مملکت کا ہم نے یہ حال کر دیا ہے کہ فیض صاحب کا پورا شعر بھی نہیں کہہ سکتے کہ اُس میں لفظ شراب شامل ہے۔ وہ لفظ بولا تو گویا دین ایمان خطرے میں پڑ گیا۔ باقی سب جائز ہے، ہر قسم کی ہیرا پھیری سے لے کے بڑے سے بڑے ڈاکے تک‘ لیکن اخلاقیات کا خیال رکھنا لازم ہے کیونکہ معاشرے کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ معاشرہ بھی خاص رنگ و نسل کا ہے۔ عمل چاہے جتنا مکروہ ہو کوئی قدغن نہیں‘ لیکن الفاظ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
فیض صاحب بہرحال خوب بات کہہ گئے۔ اَبر ہو، چاندنی ساتھ ہو تو اور بھی بہتر، اور وہ چیز جس کا ذکر نیک کانوں پہ ناگوار گزرتا ہے۔ باقی سب فضولیات ہیں۔ یہ ہماری زندگی اور تجربے کا نچوڑ ہے۔ پہلے پہل جب جوانی کا جنون سر پہ چڑھا تھا‘ تو سمجھتے تھے کہ طوفان آئیں گے، انقلاب کی دُھنیں فضاؤں میں گونجیں گی‘ اور سرخ سورج طلوع ہو گا۔ اقبال بانو جب گاتی تھیں‘ اور وہ بھی فیض صاحب کی ہی غزل کہ تاج اُچھالے جائیں گے وغیرہ وغیرہ‘ اور ہم دیکھیں گے‘ تو ہم بھی جوانی کی سَرمستی اور معصومیت میں سمجھتے تھے کہ ایسا ہو کے رہے گا۔ بس انتظار کی چند گھڑیاں ہیں۔ اب سمجھ آتی ہے کہ ہم اور ہمارے جیسے کتنے نادان تھے اور کن بھول بھلیوں کے اسیر۔ تاجوں نے کیا اُچھلنا تھا‘ وہ تو مزید بھاری ہو گئے۔
اب حقیقت آشکار ہے کہ یہاں کچھ ہونے کو نہیں۔ جیسے ہماری ڈھیلی ڈھالی اور بے ہنگم چال ہے ایسے ہی رہے گی۔ معاشرے کی لکیریں نہ صرف ایسے ہی رہیں گی بلکہ ان میں مزید گہرائی آ جائے گی۔ ہماری جوانی کے زمانے میں بھی اونچ نیچ تھی اور سماج کی دیواریں بڑی پختہ تھیں‘ لیکن اب تو بات ہی کچھ اور ہے، اونچ نیچ میں بہت زیادہ فرق آ چکا ہے۔ غربت اور لاچاری میں اضافہ ہوا ہے‘ اور جن کے پاس دولت ہے وہ زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ اب تو لوگوں نے اقبال بانو کو بھی سننا چھوڑ دیا ہے۔ نچلے طبقات کے پاس رہ ہی کیا گیا تھا سوائے غزلیاتِ فیض اور حبیب جالب کی انقلابی نظموں کے۔ ستمِ زمانہ دیکھیے کہ فیض اور جالب کو بھی شہباز شریف جیسوں نے یرغمال بنا لیا۔ جھوم کے جب خادم اعلیٰ جالب کو گاتے‘ اور وہ بھی اُن کی مشہور زمانہ نظم 'ایسے دستور کو صبحِ بے نُور کو میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا‘ تو اس حرکت سے نہ اُن کو شرمندگی محسوس ہوتی نہ اُن کے سامعین کو۔
ہمارے ہاں تمیز نام کی چیز بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکہ میں باب ڈلن (Bob Dylan) جیسے گائیک کبھی کسی جارج بش یا ڈونلڈ ٹرمپ کی محفل میں نہیں گائیں گے۔ بہت سارے ہالی ووڈ سٹارز دائیں بازو کی سیاست کے قائل ہیں اور جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں‘ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی ہیں۔ عموماًَ تفریق کی یہ لکیریں عبور نہیں کی جاتیں‘ لیکن یہاں دیکھیے: عالم لوہار کی جگنی ہے تو ن لیگ کا ترانہ بن جاتی ہے‘ اور عاطف اسلم ہیں تو وہ بھی ن لیگ کے لئے نغمہ سرا ہوتے ہیں۔ یعنی نہ فیض و جالب بیکسوں کے ٹھہرے نہ جگنی ان کے کھاتے میں رہی۔
پھر بھی ہم اس پہ نازاں ہیں کہ قراردادِ مقاصد میں ہمارے بڑوں نے لکھ دیا کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لکھنے کی حد تک تو ٹھیک ہے۔ نظریہ پاکستان والوں کے لئے یہ بہت بڑی نظریاتی فتح تھی‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے جو نشان نظر آنے چاہئیں وہ بھی مملکت خداداد میں پائے جاتے ہیں؟ اس دعوے کے ساتھ تو اونچ نیچ کا فرق اتنا زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ غربت انسانی حیثیت کا ایک حصہ ہے اور جتنی تاریخ لکھی گئی ہے‘ اس میں شاید ہی کہیں یہ ختم ہوئی ہو‘ لیکن جتنی غربت یہاں پائی جاتی ہے اس کا کوئی جواز ہے؟ اللہ کی حاکمیت سے اس کا کیا جوڑ ہے؟ یہ کہاں کی پاکیزگی ہوئی کہ ایک طرف تو وسیع پیمانے پہ آپ زمینوں پہ قبضہ کریں اور پھر بڑی بڑی مسجدیں بنا لیں۔ اس سے کیا حساب برابر ہو جاتا ہے؟۔
بہرحال یہ پرانی باتیں ہیں جو پتہ نہیں کب سے دہرائی جا رہی ہیں اور کئی جگہوں پہ ان تصورات کا اثر ہوا ہو گا۔ یورپ میں اونچ نیچ ہے، وہاں کے امیر اور دولت مند طبقہ بہت امیر ہیں‘ لیکن ان معاشروں میں سوشل ویلفیئر کا بھی نظریہ ہے۔ وہاں اللہ کی حاکمیت کا دعویٰ نہیں لیکن ہم ان معاشروں کا اپنے سے موازنہ کریں تو اللہ کی حاکمیت کے تصور سے وہ زیادہ قریب لگتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ سیکولر معاشرے ہیں جن میں یہ خیال رَچ بس چکا ہے کہ مذہب یا ذاتی عقیدہ اور حکمرانی الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہمارے مبلغین سیکولر معاشروں کو بے دین کہتے ہیں حالانکہ سوچنے کا مقام ہے کہ دین کے اصلی تصور کے قریب کون ہے۔
جب پتہ چل گیا ہو یا زندگی کے تجربے نے بتا دیا ہو کہ یہاں بدلنے کو کچھ نہیں اورحالات ایسے ہی رہیں گے‘ تو عافیت فیض صاحب کی بات میں ہی ہے کہ آئے کچھ اَبر اور اُس کے ساتھ وہ دوسری چیز جس کا ذکر نیک کانوں پہ ناگوار گزرتا ہے‘ اور پھر آئے جو عذاب آئے۔ نئے سورج کے طلوع ہونے کی اُمید کب کی مر چکی۔ اَب تو فقط یہ آرزو رہتی ہے کہ شام اچھی گزرے۔ سامانِ شام میسر ہوں۔ رنگینی نازل ہو جائے تو اس سے کیا بہتر۔ محفل ہو تو ڈھنگ کی ہو۔ تھوڑی سی چبلیت بھی محفل کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ موسیقی بھی ڈھنگ کی ہو۔ یہ یوں بھی کہنا ضروری ہے کہ اکثر خوشنما چہروں کی موسیقی اور گانوں کی پسند گھٹیا قسم کی ہوتی ہے۔ یا کم از کم عمر کے جس حصے میں ہم ہیں‘ ان کی پسند ہمارے نزدیک گھٹیا ہوتی ہے۔ پرابلم یہ ہے کہ چہرے پہ جمال ہو تو ضد بھی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے۔ زبردستی جب کوئی تھرڈ کلاس گانا سننا پڑے تو دل پہ کیا گزرتی ہو گی۔
لیکن شام کے لمحوں میں اب تو گھٹیا گانوں سے بھی زیادہ سیاست پہ گفتگو بور چیز لگتی ہے۔ حلقہ 120 میں کیا بنا، اس کے مضمرات کیا ہوں گے، اگلے انتخابات پہ کیا اثرات پڑیں گے، احتساب عدالتوں میں شریف لوگوں کا کیا بنے گا، شریف خاندان کے اندرونِ خانہ حالات کیا ہیں، چوہدری نثار علی خان کا تازہ ترین ارشاد کیا ہے، گھر درست کرنے کی بات کے معنی کیا ہیں... یہ تو اب ایسی بیکار کی باتیں لگتی ہیں کہ کوئی اِن پہ گفتگو چھیڑنے کی کوشش کرے تو جی چاہتا ہے اُسے کمرے سے باہر نکال دیں۔
اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کے سامنے بے بس ہے۔ ہم نے راکٹ بنا لیے۔ ہندوستان کے بیشتر حصوں کو ایک بار نہیں شاید کئی بار تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے‘ لیکن اس لعنت کو ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کہنے کو تو صفائی نصف ایمان ہے‘ لیکن یہ بھی اللہ کی حاکمیت جیسی بات ہے، الفاظ تک محدود۔ اور چیزوں کی اُمید پھر کیا رکھی جائے؟ ویسے بھی ہم اپنے زیادہ دن گزار چکے۔ اب تو ہمارے جیسوں کے لئے قریبِ شام ہے۔ شاید اسی لئے صبح کی نسبت شاموں کے ممکنات سے زیادہ مانوس ہو گئے ہیں۔ لیکن اُداس شاموں سے نہیں اور نہ ہی اکیلی شاموں سے۔ تنہائی کی شامیں اب زہر لگتی ہیں۔ شرط البتہ یہ کہ ملنے والے ہمدرد دل رکھتے ہوں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گزرے زمانے کی طرز کی وہ جگہیں... میخانے کا نام تو ممنوع ٹھہرا... اب بھی آباد ہوتیں‘ جن میں دور سے آئے مسافر دستک دے کے داخل ہو سکتے‘ لیکن وہ جگہیں گئیں، کب کی اجاڑ ہو چکیں۔ اور ہم ہیں اور اُکتائے ہوؤں کے شہر۔