اختتام پہ مزید انواع و اقسام کے مشروبات۔ برصغیر میں بہت عرصے تک برانڈی نام کی ناپسندیدہ چیز کو بطور دوا استعمال کیا جاتا رہا۔ کوئی بچہ نمونیا کی مرض میں مبتلا ہوا تو ایک چمچ اس کے حلق میں انڈیل دیا۔ حیرت انگیز طور پر اس سے اکثر اوقات افاقہ بھی ہوتا‘ لیکن انگریز قسم کے لوگ ہیں یا ہمارے ہندوستانی ہمسائے، وہ اس چیز کا استعمال کھانے کے بعد اچھا سمجھتے ہیں۔
سو سنی لیون صاحبہ کو داد دینی پڑتی ہے کہ انہوں نے ان سب خرمستیوں کو خیرباد کہہ دیا۔ چاہے وہ شدتِ گرمی کی وجہ سے کیا ہو۔ شاعر نے خوب کہا ''ہائے سیماب اس کی مجبوری، جس نے کی شباب میں توبہ‘‘۔
ہمارا مسئلہ کچھ عجیب ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ جب مملکتِ خداداد میں اس ناپاک چیز کا استعمال... جی بھی نہیں چاہتا کہ بار بار اس کا نام لیا جائے... قانوناً جائز تھا۔ صرف اتنی زحمت درکار ہوتی کہ کسی ہمدرد ڈاکٹر صاحب سے سرٹیفکیٹ بنوا لیا جائے کہ مریض کی صحت کے لئے شراب کا استعمال ضروری ہے۔ اس سرٹیفکیٹ کی بدولت محکمہ ایکسائز سے پرمٹ مل جاتا اور پھر یہ حرکت دائرہ قانون میں آ جاتی‘ حالانکہ بیشتر ہوٹل یا کلب‘ جہاں یہ حرکت سرِ شام اور رات گئے تک سرزد ہوتی رہتی‘ اس تردّد میں نہیں پڑتے تھے کہ آپ سے پرمٹ بارے پوچھا جائے۔ بس ایک پردہ تھا جو بوقت ضرورت کام آتا‘ اور کسی وجہ سے اگر کوئی سرپھرا پولیس والا کارروائی کا سوچتا تو پکڑ شراب نوشی پہ نہ ہوتی بلکہ سرعام غُل غُپاڑہ کرنے پہ ہوتی۔ ستم دیکھیے کہ ایک دفعہ استادوں کے استاد جناب مہدی حسن بھی اسی دفعہ کے تحت دھرے گئے اور دوسرے دن یہ منحوس خبر اخبارات کی زینت بنی۔
یہ صورتحال اپریل 1977ء تک رہی۔ پاکستان میں مارشل لاء لگے، بڑی عدالتوں نے کیا کیا حیران کر دینے والے فیصلے نہ سنائے، جنگیں لڑی گئیں، ملکہ ترنم نور جہاں نے نہ بھولنے والے ترانے گائے، آدھا ملک چلا گیا، قومی سطح پہ عجیب عجیب افسانے گھڑے گئے، یہ آوازیں بھی آئیں کہ چونکہ جنرل یحییٰ خان اور ان کا ٹولہ شراب میں ڈوبا رہتا‘ اس لئے پاکستان کو مشرقی محاذ پہ شرمناک شکست ہوئی، لیکن اس سب اتار چڑھاؤ کے باوجود کسی دانشور یا مبلغِ قوم کے ذہن میں یہ خیال نہ اٹھا کہ اس نازک مسئلے کو چھیڑا جائے۔ لیکن ہوائیں بدلنے کو تھیں۔
بھٹو صاحب کے خلاف تحریک مبینہ الیکشن دھاندلی سے اٹھی تھی۔ چلتے چلتے یہ نظامِ مصطفیٰ میں بدل گئی۔ پی این اے کے لیڈر بھٹو صاحب کے بارے میں کیا کچھ نہ کہتے تھے‘ لیکن حیران کن بات ہے کہ نظام مصطفیٰ کے زور و شور میں بھی یہ مطالبہ سامنے نہ آیا کہ مشروبِ خیام یا مشروبِ غالب پہ پابندی لگائی جائے۔ یہ اختراع مولانا کوثر نیازی کے ذہن کی تھی۔ وہ بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیرِ مذہبی امور تھے اور اُس وقت بھٹو صاحب کے بہت قریب آ چکے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پی این اے کی تحریک کو کمزور کرنے اور علمائے کرام کے بادبانوں میں سے ہوا نکالنے کا بہترین نسخہ ہے کہ کچھ اسلامی اقدام کئے جائیں۔ لہٰذا 15 اپریل 1977ء کو بھٹو صاحب نے قوم سے خطاب کیا اور شراب اور جوئے پہ پابندی کی نوید سنائی۔ یہ بھی اعلان ہوا کہ چھٹی اب جمعے کے روز ہو گی۔
تب تک لاہور اور کراچی میں نائٹ کلب ہوا کرتے تھے۔ جگہ جگہ میخانے تھے۔ نائٹ کلب بند ہوئے، میخانے اجڑ گئے اور تحریک نظام مصطفیٰ تھمنے کی بجائے اور زور پکڑ گئی۔ علمائے کرام رام ہونے کی بجائے بھانپ گئے تھے کہ بھٹو صاحب کمزوری دکھا رہے ہیں۔ بہرحال جنرل ضیاء الحق کو یہ پابندی ورثے میں ملی۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اسے مزید سخت کر دیا۔
آج کل کے نوجوانان کو یہ سُن کے شاید حیرانی ہو کہ جنرل ضیاء الحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی فروری 1979ء تک سپر مارکیٹ اسلام آباد میں ایک شراب کی دکان تھی‘ جہاں سرِ شام لمبی قطار لگی رہتی۔ جنرل صاحب کا مارشل لاء بھی چل رہا تھا اور یہ دکان بھی اپنے آب و تاب پہ تھی۔ اُس سال فروری میں حدود آرڈیننس پاس ہوا جس سے ان معاملات پہ قانون کی گرفت سخت کر دی گئی۔ راتوں رات وہ دکان بند ہو گئی اور اس کے بعد کبھی نہ کھلی۔ قوم کو بیوقوف بنانے میں جنرل ضیاء الحق سے بڑا مدبّر پاکستانی تاریخ میں کوئی نہیں آیا۔ پنجاب کے سابق آئی جی سردار علی خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1979ء تک حکومتِ پاکستان کی جیب خالی ہو چکی تھی۔ بھٹو صاحب کا مقدمہ چل رہا تھا اور عالمی سطح پہ جنرل صاحب کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھا جا رہا تھا۔ پاکستان کو کہیں سے بھی امداد نہیں مل رہی تھی۔ سردار علی خان کہتے ہیں کہ حدود آرڈیننس کا اجراء دراصل سعودی عرب کو خوش کرنے کی کاوش تھی۔ ہمارے سعودی مہربان خوش ہوئے یا نہیں، پاکستان کی قسمت میں وہ قانون لکھا گیا اور اس کے بعد کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ اُسے تبدیل کرے۔
پرانے قانون کے تحت‘ جو 1979ء سے پہلے رائج تھا‘ یہ حرکت قابل ضمانت تھی۔ آپ پکڑے بھی گئے تو تھانے سے ضمانت کروا لی۔ حدود آرڈیننس کے تحت یہ حرکت ناقابل ضمانت ہو گئی۔ اس قانون سے پاکستان بہتر معاشرہ بنا یا نہیں اس پہ بحث ہو سکتی ہے‘ لیکن اس حقیقت کو شاید جھٹلایا نہ جا سکے کہ پولیس والوں کے وارے نیارے ہو گئے کیونکہ سخت قانون کے پیش نظر شرح رشوت میں بھی اسی نسبت سے خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔