لمبی منصوبہ بندی کی صلاحیت بطور قوم ہم رکھتے نہیں۔ یہاں تبدیلی آئے گی تو جھٹکے سے اور کوئی مردِ آہن ہی لائے گا۔ موجودہ بحران میں ایک موقع ہے۔ ہمت اور حوصلے سے کام لیں تو اس بحران سے انقلابی اقدامات جنم لے سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کے بعد جو عبوری بندوبست معرضِ وجود میں آئے اُس کی مدت 100 ایام سے زیادہ نہ ہو۔ جو کرنا ہو انہی سو دنوں میں کریں۔ جے آئی ٹی نے 60 دنوں میں وہ کر دکھایا جو مختلف حالات میں چھ سال میں نہ ہو پاتا۔ عبوری حکومت سو دنوں میں پاکستان کی شکل بدل سکتی ہے۔
پہلے روز ہی جاتی عمرا کے گرد ہزار سے زائد پنجاب پولیس کے پہرے دار ہٹا دئیے جائیں اور سامنے والی سڑک ٹریفک کے لئے کھول دی جائے۔ کون سی جمہوریت ان عیاشیوں کی اجازت دیتی ہے؟
پہلے دن ہی نئے چیئرمین نیب کو یہ غیررسمی درخواست جانی چاہیے... whatsapp کی ضرورت نہیں، کھلے ٹیلی فون پہ بات ہو سکتی ہے... کہ پاناما انکشافات سے اٹھنے والے مقدمات روزانہ کی بنیاد پہ سُنے جائیں‘ اور ان پہ فیصلہ جلد صادر ہو۔ یہ کارروائی اسلام آباد میں ہو گی۔ کراچی میں مختلف قسم کے مقدمات کھلیں۔ عزیر بلوچ کے سنسنی خیز انکشافات کی بنیاد پر جن اشخاص پر مقدمات بنتے ہیں، بنیں اور سماعت روزانہ ہو۔ کون سا ملک ہے جو اس قسم کی نقب زنیوں کی اجازت دیتا ہے؟ عزیر بلوچ کا بیان‘ جو مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا‘ وہ آدمی پڑھے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اسحاق ڈار کا اعترافی بیان پڑھا جائے تو یہی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ ہیں پاکستانی جمہوریت کی نشانیاں‘ جس پہ ہمارے آمریت کی گود میں پلنے والے جمہوریت پسند رونا روتے ہیں۔
کمیونسٹ حکمرانی کے زوال کے بعد روس میں بھی ایسی ہی جمہوریت آئی تھی۔ روس عام ملک نہ تھا، سُپر پاور تھا۔ لیکن جب بُرے دن آئے اور وہاں کی طرز کی جمہوریت رائج ہوئی تو ایسی لُوٹ مار مچی کہ سُپر پاور دیوالیہ ہو گیا اور امریکہ کے سامنے طفیلیہ بن گیا۔ انتخابات تو ہوئے اور اظہار رائے کی مکمل آزادی بھی تھی لیکن روس تباہ ہو کے رہ گیا۔ امریکی شادیانے بجاتے تھے کہ ان کے سابقہ حریف اور مدمقابل کا یہ حشر ہو گیا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن (Vladimir Putin) نے اس زوال کی داستان پہ بریکیں لگائیں۔ اسی لئے امریکہ اور اس کے یورپین اتحادی ان کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔
ہماری جمہوریت نے بھی کچھ ایسے ہی حشر سامانیاں پیدا کی ہیں۔ چاروں فوجی آمروں کو ایک ساتھ رکھیں‘ اور ترازو کے دوسری طرف پی پی پی اور ن لیگ کی جمہوریتوں کو ڈالیں‘ تو جمہوری کارناموں کا پلڑا بھاری دکھائی دے گا۔ جو مال ہمارے جمہوریت پسندوں نے اکٹھا کیا‘ اور جس دلیری سے‘ وہ کوئی باوردی شاہسوار نہ کر سکا۔ سو ایام کی عبوری حکومت ایک موقع ہو گا‘ اس داستان کو بدلنے کا۔ لیکن لازم یہ بھی ہے کہ اصغر خان کیس دوبارہ سے زندہ ہو اور روزانہ کی بنیاد پہ سنا جائے۔ یہی ن لیگ قیادت کے لئے کافی ہو گا۔ نواز شریف بھی فارغ ہو جاتے ہیں اور خادم اعلیٰ بھی۔ دونوں نے 1990ء کے انتخابات میں آئی ایس آئی سے پیسے لئے۔ یہ من گھڑت کہانی نہیں، سب چیزیں ریکارڈ پہ ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی جو تب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے‘ کا باضابطہ دستخط شدہ بیان سپریم کورٹ میں موجود ہے۔ کمال ہنرمندی سے ہمارے دوست رحمان ملک نے یہ بیان جنرل درانی سے اُگلوایا‘ جب درانی صاحب جرمنی میں سفیر تھے۔ قربان جائیں اس جمہوریت اور اس عدالتی نظام پہ کہ اتنا عرصہ بیتنے کے باوجود ان انکشافات کا کچھ نہیں بنا۔
پنجاب میں ن لیگ کے ڈھولچی اور بگل بردار بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ خادم اعلیٰ کی توانائیوں کی بدولت پنجاب کی ترقی کی رفتار نرالی ہے۔ اسے پنجاب سپیڈ یا شہباز سپیڈ کہتے ہیں اور خادم اعلیٰ پھولے نہیں سماتے۔ ماڈل ٹاؤن کیس میں یہ سپیڈ کہاں گم ہو گئی؟ جون 2014ء میں وسطِ وزیرستان نہیں‘ وسطِ لاہور میں قتل عام ہوا۔ 14 اشخاص بشمول دو خواتین‘ پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ 80 کے لگ بھگ لوگ پولیس کی گولیوں سے زخمی ہوئے۔ اب تک ذمہ داران کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اور تو اور، جس جوڈیشل کمیشن کو اُس واقعے پر بٹھایا گیا اس کی رپورٹ بھی منظر عام پہ نہیں آنے دی۔ یہ ہے اصلی پنجاب سپیڈ۔ عبوری حکومت کے تشکیل ہوتے ہی ماڈل ٹاؤن کیس کے بارے میں خصوصی احکامات جاری ہونے چاہئیں تاکہ ڈرامہ بازی ختم ہو، ذمہ داران کٹہر ے میں ہوں اور مظلومین کی آہ و فریاد سنی جائے۔
حالات کا جبر دیکھیے۔ تقدیر بدلنے لگے تو کیا کچھ ہو جاتا ہے۔کل تک انہی مریم صفدر کو نواز شریف کے سیاسی جانشین کے طور پہ پیش کیا جا رہا تھا۔ اب ان پہ احتساب عدالت میں فردِ جرم عائد ہوئی ہے۔ کہاں وزارتِ عظمی کے خواب‘ کہاں یہ ڈرامائی تغیر۔ کل ایک صاحب کا فون آیا۔ کہنے لگے احتساب کی رفتار سست ہے اور ان شاہی ملزمان سے نرمی برتی جا رہی ہے۔ میں نے یاد دلایا کہ جب بھٹو صاحب اقتدار سے رخصت ہوئے تھے تو دوسرے یا تیسرے جمعے کی نماز کے وقت وردی میں ملبوس جنرل ضیاء الحق اسلام آباد کی لال مسجد میں آئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ بھٹو صاحب سے نرمی برتی جا رہی ہے۔ جنرل ضیاء نے جواب دیا کہ وہ شخص جو عرشوں پہ تھا ہم اسے زمین پہ لے آئے اور آپ پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ نرمی برتی جا رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بھٹو طیش میں آ گئے اور نواب صادق حسین قریشی کی کوٹھی میں تقریر کرتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ وہ جو عرش اور زمین کی بات کر رہا ہے‘ میرا ایک ہاتھ اس کے گریبان پہ ہو گا اور دوسرا وہاں، جو... ۔ انہی چیزوں سے وہ حالات پیدا ہوئے جو بھٹو صاحب کو تختہء دار تک لے گئے۔ بہرحال جنرل ضیاء نے بات تو ٹھیک کی کہ بھٹو صاحب کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
شریفوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے گو ہلکے پھلکے انداز میں۔ بڑی حکمرانی ہاتھ سے گئی اور باقی لوازمات بھی آہستہ آہستہ جا رہے ہیں۔ لیکن اس عمل کی رفتار سست ہے اور سست روی کی قیمت ریاست اور قوم کو چکانی پڑ رہی ہے۔ گُومگُو کی موجودہ کیفیت ملک کے لئے اچھی نہیں۔ ان کے طویل دورِ اقتدار نے جانا ہے تو جائے۔ یہ شاید تاریخ کا فیصلہ ہے‘ لیکن یہ سب کچھ ہونا ہے تو بغیر ڈرامے بازی کے، بغیر اس چیخ پکار کے۔ تھوڑا مال اکٹھا کیا ہے۔ اگراب وقت کا پہیہ گھوم چکا ہے‘ تو دلیر بنیں، چھاتی پہ ضرب لیں اور کسی اور چیز میں نہیں تو کم از کم استقامت میں آصف علی زرداری سے سبق سیکھیں۔ جو رائے بھی ان کے کارناموں کے بارے میں رکھی جائے ایک بات تو ہے کہ جب بُرے وقت آئے تو اپنے پیروں پہ کھڑے رہے، عدالتوں کا سامنا کیا، پیشیاں بھگتیں اور عدالتوں پہ کوئی کیچڑ نہ اُچھالا۔ فلسفہ ہمیشہ یہ رہا کہ ایسی چیزوں میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ کھیل کا حصہ ہے، دولت اور عیاشی بھی اور جیل کی سلاخیں بھی۔ شریفوں کا حال ہی اور ہے۔ بس روئے جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قوم اُن کے ماتم میں شریک ہو اور اُنہیں معصوموں کا درجہ ملے۔ مجید نظامی جیسے آدمی نے‘ جو پیدائشی پی پی پی مخالف تھے‘ آصف علی زرداری کو مرد حُر کا لقب دیا۔ ہمارے سرکس کے شیروں کو کون سا لقب ملنا چاہیے؟
بہرحال شریفوں کا رونا اپنی جگہ، قوم کو آگے جانا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اس کا واحد حل ایک تگڑی عبوری حکومت ہے جو بنیادی فیصلے لے سکے۔ ایسے فیصلے جس سے آنے والے روگردانی نہ کر سکیں۔