عظیم فرانسیسی ناولسٹ وکٹر ہیوگو (Victor Hugo) نے کہا تھا کہ اس سے زیادہ خوفناک چیز کوئی نہیں کہ تقدیر اٹل ہو۔ یعنی انسانوں کی یا قوموں کی تقدیر ہو اور وہ بدل نہ سکے۔ یہاں کے بے ہنگم شہر،گندگی کا وسیع پھیلاؤ اور اس کے اُوپر ریاست کی شاندار قیادتوں کا جائزہ لیا جائے تو جی میں یہی سوچ اُبھرتی ہے کہ یہی ہماری تقدیر ہے اور اسے بدلنے کی سکت اور سوچ ہم نہیں رکھتے۔
اچھا بھلا ملک تھا اوریہ پڑھی لکھی بات نہیں بلکہ جوانی کے ایام میں اُس بھلے اوربیتے ہوئے ملک کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کا حلیہ ہم نے بگاڑ کے رکھ دیا۔ کچھ تو مصیبتیں ورثے میں ملی تھیں لیکن بیشتر کو ہم نے خود پیدا اورجوان کیا۔ 1947ء میں پورے برصغیر ایشیاء میں دو ہی جمہوریتیں تھیں :ایک ہندوستان اوردوسرا ہمارا ملک۔ چین میں خانہ جنگی جاری تھی۔ دونوں کوریا تاریخ کے اندھیروں میں گُم تھے۔ ملائشیا پیدا نہ ہوا تھا۔ انڈونیشیا ڈچ (Dutch) تسلط اور ویت نام فرانس کے نیچے تھا۔ ہانگ کانگ اور سنگاپورکی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ ایشیاء کے بڑے اور رنگین شہروں میں کراچی کا شمار ہوتا تھا۔ بمبئی اورکراچی کا نام ایک سانس میں لیا جاتا۔
نو آبادیاتی تاریخ نے نقصان بھی بہت پہنچایا لیکن ہمیں دیا بھی بہت کچھ۔ عدلیہ،قانون کی حکمرانی کا تصور،آزاد سول سروس،منتخب اسمبلیاں،آزاد پریس اورجمہوریت کے دیگر لوازمات ہمیں برطانوی راج کی بدولت ہی ملے۔ ریاست یا رائج قانون میں سُقم یا خامیاں تھیں تو ہمیں دُور کرنا چاہیے تھیں۔ انگریزوں کی دی ہوئی بنیادوں پہ اپنی ضرورتوں کے مطابق شاندار عمارت کھڑی کرنی چاہیے تھی۔ یہ کرنے کی بجائے ہم بگاڑ کی طرف گئے۔ پہلی آئین ساز اسمبلی کو آئین بنانا چاہیے تھا۔ آئین بنانے کی بجائے ایک قرار داد مقاصد کی تشکیل میں مشغول ہوگئی۔ بڑے زیرک اورپڑھے لکھے ہندوممبران بھی آئین ساز اسمبلی میں تھے۔ انہوں نے بہت کہا،اوراُن کی تقریریں آج بھی پڑھنے کے لائق ہیں، کہ قائداعظم نے ہمیں کچھ اوریقین دلایا تھا اورآپ کچھ اوربات کررہے ہیں۔ لیکن اُ ن کی نہ سُنی گئی اورقرارداد مقاصد منظور ہوگئی اورحکومت وقت، جس کے سربراہ خان لیاقت علی خان تھے ،نے اسے بہت بڑا کارنامہ سمجھا۔ یہ یاد رہے کہ قرار داد مقاصد کے حق میں سب سے عمدہ اورمدلل تقریر سرظفر اللہ خان کی تھی جو کہ احمد ی تھے۔
ان باتوں کو چھوڑئیے۔ ریاست کی اچھی بھلی بنیاد ہمیں میسر تھی۔ ہمیں تو آگے جانا چاہیے تھا اوربرصغیر ایشیاء کے ممالک میں صف اول پر ہونا چاہیے تھا۔ آج کی صورتحال دیکھیں۔ وہ ممالک جو ہماری پیدائش کے وقت معرض وجود میں نہ آئے تھے کہاں پہنچ چکے ہیں اورہم کہاںپیچھے رہ گئے۔ 1947ء میںاگر کوئی کہتا کہ وقت آئے گا جب پاکستانی کوریا اورملائشیا میں نوکریاں ڈھونڈیں گے تواسے پاگل سمجھا جاتا۔ ایسا خیال کسی کی سوچ میںبھی نہیں آسکتاتھا۔ باہر ممالک کے آفیسر ہماری عسکری اکیڈیمیوں میں تربیت لینے آتے تھے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں ہوتاتھا۔ عرب امارات کا نام ونشان نہ تھا۔ امارات ائیرلائن تو بہت بعد میں آئی اوراس کی نشوونما میں پی آئی اے کا بڑا ہاتھ تھا۔ آج وہ ائیرلائن کہاں اورپی آئی اے کا کیا حشر ہو گیاہے۔
ابوظہبی کے سلطان النہیان ایک بار فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں پاکستان آئے تو ائیر پورٹ پراُن کا استقبال راولپنڈی ڈویژن کے تب کے کمشنر دربار علی شاہ نے کیا۔ ائیر مارشل اصغر خان اس وقت پی آئی اے کے سربراہ تھے۔ سلطان النہیان نے اُن سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے سناہے اوراس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ ائیرمارشل نے کہا کہ وہ ضرور آئیں لیکن خیال رہے کہ اپنے ساتھ شکاری باز وغیرہ نہ لائیں۔ زمانے کا تغیر دیکھیے۔ آج حالت یہ ہے کہ سابق وزیراعظم سے لے کر اہم وزراء تک سب نے عرب امارات کے ورک پرمٹ نجانے کس مجبوری کے تحت جیبوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی اشرافیہ کیلئے دبئی میںجائیداد کا ہوناایک مجبوری اورسٹیٹس سمبل بن گیاہے۔ آصف علی زرداری کا وہاں گھر ہے۔ کاروبار بھی ہے۔ اسحاق ڈار اور ان کے بیٹوں کے بھی وہاں لمبے چوڑے کاروبار ہیں۔ خواجہ آصف کے پاس اقامہ ہے اور اُس بارے کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ سُناہے احسن اقبال بھی اقامہ دارہیں۔ یہ تو چند نام ہیں۔ ساری فہرست بنے تو انسائیکلو پیڈیا بھر جائے۔ ان جیسے لوگوں پہ اُمیدیں ہیں کہ پاکستان کے حالات سنواریں گے۔ ایک عجیب قسم کا حکمران طبقہ ہماری سیاست نے پیدا کیا ہے جس کے تمام تر مفادات باہر ہیں لیکن وہ حکمرانی یہاں کرنا چاہتاہے۔ اورعوام بھی ایسے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں پہ تکیہ کرتے ہیں۔ یا شاید سچ کے زیادہ قریب یہ حقیقت ہے کہ عوام کے پاس اورکوئی چوائس نہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں؟ کس کا دامن تھامیں اور کس سے اُمید باندھیں؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو مواقع ہمیں ملے وہ ہم نے ضائع کردئیے۔ سنگاپور اورہانگ کانگ کیا تھے،چھوٹے چھوٹے علاقے،قدرتی وسائل سے بالکل خالی۔ لیکن اُن کے پاس دماغی وسائل تھے۔ سنگاپور کی تو خوش قسمتی تھی کہ اُسے ایک ورلڈ کلاس قیادت ملی۔ لی کو آن یو (Lee Kuan Yew) کی رہنمائی اور سرپرستی میں سنگاپور نے ہر شعبے میں حیران کن ترقی کی۔ تاریخ دان اورحالات پہ نظر رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی ایشیاء کی صدی بننے جا رہی ہے۔ دنیا میں طاقت کا توازن شفٹ ہو رہا ہے اور ایشیاء کی طرف جھک رہا ہے۔ اس نئے تشکیل پانے والے نقشے میں سنگاپور کا ایک خاص مقام ہوگا۔ سنگاپور والے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ایشیاء کا گیٹ وے ہیں۔ اس تاریخی شفٹ یا تبدیلی میں ہم کہاں ہیں؟
اپناکچھ بنا نہیں سکتے،سوچ کی طاقت سے محروم اور فرسودہ بحثوں میں اپنی توانائیاں صرف کئے جا رہے ہیں۔ بیکار کی باتوں کو پہاڑ جتنے مسئلے بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے مسائل کیا ہیں؟ بڑھتی ہوئی آبادی، غلاظتوں کے ڈھیر میں جکڑے ہوئے شہر، تعلیمی نظا م کے گرتے ہوئے معیار، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم سو چ کی پسماندگی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ملک خوبصورت ہے لیکن ہماری نااہلیت اور نکمے پن نے اسے بدصورت بنا دیا ہے۔ بڑی باتیں چھوڑئیے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھ کہ درخت کون سے لگانے چاہیں۔ پلاسٹک بیگ کی لعنت نے پورے ملک کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ہمیں کوئی سمجھ نہیں کہ اس لعنت سے کیسے چھٹکارا پایا جائے۔ ہمارا ایٹم بم تو یہ مسائل حل نہیں کرے گا۔
چھوٹی اورمحدود سوچ کاحکمران طبقہ ہم نے پیدا کیا ہے۔ ہم کہتے تھے کہ الیکشن اور جمہوریت ہر چیز کا حل ہے۔ جمہوریت قائم ہے اور الیکشن بھی قومی زندگی کا معمول بن گئے ہیں لیکن قومی نااہلی میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ سوچ کے دائروں کی وسعت نہیں بڑھی۔ جو پاکستان کی تشکیل نُوکیلئے بنیادی اقدامات ہیں‘ وہ کرنے سے ہم قاصر ہیں۔
پاکستان کو نئی راہوں پہ چلنے کی ضرورت ہے۔ ان رَستوںکو ڈھونڈے گا کون؟ کاروان کو راہ کون دکھائے گا، سمتِ سفر کون باندھے گا؟ پاکستان کو صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ یہی اس کا اوّلین مسئلہ ہے۔ سیاسی میدان چلے ہوئے کارتوسوں سے بھرا پڑا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا تجربہ قوم کر چکی۔ یہ دوبارہ اقتدار میں آئیں تو وہی کریں گی جو پہلے کرتی آئی ہیں۔ نتیجہ مختلف نہیں ہو سکتا۔ کیا ہماری تقدیر اٹل ہے اور اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں؟ یہ بات کہنے سے خوف آتا ہے۔ اگر یہ ہمارا مقدرہے تو تمام جتن اور جستجو بے فائدہ ہے۔ ایسا نہیں تو پھر تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ موقع بھی آن پہنچا ہے کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے ویسے ہی نہیں ہو رہا۔ اس شورش اور ہنگام کو خدا کی نعمت سمجھنا چاہیے۔ پر کیا اس موقع سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں، نئی راہوں کا تعین ہو سکتا ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔