انگریزی دان اور نام نہاد لبرل کس بات کا رونا رو رہے ہیں؟ اُنہیںکس بات کی خِفت ہے اور وہ پاکستان کو ناکام ریاست کیوں کہتے ہیں؟ اس ملک پہ مولویوں نے حکومت تو کبھی نہ کی۔ وہ اقتدار میں کبھی نہ رہے۔ لیڈرانِ ملت تھے تو انگریزی دان۔ حکومت اُنہوں نے کی اور اَب تک کر رہے ہیں۔ زبانِ اقتدار اُردو، فارسی یا عربی نہیں انگریزی ہے۔ زبانِ قانون اور قانون سازی انگریزی ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں تدریس انگریزی میں ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں قائم ایک دفاعی یونیورسٹی‘ جس سے بڑا سفید ہاتھی مملکت خُداداد میں نہیں‘ میں لیکچرز انگریزی میں دئیے جاتے ہیں۔
ریاست کی خامیوں اور کمزوریوں کی ذمہ داری پھر کس پہ ہے، اُن پہ جنہوں نے حکمرانی کی یا اُن پہ جو نعرے لگانے میں ماہر ہیں اور کبھی کبھار اِکاّدُکاّ دھرنا دے کے کسی چوراہے پہ بیٹھ جاتے ہیں؟ محمد علی جناح نے تو بڑے واضح انداز میں کہا تھا کہ نئی نویلی ریاستِ پاکستان کی شکل کیا ہو گی۔ اُن کی آئین ساز اسمبلی کے سامنے 11 اگست 1947ء کی تقریر کوئی ابہام نہیں رکھتی۔ سادہ الفاظ میں‘ جو ہر کوئی سمجھ سکے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں مذہبی تعصّب کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ اس تصورِ ریاست کو کس نے تبدیل کیا؟ مولویانِ پاکستان قائد اعظم کے 11 اگست والے ارشادات کے حامی نہ تھے‘ لیکن وہ بڑبڑا ہی سکتے ہیں کچھ کرنے سے قاصر تھے۔ جناح صاحب کے تصورِ ریاست کی تبدیلی تو 1949ء کی قراردادِ مقاصد سے ہوئی جس میں ریاست کی تشریح مذہبی حوالے سے کی گئی۔ قراردادِ مقاصد کو پاس کرنے والے اور اُس کے پُرجوش حامی آئین ساز اسمبلی کے مسلمان انگریزی دان تھے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اُس تحریک میں پیش پیش تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ آئین ساز اسمبلی میں سب سے پُراثر اور مدلّل تقریر سر ظفراللہ خان کی تھی۔ یہ درست ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی بھی قراردادِ مقاصد کے پیچھے تھے‘ لیکن فیصلہ کُن کردار ہمارے دیسی انگریزی دانوں کا تھا۔ ہندو ممبرانِ آئین ساز اسمبلی روتے رہے کہ ایسا نہ کریں، یہ جناح صاحب کے خیالات کی نفی باتیں ہیں لیکن اُن کی نہ سُنی گئی۔
شروع کے سالوں میں ہی پاکستان ریاست ہائے متحدہ کا پٹھو بن گیا۔ سینٹو (Cento) کا ممبر بنا‘ اور پھر سیٹو (Seato) کا۔ یہ فیصلہ کسی مولوی یا عالم دین نے نہ کیا۔ سوٹڈ بوٹڈ (suited booted) انگریزی دان ہی تھے‘ جو پاکستان کو اُس طرف لے گئے۔ جمہوریت پہ پہلے حملے مشائخ و علماء نے نہ کیے۔ پہلی آئین ساز اسمبلی کو ایک سکہ بند انگریزی دان گورنر جنرل غلام محمد نے تحلیل کیا‘ جس کی توثیق ایک بہت ہی بڑے انگریزی دان چیف جسٹس محمد منیر نے کی۔ فوج کے سپہ سالار جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع کا عہدہ دے کر کابینہ میں بٹھانا بھی انگریزی دانوں کا کارنامہ تھا‘ اور پہلے سکندر مرزا والے مارشل لاء میں تو دُور تک کسی مذہبی عنصر کا عمل دخل نہ تھا۔ سکندر مرزا اُن پہلے ہندوستانی افسروں میں تھے‘ جن کو انگریزوں کے ہاتھوں کنگز کمیشن ملا اور ایوب خان تو سینڈہرسٹ (Sandhurst) اکیڈمی کے فارغ التحصیل تھے۔
1965ء کی جنگ نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ اچھا بھلا ملک ترقی کی راہوں پہ گامزن تھا کہ اس پنگے نے‘ جو ہم نے آنکھیں بند کرکے اور دماغوں پہ پٹیاں باندھ کے لیا، نے ملک کو پٹڑی سے اُتار دیا۔ آج اُس جنگ کے بارے میں ہم طرح طرح کی کہانیاں گھڑتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ممکنہ نتائج کو بغیر سمجھے ایوب خان اُس میں پھسل گئے۔ کسی نے دھکا دیا تو وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ جہاں تک مملکت کے منفرد بادشاہ جنرل یحییٰ خان کا تعلق ہے‘ اُن سے بڑا لبرل پاکستانی افواج میں پیدا نہیں ہوا۔ پاکستانی لبرل ازم بس بادہ خواری اور بے موقع بھنگڑوں سے تشبیہ رکھتی ہے۔ پرلے درجے کے نکمیّ ہوں لیکن تھوڑا ناچ لیں اور ہاتھ میں کچھ لے لیں تو آپ لبرل ٹھہرے۔ کسی این جی او کی نوکری کر لیں تو سند یافتہ ہو گئے۔
بھٹو سے بڑا انگریزی دان کون تھا۔ جنہیں ہم وصف ہائے لبرل ازم کہتے ہیں‘ اُن میں وہ سب تھے۔ اُنہیں تو جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنی چاہئیں تھی۔ صحیح معنوں میں ایک لبرل اور پروگریسو معاشرے کی طرف قدم بڑھانے چاہئیں تھے۔ لیکن وہ مخالفت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ جس کسی نے اُن کے خلاف آواز اُٹھائی وہ دَھر لیا گیا۔ قطعاً کوئی وجہ نہیں تھی کہ ولی خان کی نیپ (NAP) اور مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود کی جے یو آئی (JUI) سے وہ اُلجھتے۔ لیکن ایسا ہی کیا اور بلوچستان میں سردار عطااللہ مینگل کی حکومت کے خلا ف فوج کشی کی۔ ان واقعات سے بھٹو کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا؛ البتہ فوج کی پوزیشن 1971ء کی شکست کے بعد مضبوط ہوتی گئی۔ اور باقی باتیں چھوڑئیے، بھٹو جیسے شخص کو مذہب کے مسئلے میں سینگ نہیں اَڑانے چاہئیں تھے‘ لیکن 1974ء کی آئینی ترمیم اُنہوں نے ہی پاس کرائی۔
جنرل ضیاء الحق نے جو کچھ کیا، ٹھیک کیا۔ اُن کے والد صاحب مولوی تھے اور وہ خود مذہبی ذہن رکھتے تھے۔ اقتدار پہ قبضہ کیا تو مذہب کو ڈھال بنایا اور اُسی سے جوازِ حکمرانی تلاش کیا‘ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بھی انگریزی دان تھے اور ایک ایسی فوج کے نمائندہ‘ جس کی سوچ اور اَفکار انگریز حکمرانی میں ڈھلے تھے۔ مولویانہ سوچ کے حامل گروہ نام نہاد افغان جہاد میں ضرور ہراول دَستوں کی صورت میں شامل ہوئے۔ لیکن اُس فساد میں پاکستان کا شامل ہونا اور امریکہ کا دُم چھلا بننا کسی مولوی کا فیصلہ نہ تھا بلکہ پاکستانی افواج کے انگریزی بولنے والے جرنیلوں کا تھا۔
یہ پراپرٹیاں باہر کس نے بنائی ہیں؟ مولویوں نے بھی ہاتھ پیر مارے ہوں گے‘ لیکن اس میدان میں ہماری جمہوری جماعتوں کے قائدین سے بڑا کوئی رُستم اور شاہ سوار نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد جمہوری حکمرانوں کو ملک کو بہتر حکمرانی دینی چاہیے تھی۔ بھَلے فلاحی مملکت نہ بنتی لیکن عوام کیلئے سہولتیں تو پیدا کی جا سکتی تھیں۔ صحت اور تعلیم پہ توجہ ہوتی، اونچ نیچ کا فرق کچھ کم کرنے کی تدبیریں سوچی جاتیں۔ لیکن جمہوریت دانوں کو اپنی پڑی ہوئی تھی، سرے محل خریدے، لندن کی مہنگی ترین جائیدادیں ہتھیائیں اور قوم کو درس جمہوریت کا دیتے رہے۔ مارشل لاؤں نے جو کسر چھوڑی تھی وہ اِن جمہوری حکمرانوں نے پوری کر دی۔ پاکستان میں آج اگر حکمرانی کی یہ حالت ہے، افراتفری ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، معاشرہ اتنا بے ہنگم اور تباہ حال لگتا ہے تو قصور کس کا ہے؟ دینی اقدار کا یا اقتدار میں رہنے والوں کا؟
ان حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے بالکل قدرتی اَمر ہے۔ ریاست میں خلا پیدا ہو گا تو اُسے وہ پُر کریںگے‘ جو اِس کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ اگر نام نہاد لبرلز ناکام ہوئے ہیں اور پاکستان کو اس دَھانے پہ لے آئے ہیں تو پھر اچنبھے کی بات نہیں‘ نہ رُونے کا مقام کہ کچھ لوگ آگے آئیں اور ایک ایسا پیغام دیں جو عام آدمیوں کے دِلوں کو لگے۔ ہم دو پاکستانوں کی بات کر رہے ہیں، ایک اشرافیہ کا‘ دوسرا لاچاروں اور مُفلسوں کا۔ ان متفرق وجودوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ عوام کی فلاح نہ ہو، بیچارگی میں وہ رہیں اور دلاسہ انہیں جمہوریت کا دیا جائے، کچھ دیر تو یہ کھیل چل سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ لہٰذا اگر اور قوتیں آگے آ رہی ہیں اور عوام کے سوئے ارمانوں کی ترجمانی کر رہی ہیں‘ تو اس میں حیرانی کی بات نہیں۔