ڈیلیوری کا مطلب ڈھنگ کی حکومت جو نعروں کی بجائے کچھ کام بھی کرسکے ۔ تمام اسلامی ممالک سے ہم موازنہ کریں تو پاکستان میں جمہوریت زیادہ ہے ۔ جیسا ہمارا میڈیا ہے پورے عالم ِ اسلام میں شاید نہ ملے ۔ٹی وی چینلز پہ پابندیاں ہیںتو خود کی لگائی ہوئی حکومت یا ریاست کی طرف سے نہیں۔ لیکن اس جمہوریت کے ساتھ جس قسم کی حکمرانی یا گورننس ہونی چاہیے وہ نہیں ہے ۔گلف کی امارات میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ۔اُنکے شاہی خاندانوں کو تنقید کا نشانہ بنائیں تو سمجھ آجائے ۔میڈیا تو دور کی بات ہے ،سوشل میڈیاپہ بھی شاہی خاندانوں کے بارے میں بُرا بھَلا کہنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔
پر اگر دوبئی کی مثال لیں تو جمہوریت وہاں نہیں ہے لیکن نظم ونسق خوب ہے ۔قانون کی حکمرانی بھی قائم ہے ۔یہ بات پاکستانی ذہن مشکل سے ہی سمجھ پاتے ہیں کہ جمہوریت اورقانون کی حکمرانی دو مختلف چیزیں ہیں ۔بیشتر یورپین ممالک میں قانون کی حکمرانی پہلے قائم ہوئی اور جمہوریت بہت بعد میں آئی ۔ہمارے ہاں جمہوریت ہے قانون کی حکمرانی تقریباََ سر ے سے غائب ہے ۔معاشرے میں نظم ونسق کس طرح پیدا کیاجائے ؟ یہ ہمار امسئلہ ہے ۔حکومتیں عوام دوست پالیسیاں کیسے اپنائیں ،جمہوریت عوام کے کام کیسے آئے ؟ان سوالوں کا جوا ب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ اکثر اخبارات کے مضامین دیکھیے یاٹی وی چینلوں پہ بحث ومباحثہ سنیں توجمہوریت کے بارے میں شور بہت ہوتاہے ،رونا پیٹنا رہتاہے کہ جمہوریت کاتسلسل کیسے قائم ہو ،آئین کی حکمرانی کیسے یقینی بنائی جائے لیکن جمہوریت عوام کی اُمنگوں کے تابع کیسے ہو یہ بات کم ہی سننے کو ملتی ہے ۔
چار فوجی آمر ہمارے نصیب میں آئے اورہم بخوبی جانتے ہیں کہ اُنکے ادوارِ حکمرانی سے ملک وقوم کو کیا نقصان پہنچا ۔لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جمہوریت کے سپوتوں نے کون سے چار چاند لگائے ۔بھٹو صاحب کو تو ہمیشہ کیلئے آمریت کے سائے ختم کرنا چاہتے تھے ۔لیکن اس کی بجائے اُنکے دور میں ایسے حالات پیداہوئے کہ فوج سیاست پہ قابض ہوئی اورایسے کہ جنرل ضیاء الحق کے ساڑھے گیارہ سالہ دورِحکمرانی کی پاداش میں ملک کا حلیہ بگڑ کے رہ گیا ۔لیکن اُن کا دور ختم ہوئے ایک مدت بیت چکی ۔دور ِ جمہوریت اُنکے بعد آیا ۔اُس میں تو آمریت کی نشانیاں مٹ جانی چاہیے تھیں۔لیکن ایسا نہ ہوا ۔اورچیزیں تو چھوڑئیے ،جو کچھ جنرل ضیاء 1973ء کے آئین میں ڈال گئے ،مثال کے طورپہ حدود آرڈیننس کی شکل میں، وہ اب تک موجود ہے اورکوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔
اورتو اور ،چاروں فوجی آمر مل کر بھی کرپشن کی وہ داستانیں رقم نہ کرسکے جو ہمارے جمہوریت کے سپوتوں نے کیں ۔اس ضمن میں کوئی فوجی آمر نواز شریف یا آصف علی زرداری کے کارناموں کے قریب بھی نہیں پہنچتا۔سرے محل یا مے فیئر کے فلیٹ فوجی آمروں کے حصے میں شاذ ہی آئے ۔ جنرل مشرف نے کچھ ہاتھ پاؤں مارے اوران کا ایک مسکن لندن میں موجودہے ۔لیکن کہاں وہ اورکہاں جمہوریت کی روشن شمعیں ۔جنرل یحییٰ خان اور چیزوں کیلئے مشہور ہوئے ۔اُنکی شامیں رنگین ہوتیں، سَرمستی سے سرشار۔کیا کیا کہانیاںان شاموںسے منسلک ہیں۔لیکن جائیدادیں اکٹھی کرنااور ہر جائز وناجائز کاروبار میں ہاتھ ڈالنا ان کی کمزوریوں میں شامل نہ تھا ۔ ضیاء دور کے بعدکے جمہوری حکمرانوں نے تو تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ اپنی تو عاقبت سنوار گئے ملک کا بیڑہ غرق کرگئے ۔
آئین موجودہے ،جمہوریت قائم ہے ۔ دعا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ قائم رہیں ۔لیکن ڈھنگ کی حکمرانی کہاں سے آئے گی ؟ سنگا پورکے معمار لی کوآن یو (Lee Kuan Yew)مثالی جمہوریت پسند نہ تھے ۔اُن میں آمرانہ روشیں پائی جاتی تھیں ۔لیکن اپنی طویل حکمرانی میں اپنے چھوٹے سے جزیزے کو کہاں سے کہاں لے گئے ۔کوئی تیل یا گیس اس جزیرے میں نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کان ۔لیکن ایسی حکمرانی اپنے لوگوں کو دی کہ سنگاپور ایک معاشی قوت بن گیا ۔ یہی حال انگریز حکمرانی کے تحت ہانگ کانگ کا ہوا ۔نظم ونسق کی وجہ سے وہ بھی ایک ترقی پذیر جگہ کہلائی ۔ہم میں وہ خصوصیات کیسے پیداہونگی؟ہمیں کوئی لی کوآن یو کب نصیب ہوگا ؟
آج کل کے تماشے دیکھیے۔نوازشریف احتساب عدالت میں کرپشن مقدمات کے سلسلے میں آتے ہیں تو لگ بھگ چالیس گاڑیوں کے جلُوس میں ۔قیام کہاں کرتے ہیں ؟پنجاب ہاؤس میں ۔کیا یہ اِنکی ذاتی ملکیت ہے ؟پنجاب کے خزانے سے پنجاب ہاؤس چلتاہے اوریہ وہاں براجمان ہوجاتے ہیں ۔وزارت عظمیٰ سے معزول ہوچکے لیکن لاہور میں ذاتی رہائش گاہ جاتی عمراکی حفاظت پہ ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار اب بھی تعینات ہیں ۔کس قانون کے تحت ؟کوئی پوچھنے والا نہیں ،ریاستی وسائل کوذاتی وسائل سمجھتے ہیں ۔کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا ہے لیکن اپنی معصومیت پہ اصرار ہے ۔کہتے ہیں میں نے کوئی ہیر پھیر نہیں کی ۔اسحاق ڈار کا گزوں لمبا منی لانڈرنگ کے بارے میں اعترافی بیان ہے ۔کسی اور نام نہاد جمہوری ملک میں ایسی واردات سرزرد ہوئی ہوتی تو کب کے ہوش ٹھکانے آچکے ہوتے ۔یہاں مسلسل آنکھوں میں دُھول جھُونکنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یا اپنے آپ کو بہت سیانے سمجھتے ہیں یا انہیں یقین ہے کہ قوم بے وقوف ہے۔
یہ بات کسی کو اچھی لگے یا نہ لگے افواج تو اپنا کام کررہی ہیں ۔آئے دن شہداء کی لمبی فہرست میں اضافہ ہوتاہے ۔فاٹا میں فوج 2014ء سے مورچوں میں ہے ،یعنی مسلسل حالت جنگ میں ۔دہشت گردی ختم نہ ہوئی لیکن بہت حدتک اس میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ایسا فوج کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ہوا ۔ کراچی کے حالات بھی فوجی اقدامات کی بدولت تبدیل ہوئے ۔ لیکن قومی اُمور چلانے کا سارا بوجھ افواج پہ نہیں ڈالا جاسکتا۔اگر کچھ کام فوج کے کرنے کے ہیں تو حکمرانی کی ذمہ داری جمہوریت کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن جمہوریت ایسی ہو جس کی سمت ہی نہ ہو اورجمہوریت کی پیداوار حکمران ہوں جن کواپنامفادمقدم رکھنے کے علاوہ کچھ نہ سُوجھے تو اس مرض کا علاج کیا ہے ؟
اِس وقت ملک کی حالت اچھی نہیں ۔وفاقی اور پنجاب حکومتیں کمزور ہوچکی ہیں اوراپنے قانونی مسائل میں پھنسی ہوئی ۔حکمران جماعت کی قیادت کے خلاف مقدمات درج ہوچکے ہیں اورمزید مقدمات کے سامنے آنے کا اندیشہ ہے ۔معاشی حالات بھی اچھے نہیں ۔خارجی محاذ پر اپنی نوعیت کی دشواریاں ہیں ۔کیا ایک کمزور اور فالج زدہ حکومت ان چیلنجز کا سامنا کرسکتی ہے ؟اگر حکومت کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان اٹھتے ہیں تو اس کا حل کیا ہے ؟حل تو ایک ہی ہے ،فوری انتخابات تاکہ انتخابات کی صورت میں ایک نسبتاََ مضبوط حکومت معرض وجود میں آئے ۔لیکن بیشتر سیاسی پارٹیاں انتخابات کے منظر سے گھبرا رہی ہیں ۔اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور حکمران طبقات مضبوط فیصلے نہ کرسکے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اورقوتوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آئیں اور قوم کو درپیش مسائل کا بوجھ اٹھائیں ۔خدانہ کرے کہ ایسا ہو ۔ہم بہت بھگت چکے ایسی مداخلتوں کو ۔ لیکن موجودہ خلاکی کیفیت زیادہ دیر نہیں رہ سکتی ۔ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔سیاستدان کچھ نہ کرینگے تو پھر کوئی اور آکے فیصلہ کرے گا۔پھر ہم ماتم کُناں ہونگے کہ جمہوریت پہ شبخون مار دیا گیا اورملک کا بہت نقصان ہوگیا ۔
شہر کے لوگ توظالم ہونگے اورشاید ہیں۔لیکن یہ کمال نہیں کہ ہماری جمہوریت کو بھی مرنے کا بہت شو ق ہے ؟