اب تو کوئی شعبۂ زندگی دو نمبری سے خالی نہیں۔ پانی اورشہروں کا ماحول ہم نے کب کا خراب کردیا ہے۔ ایک وقت تھا گھروں میں مشکوں میں پانی آتا اور وہی پیا جاتا۔ اسلام آباد میں جب ہم شروع شروع میں آئے تو گھر کے نلکوں سے پانی پیتے جو اب ناقابل یقین تصور ہے۔ دودھ میں ملاوٹ، گوشت میں پانی کے انجکشن، ادرک تیزاب میں دھلی ہوئی، سبزیاں گندے پانی سے اُگائی ہوئیں، غرضیکہ جس چیز کی طرف دھیان جائے وہ دو نمبری کا شکار۔ سیاست بھی خرا ب، حکمرانی پرلے درجے کی نکمّی، انصاف میں بھی ملاوٹ اور حیران کرنے والی پیچیدگیاں۔
ایک شعبہ تھا جس کے بارے میں سمجھتے تھے کہ ملاوٹ سے محفوظ رہے گا۔ وہ تھا جام و سبو والا معاملہ۔ گمان ہوتا تھا کہ اس میں ہیرا پھیری نہیں آئے گی لیکن اس کا بھی حال ایسا ہوگیا ہے کہ انسانیت کی شرافت پر سے ایمان اٹھتا جاتا ہے۔ لاہور میں جس کلب سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے، ظاہر ہے کہ نام اُس کا لے نہیں سکتے کیونکہ وہاں کے صاحبان اقتدار بُرا مان جائیں گے، اُس کے بارے میں یقین رکھتے تھے کہ یہاں دو نمبری نہیں ہوگی۔ لیکن پچھلے دنوں سودا سلف لیا توسارے کا سارا دو نمبر نکلا۔ حیران ہوکے اُن سے کہا کہ کچھ جگہیں تو پاک صاف رہنی چاہئیں اور آپ کو کچھ شرم آنی چاہیے۔ اُنہوں نے معذرت کی، مزید سودا سلف دیا، میٹھی مسکراہٹیں چہروں پہ پھیلائیں اور ہمیں چلتا کیا۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچے تو پتا چلا کہ ہم سے پھر ہاتھ ہوگیا۔ کانوں کو ہاتھ لگائے کہ کم ازکم اس تجارت کے لئے اس کلب کا رُخ نہیں کریںگے۔ اپنے پُرانے اسلام آباد کے روحانی مدد گار سے رجوع کیا اوراچھی خاصی رقم ادا کی۔ گاؤں واپس آئے تو دیکھا کہ وہاں سے بھی دو نمبری ہو گئی۔ پھر سوچا کہ ا س سے بہتر ہے کہ اعلان حب الوطنی کر دیا جائے اوراس میدان میں غیر ملکی اشیاء سے اجتناب کیا جائے۔ ہمارے دوست اسفند یار بھنڈارا کو فائدہ کیوں نہ پہنچے۔ لاہور کے جس ہوٹل میں مستقل قیام کرتے ہیں وہاں کے شاہ صاحب سے درخواست کی کہ کرسمس اور نیو ایئر آ رہے ہیں، ہماری مدد فرمائیں۔ مدد کیا کرنی تھی اُنہوں نے بھی دو نمبری دکھا دی۔
یہاں رونا اپنی ذات کا نہیں بلکہ جو رُوداد بیان کی ہے وہ ہمارے اجتماعی معاملات کا ایک منظر پیش کرتی ہے۔ جس ملک میں سبزیوں سے لے کر گوشت تک اورسیاست سے لے کر انصاف تک سب چیزیں مشکوک ہوجائیں اورجہاں پہ روحانی مدد بہم پہنچانے والے سوداگر مستقلاً دو نمبری پہ اُتر آئیں اُس معاشرے کا کیا بنے گا؟ کوئی چیز تو ہو جس پہ ایمان ٹھہرے۔ شعبۂ علاج اور شعبۂ وکالت کا تو پتا تھا کہ بہت کچھ خرابیاں رکھتے ہیں ۔ پٹواریوں اور تھانیداروں کاحال ہم جانتے ہیں۔ سرکارکی کارکردگی ہمارے سامنے ہے لیکن اگر روحانی میدان میں بھی اتنی دو نمبری ہو جائے تو پھر انسان کہاں جائے، کہاں عافیت تلاش کرے؟
رونا اس بات کا ہے کہ ایسی صورتحال ہمیشہ نہ تھی۔ ہم زمانہ قدیم کی بات نہیں کر رہے‘ اپنی یا د اور تجربے کی بات ہے کہ یہاں ڈھنگ سے چیزیں چلتی تھیں اور معاشرے میں اتنی بے ایمانی نہ تھی۔ ہم پتا نہیں کن چکروں میں پڑ گئے اور اچھے بھلے ملک کو خرابی کی طرف لے گئے۔ جہاں دیکھیں ایک ہی چیز ہو رہی ہے، ہر شہر میں نہ ختم ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز ۔ ہر کوئی رئیل اسٹیٹ میں گھسا ہوا ہے، حتیٰ کہ افواج جوکئی محاذوں پہ بڑے کام کر رہی ہیں وہ بھی رئیل اسٹیٹ کی بیماری سے نہیں بچیں۔ ایک زمانہ تھا جب فقط کراچی میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی تھی۔ وہ ایسی سوسائٹی تھی جیسی اور سوسائٹیاں ہوتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا تو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی کو بذریعہ صدارتی آرڈیننس اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ یعنی اپنے علاقے میں اُسے خود مختاری مل گئی۔ جنرل مشرف کا مارشل لاء آیا تو لاہور میں ڈیفنس اتھارٹی بن گئی۔ جنرل کیانی سپہ سالار ہوئے تو اسلام آباد راولپنڈی میں ڈیفنس اتھارٹی کا قانون پارلیمنٹ سے پاس کروایا گیا۔ پھر پشاور میں ڈی ایچ اے بنی اور اب تو ہر بڑے شہر... کوئٹہ، گوجرانوالہ، بہاولپور... میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز بن گئی ہیں۔ دنیا کے کسی اور ملک میں اس وسیع پیمانے پہ افواج رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث نہیں۔ یہ ہمارا ہی اعزاز ہے۔
دوسرا پسندیدہ کاروبار شادی ہالوں کا ہے۔ خداکی پناہ! جہاں دیکھیں شادی ہال کھڑے ہو رہے ہیں۔ اربوں روپے کی انویسٹمنٹ ان میں ہو رہی ہے۔ یوں لگتاہے کہ اِس ملک میں مہنگی شادیاں کرانے کے علاوہ اورکوئی شوق یا کاروبار نہیں۔ انڈسٹری ہے کوئی نہیں، برآمدات گر رہی ہیں، غیر ملکی اشیاء سے ہماری دکانیں اور شاپنگ مال بھرے پڑے ہیں، قرضوں میں ملک جکڑا ہوا ہے اور پیسے کہاں لگ رہے ہیں شادی ہالوں پہ۔ ایک زمانے میں دیہات میں جاتے تو ہر طرف پولٹری فارم دکھائی دیتے۔ گمان گزرتا کہ پاکستان کا ہر کسان انڈے اور چوزے تیار کر رہا ہے۔ جب سے بڑے کاروباری پولٹری کے شعبے میں آئے، جیسے خادمِ اعلیٰ کے ہونہار فرزندان، چھوٹے پولٹری فارم نقصان میں جا کے بند ہو گئے۔ اب یوں لگتا ہے کہ پاکستان کا تمام سرمایہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں یا شادی ہالوں میں جا رہا ہے۔
قوم کے گناہ تو ہوں گے اسی لئے ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے، لیکن ہمارا معیارِ حکمرانی بھی اپنی مثال آ پ ہے۔ قیادت وہ ہوتی ہے جو قوم کو راستہ دکھائے، اُس کی سمت باندھے، مملکت کا مزاج اور ترجیحات بدلے۔ یہاں جو دہائیوں سے ہمیں حکمرانی نصیب ہوئی‘ اُس نے قوم کے کردار اور اقدار دونوں کو تباہ کر دیا۔ یوں لگتا ہے کہ دولت کے پیچھے بھاگنے کے چکر میں پوری قوم دو نمبری پہ لگ گئی۔ جس کی پہنچ میں جو آتا ہے‘ کر دکھاتا ہے۔ چھوٹے لوگ چھوٹا ہاتھ مارتے ہیں‘ بڑے مگر مچھ بڑی وارداتیں کرتے ہیں۔ اب تو معاشرے میں حیرانی نام کی چیز کوئی رہ نہیں گئی۔ بڑے سے بڑی واردات ہوتی ہے تو لوگ بس سر ہلا دیتے ہیں۔ اسی لیے پاناما پیپرز کا اثر ایک حد تک ہوا ہے اور ایک سطح پہ جا کے رُک گیا ہے۔ ہر کوئی چونکہ ہیرا پھیری میں لگا ہوا ہے تو انٹرنیشنل قسم کی ہیرا پھیری سے کوئی خاص حیرانی نہیں ہوتی۔ ڈرائنگ روموں میں بیٹھے انگریزی بولنے والے افراد ضرور کرپشن وغیرہ کی باتیں کرتے ہیں‘ گو اُن کی اپنی زندگیوں سے پردہ اٹھے تو پتا نہیں کیا کچھ نظر آئے لیکن عام آدمی بڑی وارداتوں سے اب چونکتا نہیں۔ اُسے فکر لاحق رہتی ہے کہ میں اپنا اُلو کیسے سیدھا کروں۔ یوں دو نمبری انوکھی یا نرالی چیز نہیں رہی۔ اب قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ کوئی مسیحا آئے تو یہ حالات ٹھیک ہوں ورنہ ایسے ہی چیزیں چلتی رہیں گی۔
حدیبیہ کیس سے ہم سمجھتے تھے کہ کیا کچھ اولے نہیں برسیں گے۔ وہ بھی کھاتا ختم ہوا اور اُس کے مرکزی کردار یعنی میاں شہباز شریف المعروف خادمِ اعلیٰ وزارتِ عظمیٰ کے خوا ب دیکھ رہے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کیس میں خیال گزرتا تھا کہ چودہ لاشوں کا انصاف ضرور ہو گا لیکن وہ کیس بھی ٹھنڈا پڑتا جا رہا ہے۔ شیخ الاسلام احتجاج کی باتیں کرتے ہیں لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ اُن کی دھمکیوں پہ کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ جب حکمران دو نمبر ہوں اور احتجاج کرنے والوں پہ بھی دو نمبری کا گمان گزرے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہ تو بڑے موضوعات ہیں۔ چھوٹی چیزوں کا کیا بنے گا؟ نیو ایئر منا نہیں سکتے کیونکہ اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ روحانی تاجروں پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں بھی دو نمبری کی لت پڑ گئی ہے۔ انسان جائے تو جائے کہاں۔