"AYA" (space) message & send to 7575

اختتام کی شروعات ؟

جیسا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے Beginning of the end۔ مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ (Arab Spring) کا آغاز تونیسیا کے ایک ٹھیے والے کی خود سوزی سے ہوا۔ پھر آگ بھڑکی اور پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ قصور کا واقعہ کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ قصور میں تو احتجاج کے شعلے بھڑکے لیکن پورا ملک بھی ہل کے رہ گیا۔ غم و غصہ اور سوالیہ نشان اس طرز حکمرانی پہ اٹھے ہیں جس میں طاقت کے تمام ذریعوں پہ مخصوص طبقات کا قبضہ ہے اور عام آدمی کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ 
حکمرانوں کی طرف سے مذاق دیکھیے۔ حسبِ روایت پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے قصور میں مرنے والوں کی لاشوں کی قیمت کا تعین کر دیا اور زینب کے گھر والوں سے صبح کے چار بجے ملنے گئے۔ اس سے ان کی دلیری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قصور میں لیگی ممبران اسمبلی کے ڈیروں پہ بپھرے عوام نے حملے کیے ہیں۔ دن کی روشنی میں خادم اعلیٰ اگر وہاں جاتے تو اُن کے ساتھ بھی کچھ نہ ہو جاتا۔ لہٰذا انہوں نے عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔ شو بازی اور فنکاری میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ طویل دورانیۂ اقتدار میں کوئی ڈھنگ کا کام کیا ہوتا تو پنجاب پولیس کی یہ حالت نہ ہوتی۔ بڑے سے بڑے سانحات اور وارداتیں ہوتی ہیں‘ اور ایک ہی رد عمل سامنے آتا ہے، ایک دو افسران کے تبادلے، مگرمچھ کے آنسو اور لاشوں کی قیمت کا درد سے بھرپور اعلان۔ ماڈل ٹاؤن سانحے میں تو یہ بھی نہ ہوا۔ کیونکہ حکومت خود ملوث تھی اس لئے کمال ہنر مندی سے سارے واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ البتہ لگتا ہے‘ قصور کا واقعہ ایسے دبایا نہ جا سکے گا‘ اور شاید اس چنگاری کی مانند ثابت ہو جس سے بڑی آگ بھڑک سکتی ہے۔
یہ امر مذاق سے کم نہیں کہ لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے میں پولیس کا کردار صفر ہے‘ لیکن جاتی امرا کی حفاظت پہ سینکڑوں پولیس اہلکار مامور ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کہیں سفر کرتے ہیں تو گمان ہوتا ہے کہ ہلاکو خان کی فوج کہیں جا رہی ہے۔ گاڑیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ریاست کے وسائل پہ قابض ہیں اور ان کا بے دریع استعمال جاری ہے۔ اس صورتحال میں پولیس نے خاک کام کرنا ہے۔ حکمرانوں کو خوش رکھو اور نمبر بناؤ، یہی پولیس اور انتظامیہ کا کام رہ گیا ہے۔ 
لیکن میڈیا پہ ان کا اثر دیکھیے کہ یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب ہیں کہ شہباز شریف بلا کے منتظم ہیں۔ اَب کی بار 2008ء سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حاکم ہیں۔ ایک شعبہ تو بتائیں جس میں بہتری آئی ہو۔ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا حال ہمارے سامنے ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی سے ہم سب واقف ہیں۔ اشتہار بازی کے بہرحال ماسٹر ہیں۔ فلائی اوورز اور انڈر پاسز پہ زور ہے۔ تین شہروں میں میٹرو بسیں بنا کے سمجھا جا رہا ہے کہ انقلاب لے آئے ہیں۔ اورنج لائن ٹرین نے لاہور میں تباہی پھیلا دی ہے۔ یہ مفت کے پیسے نہیں چینی قرضے سے یہ منصوبہ بن رہا ہے اور قوم کو پیسہ مع سود واپس کرنا ہو گا۔ 
نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ مختلف مقدمات میں بھاری فیسیں ادا کرکے اُنہیں اب اندازہ ہوا ہے کہ ملک میں حصول انصاف کتنا مہنگا ہے۔ پہلے پتہ ہوتا تو نظامِ عدل میں اصلاحات لے آتے۔ یہ بیان مذاق سے کم نہیں۔ کب سے مسندِ اقتدار پہ براجمان ہیں اور بنیادی حقیقتیں اِن پہ اب عیاں ہو رہی ہیں۔ یہ ان کی روایتی سادگی ہے بالکل ویسے‘ جیسے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اُنہیں ماڈل ٹاؤن کے واقعے کا صبح ٹی وی دیکھ کے علم ہوا۔ اُن کے پڑوس میں چودہ لوگ بشمول دو خواتین پولیس گولیوں سے ہلاک ہوتے ہیں، سو کے لگ بھگ زخمی اور وزیر اعلیٰ بے خبر ہیں۔ یہ مان بھی لیا جائے تو اُن سے بڑا نااہل وزیر اعلیٰ کوئی ہو سکتا ہے؟ اور کسی چیز کی نہیں تو وہ نااہلی کی سزا کے مستحق بنتے ہیں۔ 
حکمرانی اور جمہوریت کے نام پہ عجیب ڈرامہ ملک میں چل رہا ہے۔ لیکن کب تک؟ عرب سپرنگ کے دیرپا اثرات نہیں ہوئے اور مشرق وسطیٰ مجموعی طور پہ ویسے ہی ہے جیسے عرب سپرنگ سے پہلے تھا۔ شاید حالات زیادہ بدتر ہیں۔ مصر ڈکٹیٹرشپ کی لپیٹ میں پھر سے ہے۔ لیبیا میں انارکی کا راج ہے اور شام کو طویل خانہ جنگی سے گزرنا پڑا۔ لیکن جب شورش کا آغاز ہوا تو لگتا تھا پورے علاقے کا نقشہ بدل کے رہ جائے گا۔ پاکستان میں حالات شاید اُس طرف نہ جا رہے ہوں‘ لیکن آثار خطرناک ہیں۔ قصور کے واقعات بتاتے ہیں کہ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے تو کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ تحریک لبیّک یا رسول اللہ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس طرف ایک اشارہ ہے کہ پسے ہوئے عوام حالات سے تنگ ہیں۔ تحریک کے نعرے جو بھی ہوں پیچھے عوام کا غصہ اور بیزاری ہے۔
خطرے کی اگلی گھنٹی پاکستان عوامی تحریک کا سترہ جنوری کا اعلان کردہ احتجاج ہے۔ پہلے جو بھی صورت ہوتی‘ قصور کے واقعات سے عوامی تحریک کے احتجاج کو زور ملے گا۔ دیکھنا لیکن یہ ہے کہ اَب کی بار ڈاکٹر طاہرالقادری کتنے پُر عزم اور سنجیدہ ہیں۔ اگر اُن کے ورکر اور وہ خود واقعی کمر کَس لیتے ہیں تو پنجاب حکومت جو کہ لیگی حکمرانی کا اصل مرکز ہے‘ خطر ے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے رویے پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اگر اپنی انا پہ ذرا کنٹرول کر سکیں اور عوامی تحریک کے احتجاج میں بلا چُوں و چرا بھرپور شرکت کریں‘ تو کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ اقتدار کے ستون ہل سکتے ہیں۔ باقی لیڈران کا علامتی کردار ہے جو اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن فیصلہ کن رول PAT کے ورکر اور عمران خان کا ہو گا۔ عمران خان عوامی لیڈر بن چکے ہیں۔ انہیں یہ ثابت نہیں کرنا۔ اب وہ پیچھے بھی کھڑے ہوتے ہیں تو اُن کی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔ آنے والا یہ احتجاج اُن کے لئے ایک بڑے امتحان کا درجہ رکھتا ہے کہ واجبی سا حصہ ڈالتے ہیں یا دل و جان سے شامل ہوتے ہیں۔ 
یہ ہم نے کیا رَٹ سینیٹ کے الیکشن کی لگائی ہوئی ہے؟ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آیا جمہوریت کے نام پہ ڈرامہ بازی کی بجائے اس ملک کو قدرے سلجھی ہوئی قیادت نصیب ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یہ ایسی جمہوریت ہے کہ بڑے سے بڑے سکینڈلز کو نگل جاتی ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ نواز شریف خاندان نے بیش بہا دولت اکٹھی کی ہے لیکن پانامہ پیپرز کا کیا بنا، نواز شریف کی نااہلی کے بعد یوں لگتا ہے سب کچھ رُک کے رہ گیا‘ اور نواز شریف دندناتے پھرتے ہیں کہ ججز نے تعصب دکھایا‘ اور اُنہیں ناحق سزاوار ٹھہرایا۔ اور تو اور حدیبیہ کیس میں بھی شریف خاندان بالخصوص خادم اعلیٰ اور اسحاق ڈار کو کلین چٹ مل گئی۔ ماڈل ٹاؤن کیس کا کچھ نہیں بن پا رہا۔ ایئر مارشل اصغر خان اللہ کو پیارے ہو گئے لیکن اُن کی 1990ء کے انتخابات میں شریفوں کو آئی ایس آئی کا پیسہ ملنے سے متعلق پٹیشن کا کچھ نہ بنا۔ مرحوم ایئر مارشل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ اُن کی عمر میں ہی پٹیشن کا فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس افتخار چوہدری نے فیصلہ دے دیا‘ لیکن اس عظیم سکینڈل میں ملوث کرداروں کا بال بیکا نہ ہوا۔ یہ ہے ہمارے ہاں انصاف اور جمہوریت کا حال۔ بہرحال یہ مہینہ بتائے گا کہ آیا ہمارے حالات میں بہتری آ سکتی ہے یا ایسے ہی چلتا رہے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں