"AYA" (space) message & send to 7575

خدمت اعلیٰ!

خوب لقب اپنے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے چُنا ہے۔ مزید خوبصورتی یہ کہ اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہتے ہوئے ذرہ برابر شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ بالکل اسی طرح جیسے حبیب جالب کی نظمیں گنگناتے ہوئے کبھی شرمندگی نہ ہوئی۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ خدمت کے اعلیٰ معیار انہوں نے قائم کیے۔ لیکن یاد رہے کہ سب سے زیادہ خدمت اپنے اور اپنے خاندان کی، کی۔ 
اس کی تازہ مثال دو تین روز پہلے کا وہ حکم نامہ ہے جس کے تحت جاتی امرا رہائش گاہ کو کیمپ آفس کا درجہ دیا گیا۔ ساڑھے سات سو ایکڑ پہ پھیلی ہوئی رہائش گاہ پہلے وزیر اعظم کے کیمپ آفس کا درجہ رکھتی تھی۔ یوں سکیورٹی سرکار کی اور تمام اخراجات بھی عوامی پیسے سے۔ ایک ہزار سے زائد پنجاب پولیس کی نفری جاتی امرا پہ مامور تھی اور اب بھی ہے‘ گو نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے۔ 
نااہلی کے بعد تو یہ سب کچھ ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ جس روز نواز شریف نااہل قرار پائے‘ اسی شام پنجاب پولیس کے دستے وہاں سے ہٹا لینے چاہئیں تھے۔ یوں تو یہ سارا کیمپ آفس والا کھیل عوامی پیسے پہ ڈکیتی کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم ہیں تو آپ کو اسلام آباد میں ایک باقاعدہ محل رہنے اور دفتری کام کے لئے میسر ہے۔ جہاز آپ کے ڈسپوزل پہ ہیں۔ سفر کرتے ہیں تو اس شان سے کہ ملکہ برطانیہ بھی ایسے نہ کرے۔ اُس کی اتنی لمبی موٹر کیڈ نہیں ہوتی جتنی ہمارے کاغذی شیروں کی۔ لیکن اس ساری بحث کو ایک طرف رکھ دیا جائے تب بھی بات انوکھی ہے۔ وزیر اعظم نااہل ہوئے تو کیمپ آفس کا جواز بھی چلا گیا۔ 
لیکن اُس ایک ہزار سے زائد نفری کے بغیر جینا بھی مشکل ہے۔ اپنے پلے سے کبھی کچھ نہیں دیا۔ جب سے میدانِ سیاست میں آئے یہ بُری عادت اپنے اوپر نہیں ڈالی۔ اگر پنجاب پولیس جاتی امرا کی حفاظت سے ہٹ جاتی تو کوئی احمق ہی سمجھے کہ انہوں نے اپنے پلے سے وہاں سکیورٹی گارڈ کھڑے کرنے تھے۔ تو قانونی جواز قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ کسی حیلے بہانے سے جاتی امرا کو کیمپ آفس قرار دیا جائے تاکہ اس پہ اُٹھنے والے اخراجات حسب سابق عوام کی جیب سے پورے ہوں۔ یہ ہے پس منظر خادمِ اعلیٰ کے تاریخی حکم نامے کا۔ لیکن حکمران خاندان اندازہ نہ کر سکا کہ اس اقدام کا رد عمل کیا ہو گا۔ میڈیا اور خاص طور پہ سوشل میڈیا میں ایک بھونچال سا آیا‘ جس کے نتیجے میں خادمِ اعلیٰ کو ذرا پیچھے ہٹنا پڑا۔ حکم نامہ واپس نہیں لیا گیا لیکن اُس کے فوری اطلاق کو روک دیا گیا ہے۔ کہانی یہ گھڑی گئی کہ جنابِ خادم اعلیٰ اس بات پہ غور کر رہے ہیں کہ پورے جاتی امرا کی بجائے اس کے ایک حصے کو کیمپ آفس ڈیکلیئر کیا جائے۔
ماننا پڑے گا بڑی مضبوط ہڈی کے لوگ ہیں۔ خادم اعلیٰ کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ حلقہ این اے 120 کے ضمنی الیکشن تک کیمپ آفس کا درجہ رکھتی تھی۔ مطلب یہ کہ اُس پہ اٹھنے والے تمام اخراجات عوام کی جیب سے پورے ہوتے تھے۔ حتیٰ کہ مہمانوں کو وہاں جو چائے کی پیالی پیش کی جاتی وہ چائے پتی اور دودھ بھی سرکاری پیسوں سے آتا تھا۔ کالی واسکٹ پہنے ویٹر بھی سرکاری اہلکار ہوتے تھے۔ پی ٹی آئی کے شور پہ الیکشن کے دوران خادمِ اعلیٰ کی نجی رہائش گاہ کا سرکاری رُتبہ کاغذوں کی حد تک ختم کر دیا گیا۔ سکیورٹی ویسے ہی رہی، عملہ جوں کا توں رہا، بس کاغذوں میں ردوبدل ہوا۔ اس کے علاوہ متعدد دفتر خادمِ اعلیٰ کے زیر استعمال ہیں... 7 کلب روڈ سے لے کر 90 شاہراہ قائدِ اعظم اور سول سیکرٹریٹ تک۔ روزنامہ دنیا میں دو دن پہلے محمد حسن رضا کی خبر چھپی کہ خادمِ اعلیٰ کے گھر اور دفاتر پہ آٹھ سالوں میں تین ارب چوہتر کروڑ روپے سے زائد خرچ ہو چکے ہیں۔ رواں سال ان دفتروں کے لئے پچاس کروڑ روپے مختص ہیں۔ بتائیے اس سے بہتر عوامی خدمت کی مثال کیا قائم ہو سکتی ہے؟ اُوپر سے حبیب جالب کی شاعری۔ ہر فنکار کے بس کی بات نہیں کہ ایسے معیارِ فنکاری پہ باآسانی پہنچ سکے۔
جاتی امرا کے حوالے سے موجودہ دورِ اقتدار میں ایک اور توپ بھی چلائی گئی۔ پنجاب پولیس سے رپورٹ لکھوائی گئی کہ جاتی امرا کو سکیورٹی خطرات ہیں‘ اور اس کی حفاظت بہتر بنانا اشد ضروری ہے۔ کمال معصومیت سے پھر پولیس ہی سے پوچھا گیا کہ کیا کرنا چاہیے؟ اور سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے دور میں محکمہ پولیس نے وزنی رائے دی کہ سکیورٹی خطرات کے پیش نظر یہ ناگزیر ہے کہ جاتی امرا کے گرد بم پروف (bomb proof) دیوار تعمیر کی جائے۔ ظاہر ہے اس ماہرانہ رائے کے سامنے شریف بے بس تھے۔ پولیس سے ہی پھر کہا گیا کہ جو کرنا ہے کریے اور پھر مشتاق سکھیرا کے دور میں پولیس کے بجٹ سے ہی ستر (70) کروڑ کی لاگت سے جاتی امرا کے ارد گرد بم پروف دیوار کھڑی کی گئی۔ اسے کہتے ہیں حکمرانی اورگڈ گورننس۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستانی سیاستدان جیب سے خرچتے تھے۔ الیکشن آتے تو کوئی زمین کا ٹکڑا بیچتے خرچہ پورا کرنے کے لئے۔ ایوب خان کے زمانے میں تبدیلی آئی اور بڑے بڑے صنعت کار جب ایوبی حکومت کے سائے تلے جمع ہوئے‘ تو وہ حکمران کنونشن لیگ کو تھوڑا بہت چندہ دے دیا کرتے۔ اردشیر کائوس جی مرحوم نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کے والد سے ایک لاکھ روپے چندہ کسی الیکشن مہم کے لئے لیا۔ جب وہ الیکشن معرکہ کسی وجہ سے نہ ہوا تو بڑے کائوس جی بھٹو کے پاس پہنچے اور کہا کہ پیسے واپس کر دیں۔ بھٹو بستر میں لیٹے ایرانی پستہ کھا رہے تھے۔ بڑبڑائے کہ بس یہی کچھ ہے۔ مزید اصرار پہ بھی جب بھٹو آگے نہ بڑھے تو سینئر کائوس جی نے کہا کہ پھر پستہ ہی دے دو۔ گھر لوٹے تو فیملی سے کہا‘ اس پستے کو احتیاط سے کھانا، دنیا کا مہنگا ترین پستہ ہے۔
اب ایسی کہانیاں کہاں۔ زمانہ ہی بدل گیا ہے اور پیسہ سیاست میں ایسا آیا ہے کہ سیاست اور ملک کی شکل بدل کے رکھ دی ہے۔ خود انصاف کیجئے، اسّی اور نو ّے کی دہائی تک شریف فیملی پیسے کے لحاظ سے بہت بڑی ہو چکی تھی۔ اسے کیا کسی الیکشن مہم کے لئے کسی اور سے پیسے لینے کی ضرورت تھی؟ لیکن جب 1990ء کے الیکشن آئے اور جنرل اسلم بیگ کے حکم پہ ISI نے ن لیگی سیاستدانوں میں پیسہ تقسیم کیا تو لینے سے نہ نواز شریف انکاری تھے نہ آج کل کے خادمِ اعلیٰ۔ تب کے ISI چیف جنرل اسد درانی کی ایک دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں موجود ہے جس میں رُوداد درج ہے کہ نواز شریف کو 33 لاکھ دئیے گئے اور موجودہ خادمِ اعلیٰ کو 22 لاکھ۔ خادمِ اعلیٰ نے اس بات پہ اپنی رائے کبھی نہیں دی لیکن FIA کو نواز شریف نے تحریر شدہ بیان دیا کہ الیکشنوں میں بہت ہنگامہ رہتا ہے لہٰذا ایسی رقم کا انہیں یاد نہیں۔ لیکن اگر واقعی دی گئی تو وہ اصلی رقم مع سود واپس دینے کے لئے تیار ہیں۔ 
یہ کہانی میں کئی دفعہ سنا چکا ہوں۔ دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی غلطی میں نہ رہے۔ جو ISI کے دئیے ہوئے پیسے اتنی آسانی سے بھول سکتے ہیں، جو اس بات سے مُکر سکتے ہیں کہ مشرف دور میں دس سالہ معاہدے کے تحت سعودی عرب گئے، جو وزیر اعظم ہوتے ہوئے عرب امارات کا ورک پرمٹ اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں، جو قطر سے الف لیلوی داستانیں لا سکتے ہیں، جن کی اولادیں یہ کہیں کہ باہر تو دور کی بات ہے اُن کے نام کوئی جائیداد پاکستان میں بھی نہیں، جو اپنے ہی محلے ماڈل ٹاؤن میں قتل عام کے بارے میں کہیں کہ انہیں تو اُس کا پتہ ٹیلی ویژن سے چلا، اُن کے لئے نجی رہائش گاہوں کو سرکاری رتبہ دینا کون سی بڑی بات ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں