محض انتخابات تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوتے۔ فرسودہ خیالات رکھنے والی جماعتیں سو انتخابات لڑ لیں‘ تبدیلی نہیں آتی بلکہ سٹیٹس کو (status quo) مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ انتخابات ذریعۂ نجات یا ذریعۂ تبدیلی تب ہی بنتے ہیں جب تبدیلی لانے والی قوتیں میدان میں اُتریں۔ یعنی تبدیلی کے لئے لازم ہے کہ کوئی جماعت دُور رس یا انقلابی ایجنڈا لے کر میدان میں اُترے۔
اِس وقت پاکستان میں تمام کی تمام جماعتیں‘سوائے تحریک انصاف کے پُرانے خیالات کی علمبردار ہیں۔ عمران خان سے لاکھ اختلاف کیے جائیں، مختلف موضوعات پہ وہ تنقید کا نشانہ بنے، لیکن یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ اُن کی سیاست میں تبدیلی کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ جو اُن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ کرپشن کے داغ اُن کی ذات پہ نہیں‘ یہ بذاتِ خود پاکستان کے تناظر میں بڑی انوکھی بات ہے۔ یہاں تو ہر ایک کی چھاتی پہ کرپشن کے داغ نشانِ امتیاز کی مانند ہیں، ڈھونڈے سے بھی صاف ستھرا آدمی شاذ ہی ملتاہے۔ مسلم لیگ (ن) مضبوط جماعت ہے۔ پنجاب میں اس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔ پنجاب کے ہر حلقے میں مضبوط گروہ اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس کی قیادت داغ دار ہے، اِن کی ذات سے لمبی کرپشن کی داستانیں وابستہ ہیں۔ اِن کے خیالات فرسودہ ہیں۔ ذہنوں میں نئی سوچ کی کوئی رَمق نہیں۔ لمبے عرصے سے یہ جماعت اقتدار میں ہے‘ اگر مزید لمبے عرصے کے لئے رہے تو وہی پرانی گھسی پٹی باتیں منہ سے نکلیں گی۔
ایک زمانے میں (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کی ڈارلنگ ہوا کرتی تھی۔ اب ایسا نہیں۔ جنہیں ہم مقتدر قوتیں کہتے ہیں وہ اِن سے تنگ ہیں اور اس جماعت کی قیادت کو ناپسند کرتی ہیں۔ لیکن (ن) لیگ سے کوئی ڈر نہیں۔ ناپسندیدگی ہے‘ خوف نہیں کیونکہ نواز شریف، شہباز شریف اور اِن کے ظاہر ہونے والے جانشین مقتدر قوتوں کے لئے جانی پہچانی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس مقتدر قوتیں عمران خان کو پسند کرتی ہیں مگر اُس سے خوفزدہ بھی ہیں کہ یہ ہمارا مہرہ نہیں بنے گا، ہمارے کنٹرول میں نہیں ہو گا اور اپنی بات منوائے گا۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ اسٹیبلشمنٹ کے وارے میں تھیں اور ہیں۔ کیونکہ خارجہ پالیسی اور سکیورٹی کے محاذ پہ جو چاہے اسٹیبلشمنٹ اُن سے منوا لیتی تھی۔ نہ آصف علی زرداری کبھی بولتے تھے نہ ان موضوعات پہ شریف کبھی باغی ہوتے تھے۔ اپنے لین دین کے چکروں میں صدر زرداری اور دونوں شریف‘ خود مختار رہنا پسند کرتے تھے لیکن دوسرے محاذوں پہ اسٹیبلشمنٹ جو کرنا چاہے‘ اُس سے ان سیاسی رہنماؤں کو کوئی سروکار نہ ہوتا۔ عمران خان کا مسئلہ سراسر مختلف ہے۔ وہ اگر اقتدار میں آئے تو کسی کا دُم چھلا یا پُتلی کبھی نہ ہوں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ جی ایچ کیو والے کوئی مرضی کی بریفنگ دیں اورعمران خان اُس پہ انگوٹھا لگا دے۔ افغانستان ہو یا ہندوستان‘ عمران خان کی اپنی رائے اور سوچ ہو گی۔ یہ نہیں کہ نواز شریف کی طرح خواہ مخواہ کے بیکار جھگڑے افواج سے مُول لیتا رہے۔ ڈان لیکس جیسا تماشا عمران خان سے ہر گز سرزد نہ ہوگا۔ اُن کا کوئی وزیر پرویز رشید یا مشاہد اللہ خان نہ بنے گا۔ کوئی سعد رفیق یہ نہیں کہے گا کہ ہم لوہے کے چنے ہیں۔ کوئی خواجہ آصف خواہ مخواہ کی پھبتیاں اداروں پہ نہیں کَسے گا۔ عدلیہ پہ دُشنام طرازی نہ ہو گی۔ لیکن عمران خان کی قیادت میں بنی حکومت خارجہ اور داخلی محاذ پہ انگوٹھا چھاپ بھی نہ ہوگی۔ کوئی فیض آباد دھرنا ہوا تو حکومت خود نمٹے گی، افواج سے مدد اس بھونڈے طریقے سے نہ طلب کرے گی جیسا کہ (ن) لیگ نے کیا۔ باہر کے رہنماؤں سے عمران خان نہایت پُر اعتماد طریقے سے بات کر سکے گا۔ اُس کا رویہ عذر خواہانہ نہ ہو گا۔ اُسے کسی اوباما کے سامنے لکھی ہوئی تحریروں کا سہارا لے کر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی۔
انہی چیزوں سے مقتدر قوتوں کے دلوں میں دھڑکا لگا ہوا ہے۔ اُن کو نکمے لیڈروں کی عادت پڑ چکی ہے۔ عمران خان خود سر تو نہیں البتہ پُراعتماد ہو گا۔ مقتدر قوتوں کو زرداریوں، گیلانیوں اور شریفوں کا ایسا چسکا لگا ہے کہ پُراعتماد لیڈر انہیں باغی نظر آتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ سوچ غلط ہے۔ افواج اپنا کام کر سکتی ہیں لیکن چار مارشل لاؤں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کی باگ ڈور اسلوب سے نہیں سنبھال سکتیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان برانڈ کی جمہوریت پچھلے چالیس سالوں میں نکمے لیڈر ہی پیدا کر سکی ہے۔ اب موقع ہے کہ کوئی نئی چیز سامنے آئے، حقیقی تبدیلی کی طرف مملکت گامزن ہو اور فرسودہ سُوچ اور روایتوں کو دفن کیا جا سکے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ مقتدر قوتیں اپنے دلوں سے فضول وسوسے نکال دیں۔ اُن کو دل وجان سے یہ سچ تسلیم کرنا چاہیے کہ حکمرانی سیاست سے جنم لینی چاہیے۔ اس کے لئے کسی پولیٹیکل انجینئرنگ کی ضرورت نہیں۔ انتخابات ہوں اور نتائج تسلیم کیے جائیں۔ جو عوام کی تائید لے کر آئے‘ اقتدار سنبھالے۔ اب یہ اُمید ہی کی جا سکتی ہے کہ نئی سُوچ رکھنے والی جماعت کو عوامی پذیرائی ملے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہو گی کہ نئی قوتیں انتخابات میں سرخروہوں۔ اگر نہ ہوں تو یہ ملک کی بدبختی ہوگی۔ بہرحال جیسا بھی ہو‘ انتخابی معرکے کے نتائج تسلیم کئے جانے چاہئیں اور اگر قوم کی قسمت میں وہی پرانے فنکار لکھے ہیں تویہی ملک کی تقدیر سمجھنی جانی چاہیے۔
پاکستان کی تاریخ میں 1970ء کی انتخابی مہم سب سے طویل دورانیے کی تھی۔ پورا ایک سال مہم چلتی رہی۔ 2018ء کے انتخابات کے لئے‘ جو مہم کئی لحاظ سے شروع ہو چکی ہے دوسری طویل ترین مہم ہوگی، اب سے لے کر تقریباً اگست تک۔ ایک بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ الیکشن ہی ہوںگے کوئی اورڈرامہ نہیں۔ لمبی عبوری حکومت کے شوشے ہی ہیں‘ امکانات کم ہیں۔ اگرکوئی ایسی چیز ہونا ہوتی تو چند ماہ پہلے ہو چکی ہوتی۔ اب ایسے تجربات کا وقت گزر تا جا رہا ہے۔ شریفوں کے ساتھ جو ہونا تھا‘ وہ ہوگیا، نواز شریف نااہل لیکن شہباز شریف کا راستہ میدان میں اُترنے کے لئے بالکل صاف۔ حدیبیہ کے سائے شہباز شریف کے سر سے چھٹ چکے۔ ماڈل ٹاؤن کیس کے بارے میں بھی کوئی دھماکہ خیز صورتحال پیدا ہونے کے امکانات معدوم پڑتے جا رہے ہیں۔ آصف زرداری نے منہاج القرآن سیکرٹیریٹ جا کر شعبدہ بازی کی۔ وہ کسی احتجاج میں شامل ہونے والے نہیں۔ اُن کی اب بھی بات دَر پردہ (ن) لیگ سے چل رہی ہے۔ اکیلے احتجاج میں ڈاکٹر طاہر القادری نہیں کودیں گے ۔ اور اگر ماڈل ٹاؤن کیس ایسے ہی ٹھنڈا پڑا رہے تو پھر شہباز شریف کے سامنے اور کوئی رکاؤٹ نہیں رہ جاتی۔ عدالتی محاذ پر بھی جو فیصلے ہونے تھے‘ ہو چکے۔ نیب ریفرنسسز میں سزا ہوتی ہے تو اُس کی زد میں نواز شریف اور اُن کی اولاد آئے گی، شہباز شریف نہیں۔ لہٰذا آنے والے معرکے میں ایک طرف شہباز شریف ہوںگے اور دوسری جانب عمران خان۔ باقی چھوٹے کھلاڑی اپنا رول ادا کریں گے۔
لہٰذا نتیجہ یوں: کوئی فوجی مداخلت نہیں، کوئی لمبی عبوری حکومت نہیں، مزید کوئی بڑے عدالتی فیصلے نہیں، صرف الیکشن کا میدان اور صبر و ہمت آزمانے والی لمبی انتخابی مہم۔ (ن) لیگ اوپر حکومت میں ہے اور پنجاب میں بھی۔ اُس نے اپنی موجودہ پوزیشنیں سنبھالنی ہیں۔ اقتدار کے قلعوں پہ حملہ پی ٹی آئی نے کرنا ہے۔ یہ اُس کے سامنے چیلنج ہے۔ عمران خان کے لئے یہ آخری موقع ہوگا۔ یا لہروں پہ سوار ساحل پہ پہنچ پائیں گے یا بیچ منجدھار قسمت لٹکی ہو گی۔ پاکستان کی قسمت کا انحصار آنے والی دلچسپ انتخابی مہم پہ ہو گا۔