پاکستانی قوم اور ہمارے حکام‘ فوجی ہوں یا سویلین‘ کو ایسی حرکات پہ سوچنا چاہیے۔ جس ترک استاد اور اس کی بیگم کو ہم نے ماورائے قانون ترکی بھجوا دیا ہے‘ ان کا قصور کیا تھا؟ کیا اُس استاد کو اس لئے سزا ملی ہے کہ کئی سال پاکستانی بچوں کو وہ پڑھاتے رہے؟ ہمارا سرکاری تعلیمی نظام جس حالت میں ہے ہم جانتے ہیں۔ پاک ترک سکول اعلیٰ تعلیم مہیا کرتے تھے۔ بیشک گولن موومنٹ ان سکولوں کے پیچھے ہو‘ لیکن استادوں کا کیا قصور ہے۔ ان پہ کیا فردِ جرم عائد کی جا سکتی ہے؟
دلیل کے طور پہ اگر مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ استاد اور دیگر اساتذہ کسی چیز کے قصوروار ہیں‘ تب بھی ایک پاکستانی عدالت کی طرف سے حفاظت مہیا ہونے پر کسی طور پہ یہ جائز نہیں بنتا کہ ریاست کا کوئی ادارہ قانون سے بالا تر ہو کے انہیں ترک حکام کے حوالے کر دے۔ یہی فرق ہے ہم میں اور ان ممالک میں جہاں قانون کی حکمرانی رائج ہے۔ کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ انگلستان اور دیگر یورپی ممالک میں کسی مسلمان فرد پہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام ہو‘ لیکن عدالتی تحفظ فراہم ہونے پر کوئی برطانوی حکومت ایسے شخص کو امریکہ یا کسی اور ملک کے حوالے نہیں کرے گی۔ ایسا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اسلام اور انصاف کے تقاضوں کی بات کرتے نہیں تھکتے۔ قانون کی بالا دستی کی گردان تو ہم کرتے ہیں لیکن قانون کی بالا دستی کا مفہوم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
ترک استاد اور اس کی بیگم کے ساتھ یہ حرکت کرکے ہماری عزت میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ شرمندگی کا باعث ہے۔ یہ بالکل غیر متعلق چیز ہے کہ ترکی کے ساتھ ہمارے تعلقات کتنے اچھے ہیں۔ اس سے اور بھی اچھے ہوں‘ پھر بھی جب عدالتی حکم موجود تھا تو کوئی وجہ نہیں بنتی تھی کہ ان اشخاص کو ترکی حکام کے حوالے کیا جاتا۔ ترک سکول بند کرنا اور چیز ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ یہاں آئے اور اس بات کا انہوں نے کہا کہ یہ سکول بند ہونے چاہئیں۔ اگر ہم نے یہ بات مان لی تو پاک ترک دوستی کے تناظر میں بات سمجھ آتی ہے‘ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان سکولوں سے منسلک اساتذہ پاکستان میں پناہ مانگیں اور ہم انہیں نہ دے سکیں؟ یہ تو کم عقلی اور بزدلی کی نشانیاں ہیں۔ جن لوگوں نے سالہا سال یہاں تعلیمی خدمات سرانجام دی ہوں‘ ہم وقت آنے پہ انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔
پہلی بار ایسا ہوا ہو تو پھر بھی بات ہے لیکن ہم تو معمولی پریشر نہیں سہہ سکتے۔ جب 9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا تو پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف تھے۔ وہ باقاعدہ سفیر تھے، یعنی پاکستان کو accredited تھے۔ اُن کی حفاظت بین الاقوامی قوانین کے تحت اور اخلاقی اعتبار سے ہم پہ لازم تھی‘ لیکن امریکیوں نے کہا کہ ملا ضعیف اُن کے حوالے کریں‘ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم نے ایسا کر دیا۔ ملا ضعیف اپنی کتاب میں اِن سب واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ پڑھ کے رونے کو جی چاہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب امریکی فوجیوں کی تحویل میں انہیں دیا گیا تو اُسی وقت شرمناک طریقے سے انہیں مارا پیٹا گیا اور جب یہ کارروائی ہو رہی تھی تو پاکستانی افسران وہاں موجود تھے۔ میں نے جب یہ پڑھا تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے‘ اور تب یہاں غیر جمہوری حکومت تھی۔
تھوڑی سی ہمت ہوتی تو ہم امریکیوں کو کہتے کہ ملا ضعیف یہاں سفیر رہا ہے، ہم اسے نہیں دے سکتے۔ لیکن وہ کیفیت ہم میں کہاں سے آتی؟ اتحادی بننا اور بات ہے‘ ممالک اتحادی اور دشمن بنتے رہتے ہیں‘ لیکن عزت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ باتیں ہم خودی کی کرتے ہیں 'تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر‘۔ شاہین تو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا نشان بنتے جا رہے ہیں‘ اور جس خودی کے ذکر سے علامہ اقبال کا کلام بھرا ہے وہ اب اس کلام میں ہی ہے ہمارے اعمال کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری تاریخ میں بہت سے شرمناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس فہرست میں ملا ضعیف کی گرفتاری اور امریکہ کو حوالگی ہمیشہ نمایاں رہے گی۔
ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ہمیں یاد نہیں؟ اپنی کتاب میں وہ خود لکھتا ہے کہ جب کوٹ لکھپت جیل میں قائم عدالت میں آیا تو دیکھا کہ پاکستانی فیملیز‘ جنہوں نے اس پہ قتل کا مقدمہ کیا ہوا تھا‘ حکام کی تحویل میں ہیں۔ کمرۂ عدالت میں ان فیملیز کو تقریباً زبردستی صلح اور دیت پر آمادہ کیا گیا۔ جان ریمنڈ ڈیوس کی چھوٹ رہی تھی لیکن اس ماحول میں بھی جب اس نے دیکھا کہ پاکستانی حکام کس انداز سے ان غریبوں پہ پریشر ڈال رہے ہیں‘ تو وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ لاہور میں امریکی قونصل جنرل اس وقت ایک خاتون تھیں۔ وہ بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھیں اور ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ جب اس خاتون نے یہ سارا منظر دیکھا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ قونصل جنرل کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور امریکہ روانگی عمل میں لائی جا رہی ہے‘ لیکن وہ سب کچھ دیکھ کر جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
ریمنڈ ڈیوس نے دو اشخاص کو گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک راہ گیر ایک دوسری امریکی گاڑی کے نیچے آ گیا تھا۔ یہ مقدمہ امریکہ میں چلتا تو پتہ نہیں سی آئی اے کو کتنے پیسے ادا کرنے پڑتے۔ یہاں بندے ریمنڈ ڈیوس‘ جو سی آئی اے کی ملازمت میں تھا‘ سے مرتے ہیں اور دیت سرکار ادا کرتی ہے۔ جہاں تک فیملیز پر پریشر کا تعلق ہے‘ اس کا اہتمام تب کے انٹیلی جنس چیف احمد شجاع پاشا کر رہے تھے۔ کس لئے اور کس قومی مفاد کو فروغ دینے کی خاطر؟ ہمارے ہاں نہ ایسے سوال پوچھے جاتے ہیں‘ نہ جنرل پاشا جیسے معززین کسی کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کتاب نہ لکھتا تو عدالت کا ماحول اور فیملیز پہ شرمناک دباؤ کا کہیں ذکر نہ ہوتا۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ حکمران ہمارے امریکہ کے سامنے اتنی جلدی لیٹ کیسے جاتے ہیں۔ ملک عظیم ہو گا، بڑے جواہر اس میں ہوں گے، ہم بڑی عظیم قوم ہوں گے‘ لیکن جتنے مفاد پرست اور چھوٹے ذہن کے ہمارے حکمران ہیں‘ اس کی مثال کم ہی ہو گی۔ جنرل ضیاء الحق ہوتے ہیں تو امریکی مفاد کی خاطر پاکستان کا سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ جنرل مشرف ہوتے ہیں تو ایک فون کال پر سب کچھ مان جاتے ہیں، بشمول ملا ضعیف کی گرفتاری اور تذلیل کے۔ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ جنرل مشرف کو تحفے تحائف دیتے ہیں تو وہ بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ نواز شریف جس فوجی آمر کی لعن طعن کرتے ہیں اس سے دس سالہ معاہدہ کرکے سعود ی عرب چلے جاتے ہیں اور پھر صاف مکر جاتے ہیں کہ ایسا کوئی معاہدہ ہوا۔ ہمارے حکمرانوں کو شرم نہیں آتی ۔ یہاں حکومت کرتے ہیں اور جیبوں میں متحدہ عرب امارات کے اقامے یعنی ورک پرمٹ ٹھونسے رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ اقامے باہر کے بینک اکاؤنٹ پر پردہ ڈالنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
کہنے کو تو ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن پتہ نہیں کس گناہ کی پاداش میں جو حکمران طبقہ ہمیں ملا ہے اس کے کرتوت اور عوام کی حالتِ زار دیکھیں تو نہایت کرب انگیز خیال آیا ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے پر فخر کریں یا حکمرانوں کے کرتوتوں کا ماتم کریں(اس سے بہتر ہے ہم بغیر ایٹمی ہتھیار ہی ہوں )۔ اقبال سے تو ہم غیرت و حمیت کا سبق سیکھ نہ سکے۔ اُن کی شاعری کا ہمارے قومی مزاج پہ ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا۔ کچھ ویتنام کی تاریخ پڑھ لیں، کچھ کیوبا کی مثال سامنے رکھ لیں اور دیکھیں کہ چھوٹی اور غریب قومیں بھی عزت سے اپنا سر اُٹھا کے کیسے جی لیتی ہیں۔