ایک بات یقینی ہے، قائد اعظم کے پاکستان میں حدود آرڈیننس کی کوئی جگہ اور گنجائش نہ ہوتی۔ کوئی ایسے قانون کی تجویز دیتا تو اُسے سختی سے ڈانٹ دیا جاتا کہ ملک کی ترقی کا سوچو، فضول باتوں میں وقت ضائع مت کرو۔
قائد کا پاکستان ایک سال ہی رہا، قیام پاکستان سے اُن کی وفات تک۔ اُس کے بعد آئین ساز اسمبلی کچھ اور کرنے کی بجائے مذہب کی بحثوں میں اُلجھ گئی اور اُس کا نتیجہ قراردادِ مقاصد کی صورت میں نکلا۔ آئین بن نہ سکا‘ لیکن مقاصدِ ریاست بیان کر دئیے گئے۔ کسی مزدور یا کسان سے پوچھا جائے کہ اُن مقاصد کی تشریح سے اُسے کیا فائدہ پہنچا۔
اُس وقت کراچی شام کی تفریح گاہوں سے بھرا پڑا تھا... پیلس، ایکسلسیئر (Excelsior)، میٹروپول وغیرہ۔ کہیں سے آواز نہ اُٹھی کہ یہ جگہیں بند کی جائیں۔ حتیٰ کہ اُن علمائے کرام‘ جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالف کی تھی اور پھر کمریں کَس کے مذہب کے علمبردار بن گئے تھے‘ کی طرف سے بھی یہ مطالبہ نہیں آیا کہ اُن تفریح گاہوں پہ تالے لگا دئیے جائیں۔
اُس وقت کا پاکستان، پاکستانی مزاج کی صحیح عکاسی کرتا تھا۔ مذہب سے عقیدت بیشک تھی لیکن آج کی منافقت سے معاشرہ بہت حد تک پاک تھا۔ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پہ قبضے ضرور ہونے شروع ہو گئے تھے لیکن مذہب کی بنیاد پہ منافقت‘ جو آج کے پاکستان کی تقریباً نشانی بن چکی ہے‘ اتنے زوروں پہ نہ تھی۔ مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے... ایسا معاملہ تھا۔ کراچی بھی وہی عکس پیش کرتا تھا جو صدیوں سے لاہور کرتا آ رہا تھا: ایک طرف بادشاہی مسجد اور پہلو میں بازار حُسن۔ نہ اسلام خطرے میں تھا نہ پاکستان کو ایٹم بم کی ضرورت تھی۔
آنے والا سالوں میں جو پاکستان کی جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں کا حال ڈنڈا بردار اسلام کے ہاتھوں ہوا وہ قائد کے پاکستان میں ناممکن ہوتا۔ قائد اعظم تو سرے سے یہ برداشت نہ کرتے اور ڈنڈا بردار اسلام کے بانیوں سے کہا جاتا کہ مہربانی فرما کے ہندوستان کے جس حصے سے آپ ہجرت کر کے آئے ہیں وہی تشریف لے جائیں۔ پاکستان کی بجائے ہندوستان کو آپ کی خدمات کی زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان کا انوکھا المیہ رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ ننانوے فیصد آبادی نہ صرف مسلمان بلکہ پیدائشی مسلمان ہے اسے بارہا پھر سے مسلمان کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔
پاکستان مسلم علیحدگی پسندی کی بنیاد پہ معرضِ وجود میں آیا تھا۔ یہ تاریخی عمل ظہور پذیر ہو گیا تو مذہب کی بحثوں کو ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ قومی توجہ ملک کی ترقی اور خوشحالی پہ مرکوز ہونی چاہیے تھی۔ انگریز ورثے میں جو کچھ ملا تھا اُسے بہتر بنانے کی ترکیبوں پہ غور کرنا چاہیے تھا۔ اِس کی بجائے ایک طرف قوم کو فضول بحثوں میں اُلجھا دیا گیا اور دوسری طرف نوکر شاہی اور جاگیرداروں کا اقتدار پہ غاصبانہ قبضہ مضبوط ہوتا گیا۔ عوامی اُمنگیں کچلی جاتی رہیں۔ ہمارے بنگالی بہن بھائی بہت سی چیزوں سے ناخوش تھے۔ اُن کے خیال میں اُن کے وسائل اوروں کے فائدے کیلئے استعمال ہو رہے تھے۔ اُردو کے تسلط سے بھی اُنہیں شکوہ تھا۔ اِن ساری چیزوں سے اُن کے دلوں میں ایک احساس محرومی پیدا ہوا۔ اُس کا کچھ کرنے کی بجائے نظریہ پاکستان کے خود ساختہ ٹھیکیدار یہ کہنے لگے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں پہ ہندو سوچ اور کلچر کا اثر ہے۔
قائد کا پاکستان امریکہ کی جھولی میں کُود کے نہ بیٹھ جاتا۔ یہ سکندر مرزا، جنرل ایوب خان اور مغربی پاکستان کے سرکردہ راہنماؤں کا کارنامہ تھا کہ پاکستان امریکہ نواز دفاعی معاہدوں میں جا کے پھنس گیا۔ قائد اعظم ایسا نہ ہونے دیتے۔ اور جو شورش کمیونسٹوں کے قبضۂ اقتدار کے بعد افغانستان میں برپا ہوئی کچھ اور قسم کا پاکستان اس میں نہ فریق بنتا نہ امریکی سی آئی اے (CIA) کا آلہ کار۔ روسی افواج کی افغانستان میں مداخلت کی مذمت ضرور ہوتی‘ لیکن ہوش میں رہنے والا پاکستان وہ رول ادا نہ کرتا جو ضیاء الحق کے پاکستان نے کیا اور جس سے ملک و قوم کو اتنا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔
ریاست کے معاملات صحیح چلائے جاتے تو جنرل ایوب خان جیسے شخص کو آٹھ سال کی طویل مدت کیلئے فوج کے کمانڈر ان چیف کے طور پہ برداشت نہ کیا جاتا۔ جنرل یحییٰ خان جیسا رنگیلا بھی فوج کا سربراہ نہ مقرر ہوتا اور جنرل ضیاء الحق کبھی بریگیڈیئر کی پوزیشن سے اُوپر نہ جا سکتے۔
تقسیم‘ اور کشمیر میں جنگ کی وجہ سے بھارت سے تعلقات شروع ہی سے کشیدہ تھے۔ لیکن یاد رہے کہ اوائل کے سالوں میں ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا کہ کسی تقریب میں شرکت کیلئے وزیر اعظمِ ہند جواہر لال نہرو دہلی میں پاکستانی سفارتخانے تشریف لائے۔ موقع ایسا بھی آیا کہ ہندوستان کی پبلک ڈے پریڈ میں مہمان خصوصی پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کشیدگی کے باوجود ہندوستان اور پاکستان میں بہت حد تک معمول کے تعلقات قائم رہے۔
حالات کا اصلی بگاڑ 1965ء کی جنگ سے ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان کھڑی دیواریں‘ جو ہم آج دیکھتے ہیں‘ وہ تب تعمیر ہوئیں۔ کشمیر کا مسئلہ تب بھی تھا اور اب سے کہیں زیادہ زندہ حالت میں‘ لیکن دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ وقتاً فوقتاً کشمیر پہ بات چیت کرتے اور ہم ہر موقع پہ بین الاقوامی فورمز پہ کشمیر کا ذکر کرتے۔ نفرتوں نے وہ زور نہیں پکڑا تھا جو آج کل ایک تلخ حقیقت بن چکا ہے۔ 1965ء کی جنگ نے سب کچھ بدل دیا۔ صحیح معنوں میں پاکستان نے جو نیشنل سکیورٹی سٹیٹ کا روپ دھارا تو وہ اِس جنگ کے بعد تھا۔
پڑھایا تو ہمیں یہ جاتا ہے کہ سفاک دشمن نے رات کی تاریکی میں ہم پہ حملہ کیا۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مداخلت ہم نے شروع کی۔ یہ کوئی اتنا سوچا سمجھا منصوبہ بھی نہ تھا۔ جی ایچ کیو کے لیول پر اس پہ کوئی پلاننگ نہ کی گئی۔ چند جرنیل اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ جو کشمیر میں چڑھائی کے بڑے حامی تھے۔ ائیر فورس کے کمانڈر ان چیف ائیرمارشل نور خان اس سارے منصوبے سے بے خبر تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے چند جرنیلوں نے کارگل کا منصوبہ بنایا اور تب کے ائیر فورس چیف ائیر مارشل حکیم اللہ اور باقی کے کور کمانڈر سارے ایڈونچر سے بے خبر تھے۔ یہ ضرور ہوا کہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ہندوستان نے لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پہ حملہ کیا۔ لیکن سارے معاملے کی پہل ہماری تھی۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سویلین بالا دستی اگر صحیح معنوں میں قائم رہتی تو 1965ء کی جنگ جیسا معرکہ پاکستان کے گلے کبھی نہ پڑتا۔ یہ اور بات ہے کہ کارگل کے وقت سویلین بالا دستی اصول کی حد تک قائم تھی لیکن تب کے وزیر اعظم جو کہ نواز شریف ہی تھے‘ اتنے بے خبر نکلے کہ جنرل مشرف نے وہاں کارروائی شرو ع کر دی اور انہیںکچھ پتہ نہ چلا۔ بعد میں وزیر اعظم کو بریفنگ دی گئی‘ لیکن وزیر اعظم آرمی چیف سے پوچھ نہ سکے کہ تم نے یہ کیا شروع کیا ہے اور کس کی اجازت سے۔ جنرل مشرف کو نکالنے کا وقت تب تھا لیکن نواز شریف وہ موقع ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ چند ماہ بعد جب نکالنے کا سوچا تو اپنا ہی تختہ اُلٹا بیٹھے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔
اسلام آباد ایک شہرِ بے مقصد ہے، نہ کوئی تجارت نہ انڈسٹری، نہ آمدورفت کا مرکز۔ کس عظیم مقصد کیلئے پاکستان کا دارالخلافہ چنا گیا‘ ابھی تک واضح نہیں۔ جنرل ایوب‘ جو خود ہی فیلڈ مارشل بن بیٹھے‘ اقتدار پہ قبضہ نہ کرتے تو پاکستان اسلام آباد کی فضول خرچی سے بچ جاتا۔
آخری بات۔ حکومتی سطح پہ لوٹ مار اور بیرون ملک جائیدادیں بنانا قائد کے پاکستان میں ناممکن ہوتا۔