اس حکومت نے وہ کر دکھایا جو نہ کتابوں میں ملتا ہے‘ نہ داستانوں میں۔ نالائقی کے مظاہرے تو ہوتے رہتے ہیں‘ پر ایسی عظیم نالائقی کم ہی دیکھنے میں آئی ہو گی۔ مسئلہ تھا ہی نہیں لیکن انہوں نے مسئلہ بنا دیا اور جب یہ سمجھ آ گئی کہ ہم سے غلطان ہو گئی تو اس کا ازالہ نہ کر سکے۔ یہی جو اَب تحریک لبیک یارسول اللہ سے معاہدہ ہوا ہے‘ اس کی پہلی شق‘ یعنی زاہد حامد کا استعفیٰ‘ پہلے پوری ہو جاتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔
لیکن معاملے کی حساسیت کا ادراک نہ کرتے ہوئے یہ پہلے دن سے سمجھ بیٹھے کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو رہا ہے، یہ سازش ہے جو کہیں اور سے ہو رہی ہے۔ ان کے ذہن میں فوج کا کردار گُھسا ہوا تھا۔ اِنہوں نے پاناما پیپرز کی ساری تفتیشی اور عدالتی کارروائی بھی فوج کے ذمّے ٹھہرائی تھی اور یہی سوچ کار فرما تھی‘ جب ختم نبوت والی شق کا مسئلہ سامنے آیا۔ ان کو اپنی روایت برقرار رکھنی پڑی ہے کہ سو جوتے بھی کھائیں اور سو رسوائیاں بھی مول لیں۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کا مطالبہ بڑا سادہ سا تھا کہ متعلقہ وزیر یعنی زاہد حامد‘ جن کی وزارت نے قانون میں ترمیم کی ڈرافٹنگ کی تھی‘ مستعفی ہو جائیں‘ باقی معاملات پہ بات ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف نے بھی یہی کہا کہ جنابِ قائد! جو وزیر اس کا ذمہ دار ہے اُسے فوراً ہٹا دیا جائے‘ لیکن ان کے ذہن شکوک و شبہات سے اتنے بھرے ہوئے تھے کہ بڑے بھائی اور اُن کے قریبی حواریوں نے شہباز شریف پہ بھی شک کیا اور یہی سمجھا کہ ایسی بات کرکے وہ سیاست کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو مسئلہ چھوٹی سی کاوش سے حل ہو سکتا تھا‘ بڑھتا چلا گیا اور پھر چونکہ احسن اقبال جیسے افلاطونوں کے ہاتھ معاملات آئے‘ تو مزید خرابی ہی ہونا تھی۔
اُس وزیر کی عقل کے بارے میں کیا کہیں گے کہ جس دن آپریشن ہوا اور ناکام ہوا‘ اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی‘ عین اُسی شام وہ فرماتے ہیں کہ دھرنے والوں کے روابط ہندوستان سے ہیں۔ احمقانہ باتوں کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اور جب ہلاکتیں ہوتی ہیں تو یہی وزیر مزید فرماتے ہیں کہ آپریشن میں تو کوئی مرا نہیں تھا‘ لیکن ہلاکتیں تب ہوئیں جب چوہدری نثار کے گھر پر حملہ ہوا۔ یعنی وہ تقریباً چوہدری نثار کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ شاید فائرنگ ان کے گھر کی طرف سے ہوئی۔ بجا طور پہ چوہدری نثار نے جواباً کہا کہ احسن اقبال کو ایسی بے سروپا باتیں نہیں کرنی چاہئیں اور اپنی ناکامی اسلام آباد انتظامیہ کے سر نہیں تھوپنی چاہیے۔ حیرانی کی بات ہے کہ احسن اقبال نے یہاں تک کہا کہ آپریشن میں نے نہیںکروایا تھا‘ بلکہ اسلام آباد انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے حکم کے تحت آپریشن شروع کیا‘ اور خود سے ختم کیا۔ مطلب یہ کہ اپنے آپ کو اس سارے معاملے سے بری الذّمہ قرار دے رہے تھے۔ اب یہ کس پوزیشن میں ہیں کہ بطور وزیر داخلہ کوئی حکم دیں اور انتظامیہ ان کی بات مانے؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ماڈل ٹاؤن آپریشن کا حکم اُوپر سے آیا اور جب چودہ ہلاکتیں ہو گئیں تو چیف منسٹر نے کہا کہ مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا‘ اور خبر میں نے ٹی وی پہ سُنی۔ پولیس کے مورال کا پہلے ہی بیڑہ غرق ہو چکا تھا‘ اب احسن اقبال کی حرکتوں کے بعد پولیس کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟
یہ حکومت پہلے ہی فالج زدہ تھی۔ کسر جو رہ گئی‘ وہ دھرنے اور اُس سے نمٹنے کے طریقے نے پوری کر دی۔ مسئلہ حل ہوا ہے تو فوج کی مداخلت سے۔ سوال یہ ہے کہ جو وقت حکومت کے پاس رہ گیا ہے‘ اُس میں ملکی معاملات کیسے نمٹائے جائیں گے۔ حکومت کی ساکھ تباہ ہو چکی ہے۔ فعالیت صفر ہے۔ مختلف سمتوں سے بالکل درست مطالبہ آ رہا ہے کہ حکومت تحلیل ہو اور ایک قومی حکومت تشکیل پائے۔ آئینی راستہ بھی یہی ہے کہ ساری اسمبلیاں تحلیل ہوں‘ نئے انتخابات منعقد کیے جائیں اور جو بھی عوام کی تائید حاصل کرے‘ ملک کی باگ ڈور سنبھالے۔ لیکن یہ کرے گا کون؟ شاہد خاقان نے اپنی نااہلی پر مہر ثبت کر دی ہے۔ جاتی امرا سے اشارے کے بغیر وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ خود سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ چہ جائیکہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کا بڑا فیصلہ کریں۔ اُن میں ہمت اور دانائی ہوتی تو پہلے ہی روز نواز شریف سے بغیر پوچھے زاہد حامد کا استعفیٰ لے لیتے‘ لیکن ہم نے دیکھا کہ ایسی فیصلہ سازی کی صلاحیت سے وہ محروم ہیں۔ جس بحران میں ملک پھنسا ہوا ہے‘ اُسے حل کرنے کی سوچ اور ہمت اُن میں کہاں سے آئے گی؟ نتیجتاً سارا ملک اس حکومت کی نالائقی کی گرفت میں ہے۔ کچھ ماہ مزید یہ صورتحال رہی تو معاملات مزید گمبھیر ہو جائیں گے۔ پہلے بھی (ن) لیگ نئے انتخابات کی راہ سے گریزاں تھی۔ اب جبکہ اُس کے وزیروں کے گھروں پہ حملے ہوئے ہیں تو وہ الیکشن کی طرف کیوں کر جائے گی۔ ن لیگ کے چند ایک ایم این ایز اور ایم پی ایز نے استعفے دئیے ہیں۔ کئی اوروں نے اِس طرف اشار ے دئیے ہیں۔ آج انتخابات ہوں تو بہت سے امیدوار (ن) لیگ کا ٹکٹ لینے سے گھبرائیں گے۔ اِس کا مطلب ہے کم از کم اِس حکومت سے فوری انتخابات کی اُمید رکھنا عَبث ہے۔
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملکی سطح پہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ سارا مذہبی ووٹ، دیوبندی اور بریلوی، (ن) لیگ کا ہوا کرتا تھا۔ بریلوی سوچ میں ایک نئی فکر آئی ہے اور اس دھرنے کی وجہ سے وہ سوچ مزید زور پکڑ گئی ہے۔ اب یہ ووٹ سالم حالت میں (ن) لیگ کی طرف نہیں جا سکتا۔ بریلوی سوچ کی کمی یہ ہوا کرتی تھی کہ اُسے سمت دینے کیلئے کوئی مؤثر آواز نہ تھی۔ وہ کمی علامہ خادم حسین رضوی کی شخصیت اور تقریروں نے پوری کر دی ہے۔ اُن سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی آواز کے مؤثر پن سے انکار ممکن نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا کلامِ اقبال، اُردو اور فارسی، انہوں نے حفظ کیا ہوا ہے۔ عربی پہ بھی مکمل عبور ہے اور آواز میں چاشنی ہے۔ اُنہوں نے بریلوی مسلک کے تمام خطیبوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے حتیٰ کہ ڈاکٹر طاہرالقادری پہ ایسے تبر ّے کَسے ہیں کہ خیال اٹھتا ہے کہ اس سارے ہنگامے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست ختم نہ ہو جائے۔ حافظ سعید کو بھی ایسے آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ شاید اور کوئی نہ کر سکے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ کون سا مجاہد ہے جس کی ایسی ڈیل ڈول ہو۔ مذہبی سیاست کے تناظر میں یہ نئی سوچ اور نئے الفاظ ہیں۔
سختی تو دیوبندی اسلام کا حصہ تھا۔ یہ ساری جہاد اور مجاہدوں کی باتیں وہاں سے تھیں۔ افغانستان کا جہاد، طالبان کا نظریہ، القاعدہ کی سوچ، ان سب نے وہاں سے جنم لیا۔ بریلوی مسلک کی پہچان درود و سلام، گیارہویں شریف کی دیگوں اور خانقاہوں سے تھی۔ اس میںاب ایک سختی آ گئی ہے اور اس روش کے معمار اور روح رواں علامہ خادم حسین رضوی ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنے اور اس کے اختتام سے اُن کا قد اور بڑھ گیا ہے۔ اُمید کرنی چاہیے کہ یہ نئی صورتحال مثبت راہوں پہ چلے اور وہ صورت نہ اختیار کرے جو نام نہاد جہادی اسلام کا وتیرہ بن گئی تھی‘ اور جس سے ملک کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔