ہم میڈیا والوں نے ایک بہت بڑا افسانہ گھڑا ہواہے اوراُسے بیا ن کرتے وقت ذرہ برابر جھجک یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے ۔ اَکڑا ہو ا منہ بنا کر کہتے ہیں کہ جو آزادیاں ہمیں میسر ہیں ‘وہ کسی عظیم جدوجہد کی مرہون منت ہیں ۔
پرانے زمانے کے صحافیوں نے مختلف تحاریک میں ضرور حصہ لیا ۔ آزادیٔ اظہار کیلئے آواز اٹھاتے رہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی تحریک کی وجہ سے کوئی آزادی حاصل نہ ہوئی ۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مساوات کی بندش کے خلاف منہاج برنا کی قیادت میں ایک بھرپور تحریک چلی جس میں بہت سے صحافی پابند ِسلاسل ہوئے اور چار کو کوڑوں کی سزاملی ۔ لیکن مساوات پہ پابندی نہ ہٹی ۔صحافیوں کے اتحاد کو البتہ توڑا گیا اور منہا ج برنا کی زیر قیادت تنظیم کے سامنے ایک اور پٹھو تنظیم کھڑی کردی گئی ۔صحافت کو بتدریج آزادی ملی لیکن اس کی وجہ حکومتوں کے اپنے اقدامات تھے ۔
اگر افسانوں کی بجائے آزادیٔ اظہار کی صحیح تاریخ لکھی جائے تو اس میں تین نام نمایاں ہونگے ۔ اول محمد خان جونیجو ،جنہوں نے وزیر اعظم بنتے ہی جنرل ضیاء الحق سے پوچھا کہ مارشل لاء کب ہٹے گا ۔دسمبر 1984ء میں مارشل لاء ہٹا دیا گیا اور گُو جنرل ضیاء الحق بدستور صدر اور آرمی چیف رہے ‘ملک کی فضا بدلنے لگی ۔ اخبارات اور صحافیوں میں جرات پیدا ہوئی ۔ دوئم الہٰی بخش سومرو ، جو محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد عبوری حکومت میں وزیرِ اطلاعات تھے ۔ اُن کے دور میں بدنامِ زمانہ پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس منسوخ ہوا ۔یہ آرڈیننس فیلڈ مارشل ایوب خان نے نافذ کیا تھا اوریہی اخبارات پہ ذریعۂ کنٹرول تھا۔سوئم جنرل پرویز مشرف ، جنہوں نے نجی ٹی وی چینلز کو اجازت دی ۔
اخبارات کی وہ پوزیشن نہیں رہی جوکہ ٹی وی چینلز کے انقلاب سے پہلے تھی ۔ اب جب ہم میڈیاکی بات کرتے ہیں تو ذہن میں ٹی وی چینلز ہی آتے ہیں ۔ان کو لانے میں نہ کوئی اندرونی مجبوری تھی نہ بیرونی دباؤ۔نہ کوئی تحریک چلی ۔ ایک دن نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے اورپھر وہ آگئے ۔ آج تو پاکستان کا تصور یاکم ازکم سیاست کی کیفیت ان چینلز کے بغیر مکمل نہیں ۔ اس ملک میںاورتو کچھ ہے نہیں ۔بس کڑاہی گوشت کی دکانیں اورٹی وی چینلز ہیں۔ شام گئے یا تو لوگ ہوٹلوں کی طرف جاتے ہیں یا گھروں میں ٹی وی سیٹوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں ۔وزراء اور دیگر سیاستدان بھی اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ چینلز پہ آئیں اورجو اکثر بے تکی گفتگو ہوتی ہے اس میں اپنا حصہ ڈالیں ۔کل کے اخبارات میں حیرانی سے یہ خبرپڑھی کہ ایک جونیئر وزیر صاحب نے باقاعدہ عدالتی درخواست دی ہے کہ جس احتساب عدالت میں شریفوں پر کیس چل رہے ہیں ان کے سامعین میں وزراء کا کوٹہ بڑھایاجائے کیونکہ انہوں نے شام کو چینلز پہ جانا ہوتاہے اور عدالتی کارروائی سے آگاہی اُن کیلئے بہت ضروری ہے ۔
صحافت ایک غریب پروفیشن ہوا کرتاتھا ۔بس انا ہوتی تھی کہ ہم بڑا کام کررہے ہیں اورہم نے جمہوریت اوراخلاقی قدروں کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ۔پیسہ اس میںنہیں ہوتاتھا اورتنخواہیں اتنی تھیں کہ زندگی تو بسر کی جاسکتی لیکن عیاشی ویاشی کیلئے کچھ کم ہی ہوتاتھا۔اوروجوہ میں یہ ایک وجہ ہے کہ ہم جیسے صحافی ڈپلو میٹک پارٹیاں ضرور اٹینڈ کرتے تھے کیونکہ وہاں مفت کی ملتی تھی اوریہ اندیشہ بھی نہیں ہوتاتھا کہ دونمبرمال ہے ۔جنرل مشرف جوکہ وردی ملبوس آمر تھے ‘نے دوچیزیں کیں۔ایک میڈیا کی آزادی کا دائرہ بڑھایا گوہم میڈیا والوں کو یہ بات تسلیم کرنے میں مشکل پیش آتی ہے ۔ دوم کیونکہ ٹی وی چینلز کی وجہ سے روزگار کے مواقع بڑھے تو یہ پیشہ اپنی سابقہ غربت سے آزادہوگیا ۔ ظاہر ہے سارے کے سارے صحافی اس ٹرینڈ سے مستفید نہ ہوئے لیکن کسی نہ کسی حدتک سب کا فائدہ ہوا ۔کچھ تو سٹارزاورسپر سٹارز بن چکے ہیں۔گو ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی باتیں سن کے اپنا سر کو پھوڑنے یاان کے سرپہ کچھ دے مارنے کو جی چاہتاہے ۔
پرانی صحافت کے بارے میں ہمارے دوست مشاہد حسین کہا کرتے تھے کہ صحافت کرنی ہو تو دَانے گھر کے ہونے چاہیں ۔اب یہ کیفیت بدل چکی ہے ۔اب خاطر خواہ دانے اسی پیشے میں مل جاتے ہیں۔ہر بیکار نوجوان اور ہر خوبرودوشیزہ کی تمنا ہے کہ اینکر بنے ۔ کتنے ہی بے روزگارلوگ مجھے ملتے ہیں جن کی دلی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت میں ٹی وی سکرین پر جلو ہ نماہوں ۔ جب ہم صحافت میں آئے اور ‘یہ کوئی 35۔37 سال پہلے کی بات ہے ‘کسی کوبتاتے کہ صحافت میں ہیں توشک کی نظروں سے دیکھے جاتے ۔ کوئی اتنانامور پیشہ نہ سمجھا جاتاتھا۔ اب بات اورہے اوراس کی سب سے بڑی وجہ جنرل مشرف ہیں ۔اسی لئے میں اکثر کہتاہوں کہ تمام اینکرز ،مردو خواتین ،اورجو ویسے قوم کو بور کرنے کیلئے ٹی وی پروگراموں میں آتے ہیں کو سال میں کم ازکم ایک بار باجماعت جنرل مشر ف کی فوٹو کے سامنے کھڑا ہوکے تعظیماً سرجھکانا چاہیے۔ اُس انداز میں جس انداز سے جاپانی سرجھکاتے ہیں۔
کرنا تو ہمیں یہ چاہیے لیکن صحافت نے جس ہاتھ سے دَانے کھائے اسی کو کاٹا ۔وکلاء تحریک بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔کالے کوٹ والے باہر نکلے تو ٹی وی کیمروں نے انہیں خوب بڑھا چڑھا کے پیش کیا ۔ مجمع 500کا ہوتاتھا لیکن ٹی وی سکرین پہ 25000کا لگتاتھا ۔افتخار چوہدری صاحب جب اسلام آباد سے لاہور آئے تو ٹی وی کوریج ایسی تھی کہ لگتاتھا ‘ جلوس کا ایک سرا لاہور ہے تو دوسرا اسلام آباد۔میںنے خود لاہور ہائی کورٹ کے چھت پر رات گزاری ۔ ٹی وی سکرینوں سے یوں لگ رہاتھا کہ عوام کا سمندر پورے جی ٹی روڈ پہ پھیلا ہواہے ۔ صبح جب ہائی کورٹ سے باہر نکلا اور بائیں طرف مڑا تو حیران ہو کے دیکھا کہ سڑک خالی ہے ۔ٹی وی کیمروں کا کمال اور کچھ ہم جیسوں کا جوش بھی اس میں شامل تھا کہ وہ تحریک نہ صرف نمایاں رنگوں میں پیش کی گئی بلکہ ایک مضبوط آمریت کیلئے خطرہ ٔجان بن گئی ۔کیا منظر ہم دکھاتے تھے ۔ ہمارے دوست علی احمد کُردجو بڑے اچھے مقرر ہیں تقریر کرتے تو ان کی لائیو کوریج پورا ملک دیکھتا ۔سچ تو یہ ہے کہ تقریباً تمام ٹی وی چینلز آپے سے باہر ہوگئے اوراسی بہاؤ میںجنرل مشرف کے ہاتھوں سے سیاسی کھیل پھسلتا گیا ۔
اس سارے معاملے میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بھی کچھ حصہ تھا ۔وہ تب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اورروایت یہ ہے کہ جب چیف جسٹس افتخار چوہدری جنرل پرویز مشرف سے ملنے گئے میٹنگ کے اختتام پہ ،جب جنرل مشرف جا چکے تھے ، جنرل کیانی نے معنی خیز انداز میں افتخار چوہدری کا ہاتھ دبایا ۔جس سے شاید چیف جسٹس صاحب نے یہ معنی لیا ہو کہ ڈٹے رہو۔ یہ حقیقت ہے کہ جب وکلاء تحریک چلی تو لگتا تھا کہ مشرف حکومت میں جو دَم ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔حکومتی اقدامات میں جو سمجھ اوریکسوئی ہونی چاہیے تھی وہ غائب تھی ۔شاید جنرل مشرف تھک چکے تھے ۔ پھر اُن سے ایک اور غلطی ہوئی جب اُنہوں نے جنرل کیانی کو ہی بطور آرمی چیف اپنا جانشین مقررکیا۔فیصلہ کرچکے تو غلطی کا احساس ہوا ۔جنرل کیانی کو ہٹانے کی کوشش بھی کی لیکن تب تک ان کی اپنی پوزیشن کمزور ہوچکی تھی اورجنرل کیانی نے پیر جمالیے تھے ۔
اب ایک اور پاور سٹرگل (power struggle)چل رہی ہے ۔بہت کچھ ادھورا ہے ،بہت کچھ ہونے کو ہے ۔دیکھتے ہیں اس کا کیا بنتاہے ۔