"AYA" (space) message & send to 7575

یہ چال، یہ سوچ کب‘ کیسے بدلے گی؟

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ چلیں ہمارا دشمن سہی کہ زہر بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ اگر امریکی صدر ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہیں ہماری سرزمین پہ ہیں‘ تو ہم اس کا جواب بپھری ہوئی حب الوطنی سے دے سکتے ہیں‘ لیکن جب چین بھی دوسرے برکس ممالک کے ساتھ تقریباً یہی بات کہے اور انگلی لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں پہ اٹھائے تو کیا یہ ہمارے لئے گریبان میں جھانکنے اور سوچنے کا مقام نہیں؟
برکس اعلامیہ یقینا ہمارے پالیسی سازوں کے لئے ایک دھچکے سے کم نہ ہو گا اور کم از کم چین سے وہ توقع نہ رکھتے ہوں گے کہ بھارت کی ہاں میں ہاں ملا کے پاکستان پہ دہشت گردی کی معاونت کا الزام لگائے۔ اگر نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دوست بھی وہی کہنے لگ پڑیں‘ جو دشمن کہتے ہیں تو ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے ہاں کچھ تنظیمیں ہیں‘ جن کا علانیہ مقصد جہادِ کشمیر ہے اور اُن کے بارے میں ہندوستانی الزام لگاتے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں کے بارے میں تاثر یہ ہے یا ہندوستان اس تاثر کو فروغ دیتا ہے کہ انہیں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ جب ممبئی تاج محل ہوٹل‘ پٹھان کوٹ ہوائی اڈے پر یا کسی بھی جگہ حملہ ہوتا ہے تو بھارت عموماً ان تنظیموں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور یہ ڈھنڈورا بھی پیٹتا ہے کہ ان کے پیچھے پاکستان افواج اور ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ اور جب یہ تنظیمیں علی الاعلان پاکستان کے شہروں میں جلسے منعقد کرتی ہیں یا ریلیاں نکالتی ہیں تو سرکاری سرپرستی کا تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
معاندانہ موسم میں‘ یا جب عالمی دباؤ زیادہ بڑھ جائے تو ان تنظیموں کے سربراہان پہ ہمارے ہاں پابندیاں بھی لگ جاتی ہیں‘ لیکن اول تو پابندیاں اتنی سخت نہیں ہوتیں‘ اور دوئم وہ تنظیمیں محض نام بدلنے کے تردد کے بعد اپنی سرگرمیاں اُسی زور و شور سے جاری رکھتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہوشیاری دکھا رہے ہیں لیکن جیسا کہ امریکی صدر کا حالیہ بیان اور برکس اعلامیہ ظاہر کرتے ہیں‘ دنیا ہماری ہوشیاری کے بارے میں زیادہ قائل ہونے سے پرہیز کر رہی ہے۔ تو ایسے میں راہ بدلنے کی ضرورت ہے یا پرانی ڈگر پہ چلنے میں ہی عافیت ہے؟
یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ اگر ہندوستان کو لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے بارے میں تشویش ہے تو امریکہ کو گلہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو ڈیورنڈ لائن کے اِس طرف محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ لہٰذا امریکہ اور ہندوستان‘ پاکستان کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر ہندوستان مبالغے سے بھی کام لے تو واشنگٹن میں اُس کی بات پہ کان دَھرنے کے لئے اہم پوزیشنوں پہ امریکی حکام تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ فلاں، فلاں لابی ہمارے خلاف سرگرم ہے۔ جہادی تنظیموں میں ہم خود کفیل ہیں اور ان کی سرگرمیاں بھی ڈھکی چھپی نہیں‘ تو سازش ہمارے خلاف دنیا کر رہی ہے یا ہم خود اس میں پیش پیش ہیں؟ دنیا ہماری دشمن ہے یا ہم خود ہی اس کے لئے کافی ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ حقانی نیٹ ورک کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی بازگشت تھمتی نہیں کہ حضرت مولانا سمیع الحق فرماتے ہیں کہ انہیں یقین ہے پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ ایسے مہربانوں کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی چنداں ضرورت نہیں۔
کو ن سمجھائے امرائے جہاد کو کہ وہ وقت بیت گیا‘ جب ایسی سرگرمیوں سے دنیا آنکھ پھیر لیتی تھی؟ کارگل سے پہلے جب کبھی مقبوضہ کشمیر میں جنگجویانہ سرگرمیاں ہوتیں، ہندوستان سوائے دانت پیسنے کے کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کارگل کے بعد پہلی دفعہ پاکستان پہ کراس بارڈر دہشت گردی کا الزام لگا اور نائن الیو ن کے بعد تو عالمی منظرنامہ یکسر بدل ہی گیا۔ ہمیں تب ٹھنڈے دل و دماغ سے ان ساری چیزوں کا جائز ہ لینا چاہیے تھا‘ لیکن ایک طرف ہم امریکہ کے معاون بنے‘ جب اس نے افغانستان پہ حملہ کیا‘ دوسری جانب ہم نے آنکھیں بند کر لیں‘ جب القاعدہ کے زیر اثر عناصر نے افغانستان سے بھاگتے ہوئے ہمارے قبائلی علاقوں میں پناہ لی۔ حتیٰ کہ اُن عناصر نے قبائلی پٹی میں اپنا آزادانہ وجود قائم کر لیا اور پاکستان کے لئے مہلک خطرہ بن گئے۔
2014ء تک یہ صورتحال حد سے بڑھ چکی تھی۔ تب جنرل راحیل شریف کی کمان میں فوج نے PAF کی معاونت سے قبائلی پٹی میں آپریشن شروع کیا اور تحریک طالبان پاکستان کے لشکر وہاں سے بھاگنے پہ مجبور ہوئے۔ وہی وقت تھا جب ہم جہادی تنظیموں اور ان سے منسلک پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیتے۔ نواز شریف حکومت کمزور تھی‘ اور دیگر کاموں میں پڑی ہوئی تھی۔ جنرل راحیل شریف جہادی سوچ کے خلاف برسر پیکار تھے‘ لیکن وہ مکمل طور پر اس سوچ کو خیرباد نہ کہہ سکے۔ وہ یہ ادراک بھی نہ کر سکے کہ جب افواج پاکستان بھرپور طریقے سے قبائلی علاقے اور مغربی سرحد پہ مصروف ہیں تو دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ مشرقی سرحد کو ضرورت سے زیادہ گرم نہ رکھا جائے۔ فوج قبائلی پٹی میں حالت جنگ میں رہی‘ اور سابق آرمی چیف ہندوستان کے خلاف بولنے کا کوئی موقع ضائع نہ جانے دیتے۔
اب بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔ شاہد خاقان تقریباً پُتلا وزیر اعظم ہیں۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ نئی پالیسی راہیں متعین کر سکیں۔ نہ ان معاملات میں اتنی سمجھ رکھتے ہیں کہ جرنیلوں کے سامنے بیٹھ کے انہیں بتائیں کہ پاکستانی سوچ میں کیا تبدیلی آنی چاہیے‘ اور موجودہ حالات میں کون سی تبدیلی ناگزیر ہے۔ خواجہ آصف وزیر خارجہ تو ہیں لیکن ان کی کون سُنے گا؟ وہ وزیر دفاع تھے تو دفاعی اُمور میں زیادہ عمل دخل نہ تھا۔ وزارتِ خارجہ میں یکدم متحرک ہو جائیں‘ ایسے حالات پیدا ہونے میں وقت لگے گا۔ پالیسی پہ گرفت افواج کی ہی رہے گی‘ اور کیا افواج آج کے تقاضوں کے مطابق پالیسیوں کو ڈھالنے کی متمنّی ہوں گی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
سوچنے کا مقام ہے کہ جہادی تنظیموں کے وجود سے پاکستان کو اگر کوئی فائدہ ہوتا تو پھر بھی بات تھی‘ لیکن آج کل کی صورتحال کے تناظر میں یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ پٹھان کوٹ پہ حملہ ہو یا کہیں اور اس سے پاکستان کو کیا فائدہ؟ الٹا ہم پہ ہی الزام لگتا ہے اور پھر ہم صفائیاں دئیے پھرتے ہیں اور جیسا کہ حالیہ واقعات بتاتے ہیں‘ ہماری بات کوئی مانتا نہیں۔
جیسے ہم جہادکے سرپرست بنے رہے ہیں‘ ایک زمانہ تھا جب چین نام نہاد قومی آزادی کی تحریکیوںکا سرپرست تھا اور ایشیا کے متعدد ممالک میں ایسی تحریکوں کی مالی اور ملٹری معاونت کرتا تھا۔ سنگا پور کے عظیم رہنما لی کُوآن یُو سے ایک دفعہ چینی رہنما ڈنگ یاؤ پنگ نے پوچھا کہ چین کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ لی کُوآن یو کا جواب تھا: شک رہے گا جب تک چین ان تحریکوں کی مدد کرتا رہے گا۔ ڈنگ یاؤ پنگ چُپ رہے اور کچھ نہ کہا۔ لیکن اس کے بعد ان تحریکوں سے چین نے مکمل ہاتھ اُٹھا لیا۔ اُس کے بعد ہی جن ایشیائی ممالک کو چین کی پالیسی پہ اعتراض تھا‘ ان سے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ 
یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ ہم ہندوستان کے نیچے لگ جائیں‘ یا افغانستان میں امریکہ کے دُم چھلے بن جائیں۔ ہرگز نہیں۔ اپنے جائز مؤقف پہ ڈٹے رہنا چاہیے۔ کشمیر میں ہندوستانی بربریت کے خلاف ہمیں بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔ امریکہ اگر ہم سے پوچھے تو اسے باور کرانا چاہیے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے‘ ہم دیکھیں کہ کہاں نقصان اٹھا رہے ہیں۔ جہادی تنظیموں میں بڑے سرفروش شامل ہیں۔ ایک مادہ پرست معاشرے میںجہاں‘ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے‘ کوئی تو ہیں جو اپنی ذات سے باہر دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے عناصر کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ماضی سے باہر نکلنے کا وقت بھی آ گیا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں