ڈکٹیٹر کیا تھا، اُس کی نشانیاں ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ آج کل کے پاکستان کا تصور ٹی وی چینلوں کی بھرمار کے بغیر ناممکن ہے۔ پاکستان میں شام ان چینلوں کے بغیر گزر نہیں سکتی۔ کسی جمہوریت پسند کی نہیں یہ دَین ڈکٹیٹر کی تھی۔
ہمارے جمہوری لیڈروں میں کبھی ہمت نہ ہوئی کہ ٹی وی کیمروں کے سامنے لائیو آ سکیں۔ ہمیشہ اپنی تقریریں ریکارڈ کرایا کرتے تھے اور کبھی لائیو پریس کانفرنس کی جسارت نہ کی۔ یہ ڈکٹیٹر تھا جس نے پہلی بار ٹی وی کیمروں کے سامنے آنے کی ہمت کی۔ اُسی ڈکٹیٹر نے قوم کو پاکستان ٹیلی ویژن کے نرغے سے آزاد کرایا اور پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی اجازت دی۔ آج کل کے ٹی وی اینکروں، مردانہ و زنانہ کے برانڈڈ قسم کے ملبوسات اُسی اجازت کے مرہون منت ہیں۔ ٹی وی چینل نہ آتے تو میدان صحافت پہ پہلے کی طرح غربت یا کم از کم لاچاری کے گہرے سائے چھائے رہتے‘ اور اینکروں کی جو کھیپ ہر شام قوم کو مختلف موضوعات پہ درس دیتی ہے‘ وجود میں نہ آتی۔
کئی بار عرض کیا، پھر کرنے کی ہمت کر رہا ہوں۔ ہم صحافیوں نے ایک افسانہ تراشا ہوا ہے کہ میڈیا کو جو آج آزادیاں حاصل ہیں وہ ہم نے زورِ بازو یا چینی انقلاب جیسی کسی جدوجہد کی وجہ سے حاصل کیں۔ حقیقت میں کوئی قلعہ فتح کر کے یہ آزادیاں نصیب نہ ہوئیں۔ اخبارات کی آزادی کو ایک طرف رکھیے، اُس کے پیچھے لمبی داستان ہے۔ چینلوں کی اجازت ڈکٹیٹر نے طشتری پہ رکھ کے پاکستانی صحافت کو دی اور یوں ماڈرن پاکستانی میڈیا وجود میں آیا۔ تشکّر کے طور پہ بحیثیت مجموعی تمام اینکروں کو سال میں کم از کم ایک بار اس حقیقت کو کسی موزوں جگہ پہ اکٹھے ہو کر تسلیم کرنا چاہیے۔
ڈکٹیٹر ہی نہیں اُس کی ق لیگ‘ جو اُس وقت کنگز پارٹی تھی‘ کی نشانیاں بھی ہر طرف نظر آتی ہیں۔ حکمرانی کی چوٹیوں سے (ق) لیگ گئی مگر اب بھی مختلف رُوپوں میں اُس کا وجود زندہ ہے۔ نواز شریف اور عزیزم مریم نواز کا ٹھاٹھیں مارتا پشاور جلسہ سارا مرحوم ق لیگ کا شو تھا۔ جلسے کے روحِ رواں امیر مقام تھے اور اگر کمزور حافظوں پہ زور دیا جائے تو شاید یاد ہو ذرا ذرا کہ وہ جنرل مشرف کے چمکدار ترین ستاروں میں سے تھے۔ جنرل صاحب کی قربت کے بغیر وہ رہ نہ سکتے اور جیسے آج ہاتھ اُٹھا اُٹھا کے نواز شریف کی عظمتوں کا ذکر کرتے ہیں‘ اُس بھولے بسرے زمانے میں بھی زیادہ والہانہ انداز میں یہی کرتے۔ قربت کا اندازہ یوں لگائیے کہ امیر مقام پہ ایک طالبان حملے کے بعد جنرل مشرف نے اُنہیں گلاک (Glock) پستول بطور تحفہ دیا تھا، اس تلقین کے ساتھ کہ ایمرجنسی میں کام آئے گا۔ اپنی تمام تر سکیورٹی کے باوجود جنرل مشرف بھی اپنے پیروں کے قریب گلاک پستول رکھتے تھے۔
امیر مقام کے علاوہ آج کل (ن) لیگ کے سب سے زیادہ چہکتے ہوئے سرخیل کون ہیں؟ قوم اُن کے ناموں سے آگاہ ہے، طلال چوہدری اور دانیال عزیز۔ یہ کہاں کی پیداوار ہیں؟ (ن) لیگ کے پُرانے اصطبلوں میں اِن کا نام و نشان نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سیاسی ڈگریاں (ق) لیگ سے حاصل کیں۔ دانیال عزیز تو اپنے آپ کو پورے ضلعی نظام کا بانی سمجھتے تھے اور جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج طلوع ہو چکنے کے بعد بہت عرصے تک ضلعی نظام کا پرچار کرتے رہے۔ 2013ء کے انتخابات سے عین پہلے نواز شریف کی عظمتوں کا راز اُن پہ کھلا اور آناً فاناً اپنا پرانا سیاسی سامان ایک طرف رکھتے ہوئے (ن) لیگ میں شامل ہو گئے۔ بہت عرصے تک پیچھے کی صفوں میں رہے لیکن پانامہ پیپرز کا حادثہ ہونا تھا کہ ان کو اور دوسرے سرخیل طلال چوہدری کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا نادر موقع مہیا ہوا۔ پھر وہ ایسے آگے آئے کہ بہت سے پرانوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور پانامہ پیپرز کے ہنگام اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دونوں کو وزارتوں سے نوازا گیا۔
حاسد تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جب بطور چیف منسٹر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی جڑانوالہ کے دورے پہ آئے تو گاڑی کے سامنے جوان اور خوبرو طلال چوہدری بھنگڑا نما استقبال کر رہے تھے۔ طلال اِس رُوداد کے سختی سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ بھنگڑا جیسی چیز اُن کے خلاف پروپیگنڈا ہے‘ لیکن اس بات کے انکاری نہیں ہو سکتے کہ پرویز الٰہی کے والہانہ استقبال میں شامل تھے۔
آج یوں لگتا ہے کہ امیر مقام، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی پیدائش ہی (ن) لیگ میں ہوئی تھی۔ کبھی اِدھر اُدھر نہیں بھٹکے۔ ویسے تو (ن) لیگ کی قومی اسمبلی میں نشستیں سابقہ (ق) لیگیوں سے بھری پڑی ہیں۔ کس کس کا نام لیا جائے، میرے دوست زاہد حامد سے لے کر رضا حیات ہراج تک۔ پورے نام درج کریں تو کالم کی جگہ ختم ہو جائے۔
ایک کسر رہ گئی تھی اور وہ میرے دوست مشاہد حسین سید نے پوری کر دی ہے۔ پڑھے لکھے تو ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ ہونہار بھی ہیں۔ کچھ عرصہ ہی ہوا کہ وہ نا صرف (ق) لیگ میں تھے بلکہ اُس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ چوہدریوں نے ترلے مار کے اُنہیں سینیٹر بنوایا تھا‘ لیکن اب جمہوریت کو درپیش خطرات کے پیش نظر مشاہد حسین نے قومی مجبوری اور فریضہ سمجھا ہے کہ وہ واپس (ن) لیگ میں جائیں اور تاریخ کے اس نازک موقع پر نواز شریف صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں۔ لیگیوں نے بھی کہا ہے کہ وہ اِن کی پارٹی کے لئے اثاثہ ثابت ہوں گے۔ جب (ن) لیگ میں پہلے شامل ہوئے تھے تو اُن کے دو تکیہ کلام تھے ''میاں صاحب، فرنٹ فُٹ پہ کھیڈو‘‘ اور ''کڑاکے کڈ دیاں گے ‘‘۔ اُمید ہے کہ اب کی بار دونوں قیمتی ارشادات سے اجتناب کریں گے۔ میاں صاحب نے مزید کڑاکے کڈنے کی کوشش کی تو اپنا کڑاکا ہی نہ نکل جائے۔ مشاہد ذہین اور قابل انسان ہیں۔ ضرور کچھ اور ٹوٹکے جلد ہی تلاش کر لیں گے۔ ایک کا اشارہ اُنہوں نے ابھی سے دے دیا ہے کہ ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ نواز شریف صاحب کا ساتھ دیا جائے۔ یہی بنیادی فلسفہ آج کل (ن) لیگ کا ہے‘ جس کا اعادہ خوبصورت انداز میں شاہ صاحب نے کر دیا ہے۔
نثار علی خان بڑے بنتے تھے۔ کہاں گئے وہ؟ اب (ن) لیگ پہ صحیح معنوں میں قبضہ (ق) لیگیوں کا ہو گیا ہے۔ چوہدری صاحبان، جناب شجاعت حسین اور پرویز الٰہی، سوچتے تو ہوں گے... کن کن کو ہم نے ٹریننگ دی اور کیسے بدبخت نکلے۔ ایسے کاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ نواز شریف کی حسِ مزاح بہت تیز ہے۔ کئی دفعہ وہ پارٹی اجلاسوں میں آدھی سی مسکراہٹ سے فرما چکے ہیں کہ یہ جو نعرہ آپ لگاتے ہیں ''قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ تو جب اقتدار گیا اور میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو کوئی ساتھ نہ تھا۔ 2002ء کے الیکشن میں پنجاب کے بہت سے حلقوں میں (ن) لیگ کو اُمیدوار ہی دستیاب نہ ہوئے، اُس کے ٹکٹ کی قیمت اتنی گر چکی تھی۔ 2008ء تک حالات بدل چکے تھے۔ جنرل مشرف کا آفتاب غروب ہونے کو تھا اور (ق ) لیگ ایک بُرا نام بن چکی تھی۔ بہت سارے سیانے‘ جو کل (ق) لیگ کے چوٹی کے پہلوان تھے‘ راہ نجات تلاش کرتے ہوئے (ن) لیگ کی طرف آ رہے تھے اور انتخابات میں اُس کی ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ بات تو پھر وہی ہے، (ق) لیگ گئی مگر درخشاں نشانیاں ہر طرف موجود ہیں۔
نواز شریف درست کہتے ہیں کہ وہ نظریاتی ہو گئے ہیں۔ اُن کا نیا اور انقلابی نظریہ یہ ہے کہ پاجامہ ہونا چاہیے، جہاں فٹ ہو کام چلا لیا جائے۔ اب وہ ہر پاکستانی کو گھر بھی دینے جا رہے ہیں اور ستیاناس ہو پانامہ فیصلے کا وگرنہ اب تک ملک سے بے روزگاری ختم ہو چکی ہوتی۔