"AYA" (space) message & send to 7575

بہت نئے سال دیکھے، یہ بھی دیکھ لیں گے!

جھَک مارنا اگر شخصی یا قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہو تو سالوں کے آنے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کئی روشیں ہمارے اجتماعی مزاج میں رَچ بس چُکی ہیں اور ابھی تک کوئی حکیم لقمان ایسا نسخہ ترتیب نہیں دے سکا جس سے اِن روشوں میں تبدیلی آئے۔ 
آبادی کے لحاظ سے ہم بہت بڑا ملک بن چکے ہیں‘ لیکن ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہت چھوٹے ملکوں سے پیچھے ہیں۔ حکمرانی ڈھنگ سے کرنے کا جوہر ہمارے طاقتور طبقات پیدا نہیں کر سکے۔ ہمارا نظام انگریزوں کا دیا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اُترا۔ تمام قوانین انگریزوں نے لکھے۔ ہم اُس قانونی ڈھانچے کو خراب تو کر گئے لیکن اُس میں بہتری نہ لا سکے۔ بس اسلام کے نام پہ اِدھر اُدھر پیوند کاری کرتے رہے۔ تمام ادارے سول سروس سے لے کر افواج تک انگریزوں کے تشکیل کردہ ہیں۔ پُرانی فوجی رجمنٹوں کا نام اب بھی وہی ہے جو انگریزوں نے رکھا تھا۔ دیگر ملکوں کی افواج نے کین یا سٹک کا استعمال ختم کر دیا لیکن ہمارے فوجی افسران اَب بھی انگریز دور کے کین بغل میں دبائے رکھتے ہیں۔ ادارہ وہی ہے لیکن ہم اسے اسلامی فوج کہتے ہیں۔
جناح صاحب کی عظمت کا ذکر ہم بہت کرتے ہیں لیکن ہمارے پَلے یہ بات نہیں آتی کہ جناح صاحب ہم میں سے نہیں تھے۔ جو اَب پاکستان کا مزاج ہے اُن کا ہرگز نہ تھا۔ کراچی اور انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے عملی زندگی کا آغاز بمبئی میں کیا۔ اپنی صلاحیتوں کی بناء پر بہت جلد ان کا رہن سہن بمبئی کی اَپر کلاس کا سا ہو گیا۔ اُنہی میں اُٹھتے بیٹھتے۔ لباس اعلیٰ درجے اور مغربی طرز کا پہنتے۔ لیکن لباس سے زیادہ اُن کا مزاج صاحبوں والا تھا۔ جھوٹ بولنا‘ چوری چکاری اور دیگر کمزوریاں جو ہمارے مزاج کا حصہ ہیں اُن سے وہ آشنا نہ تھے۔ اُن کا کلچر ہی مختلف تھا۔ شادی بھی اُن کی بمبئی کی اَپر کلاس پارسی فیملی میں ہوئی۔ جو اقدار اُس ماحول کی تھیں ان کے کریکٹر کا حصہ بنیں۔ مطلب یہ کہ جناح صاحب ایک خاص بیک گراؤنڈ کی پیداوار تھے۔ وہ ماحول پاکستان کا ماحول نہیں ہے۔ یہاں تو کلچر ہی اور ہے۔ چھوٹی موٹی یا بڑی چور چکاری ہمارے کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ چھوٹی یا بڑی باتوں میں جھوٹ بولنا یہاں کوئی اتنا عیب نہیں سمجھا جاتا۔ سفارش اوراقرباء پروری ہمارے اجتماعی کریکٹر کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ٹیکس چوری، ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹنا ہمارے ہاں تقریباً ثواب سمجھا جاتا ہے۔ بس 'ماشاء اللہ‘ یا 'ہٰذا من فضل ربی‘ لکھ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آسمانوں سے حساب برابر ہو گیا۔ 
اِس ماحول میں جناح صاحب جیسی لیڈرشپ کہاں سے پیدا ہو۔ پاکستان کی خوش قسمتی یا المیہ سمجھیں کہ پنجاب ہر لحاظ سے زیادہ اثر رکھنے والا صوبہ ہے، سیاست، تجارت، تعلیم نیز ہر چیز میں افضل اور نمایاں۔ پنجابیوں کے کمالات بہت ہیں۔ وارث شاہ، بلھے شاہ اور شاہ حسین یہاں سے تھے۔ بڑے سکھ گرو جو ہوئے ہیں ظاہرہے وہ سب پنجابی تھے ۔ کمان کوئی اور کر رہا ہو تو پنجابی سپاہی سے بہتر سپاہی کوئی اور نہیں۔ کندن لال سہگل کی آواز سے بہتر کس کی آواز تھی؟ محمد رفیع سے بڑا گویّا کون تھا؟ نور جہاں سے زیادہ سریلا پن کس کا تھا؟ اُستاد بڑے غلام علی خاں اِسی دھرتی سے تھے۔ کتنی دیگر گلوکارائیں ہیں اور کتنے اداکار جو یہاں پیدا ہوئے ۔ عظیم انقلابی بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھی یہیں کے تھے ۔ یہ ہم پاکستانیوں کی کم ظرفی اور تنگ دلی ہے کہ بھگت سنگھ جیسوں کو ہم اپنے ہیرو نہ مان سکے۔ شادمان چوک‘ جس کے قریب کیمپ جیل میں بھگت سنگھ کو پھانسی ہوئی‘ ان کے نام سے منسوب ہونا چاہیے تھا۔ گلبرک میں ہم نے یہ کیا نام لبرٹی چوک رکھ دیا ہے ۔ کہاں اور کس کی لبرٹی؟ یہ نور جہاں چوک ہونا چاہیے تھا‘ جس کے سامنے نور جہاں کی رہائش تھی‘ جہاں پر اب ایک شاپنگ مال بنا ہوا ہے ۔ ریڈیو پاکستان کے سامنے والی سڑک سہگل کے نام سے ہونی چاہیے۔ لیکن یہ سب تب ہو جب دل اور ذہن کُشادہ اور کم ظرفی پیچھے کو رہ جائے۔ 
اوپر لیے گئے نام اگر پنجاب کی صلاحیتوں کی نشانی ہیں تو یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ پنجاب کی کوتاہیاں بھی بہت ہیں ۔ سوائے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کو تاریخ کے اوراق میں کبھی حکمرانی کا تجربہ نہ ہوا۔ تو شاید یہ عجب نہیں کہ پنجاب کو جو پاکستان کی حکمرانی کی ذمہ داری قدرت کی طرف سے ملی ہے‘ وہ ڈھنگ سے پوری نہیں ہو رہی۔ پنجاب میں یہی حکمران پیدا ہو سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ جناح صاحب جیسا لیڈر کہاں سے آئے؟ وہ ماحول ہی دستیاب نہیں جس سے ایسی کرامات پھوٹ سکیں۔ 
سالِ گزشتہ ضائع گیا۔ ہم جیسے جو اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ تبدیلی کی یہ صورت پیدا ہو گی یا وہ ہو جائے گا‘ ان امکانات کی راہ تکتے رہ گئے۔ چنگاری تو لگی پر بھڑک نہ سکی ۔ اقتدار کے ایوان ہلے پر اپنی جگہ قائم رہے۔ سو عجب منظر دیکھنے کو ملا کہ تبدیلی کی بجائے سٹیٹس کو (status quo) مضبوط ہوتا گیا۔ میاں نواز شریف نااہل ہوئے‘ نظام تو نااہل نہیں ٹھہرا۔ حکومتوں کے آنے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ نظام میں تبدیلی آئے۔ حالات بدلیں، کوئی سوشل ریفارمز ہوں۔ دولت کے ارتکاز میں فرق پڑے، تعلیم اور صحت پہ توجہ دی جائے، ایوانانِ اقتدار میں جھوٹ اور فریب کاری کا کم عمل دخل ہو۔ انصاف کا حصول کمزور اور لاچار طبقات کے لئے نسبتاً آسان ہو ، مملکت میں پھیلی ہوئی گندگی کا قدرے ازالہ ہو، امیر طبقات کی ٹھاٹ باٹ میں کمی ہو اور وسیع تر عوام کو نظام میں کوئی حصہ یا سٹیک ملے... تب تو بات بنی۔ لیکن ایک جُگادری آئے اور اُس کی جگہ کوئی اور لے لے اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
ہمارے اخبارات اور میڈیا میں جو موضوعات ڈسکس ہوتے ہیں اُن کا عوام کی روزمرّہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ انتخابات وقت پہ ہوں اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں‘ بہت اچھی چیزیں ہیں۔ جمہوریت کا راج ہونا چاہیے اور فوجی مداخلت ہمیشہ کے لئے ختم ہونی چاہیے۔ سویلین بالا دستی کا حصول مستحکم ہونا چاہیے۔ بڑی اچھی باتیں ہیں۔ لیکن اس چیز کا اہتمام کون کرے گا کہ تھانوں میں ظلم نہ ہو، پٹواری راشی نہ ہوں اور غربت کی ماری عورتیں حالات سے تنگ آکر اپنی جانیں نہ لیں؟ جو ملک اپنے آپ کو اسلامی کہے‘ اُس میں تعلیم اور صحت کا نظام ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ 1973ء کا آئین بنیادی حقوق کے ذکر سے بھرا ہوا ہے۔ یہ سب باتیں ہیں ۔ اس ملک کی آسائشیں اشرافیہ کے لئے ہیں عوام کے لئے نہیں۔ ہم نعروں سے نکلیں کچھ حقیقت کو پہچانیں۔
تو نیا سال کیا لائے گا؟ وہی گھسی پٹی باتیں ، وہی نعرے جن کو سُن سُن کے کان پک چکے ہیں، وہی چہرے جن کو دیکھ دیکھ کے نظریں اُکتا گئی ہیں۔ مسائل ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن اُن کو حل کرنے کے لئے نئے لیڈر آتے ہیں‘ نئی تدبیریں سوچی جاتی ہیں۔ ہماری ایسی کھوٹی قسمت ہے کہ کوئی نئی چیز سامنے نہیں آ رہی۔ چہرے چھوڑیں کوئی نئے افکار تو ہوں۔ افکار نہیں تو نئے الفاظ ہی سہی۔ اب تو اخبارات پڑھنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ دیگر قومیں نئے سال کی شام اور اگلے دن فلسفے بیان نہیں کرتیں۔ رونق مناتی ہیں، وہاں کے لوگ بلا تمیزِ رنگ و نسل گلے ملتے ہیں اور خوب دھوم مچتی ہے ۔ ہمارے ہاں خوشی کے کمزور سے اظہار پہ پہرے لگ جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں