ایک مسئلہ ہو تو بات کریں۔ مملکت ہماری مسائل اور دُکھوں میں گھری ہے، کچھ مسائل دنیاوی نوعیت کے اور کچھ ایسے ہیں‘ جن کا تعلق پرلے درجے کی روحانیت سے جا ملتا ہے۔ مسلمان مملکت ہے اور ننانوے فیصد آبادی مسلم عقیدہ رکھتی ہے۔ لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں بہت سارے طبقات اس معاشرے میں ایسے ہیں‘ جن کی نظر میں ہمارا اسلام ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ آئے روز دین کے کسی نہ کسی پہلو پہ کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اہلِ ایمان کو باور کرایا جاتا ہے کہ اگر وہ چوکنّا نہ رہے تو دین کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
آئین ہمارا اسلامی دفعات سے بھرا پڑا ہے لیکن پھر بھی مذہبی قاعدوں کے محافظ اور اسلام کے خُود ساختہ ٹھیکے دار‘ جن کی یہاں کوئی کمی نہیں‘ کہتے نہیں تھکتے کہ قاعدے اور ضابطوں کو مزید اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔
کچھ مسائل اور بھی حساس نوعیت کے ہیں۔ نیا سال آئے تو وفا شعار طبقات کو بخار چڑھ جاتا ہے کہ کہیں نئے سال کی تقریبات‘ جو باقی دُنیا میں عام ہوتی ہیں‘ یہاں نہ منا لی جائیں۔ اُن کے نزدیک نئے سال کی آمد کی خوشی یا فکر میں کچھ شور و غُل برپا کیا جائے تو وہ ہمارے دین کے اَبدی اصولوں سے سَراسر انحراف ہے۔ لہٰذا ایسے طبقات کے نوجوان پیروکاروں کا یہ عزم ہوتا ہے کہ کہیں ایسی تقریبات منعقد نہ ہوں‘ اور اگر کسی نے غلطی سے خوشی یا فکر کا اظہار کر لیا تو نوجوان پیروکار اپنا مشن سمجھتے ہیں کہ ایسی تقریبات کا حشر نشر کر دیا جائے‘ چاہے اس اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے ڈنڈوں اور دیگر اسی قسم کی اشیا کا بھرپور استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
ایسی روش کو ڈنڈا بردار اسلام بھی کہا جا سکتا ہے اور اِسے پروان چڑھانے میں چند مخصوص طلبا تنظیموں نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ جن جامعات میں ایسی طلبا تنظیموں کا زور رہا ہے وہاں پہ سب سے بڑا خطرہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آپس میں قریب آنا سمجھا جاتا ہے‘ چاہے یہ قربت کتنی ہی معصومانہ کیوں نہ ہو۔ اِس ضمن میں اگر کوئی کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے بھاری قیمت چُکانا پڑتی ہے۔ اِ ن سے کوئی پوچھے کہ مار دھاڑ کے عمل کا دین سے کیا واسطہ ہے۔ پاکستانی تعلیم کا ستیاناس ہونے میں بہت سے عوامل گنوائے جا سکتے ہیں‘ لیکن اِس بربادی میں اس ڈنڈا بردار اسلام کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انہی روشوں کے اظہار سے اچھی بھلی جامعات تباہ ہو کے رہ گئی ہیں۔
اِس قسم کے طلبا اکثر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ طلبا یونینز پہ پابندی ہٹنی چاہیے اور اِس ضمن میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دلیل کے طور پہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹیوں میں بھی طلبا یونینز پہ کوئی پابندی نہیں۔ ان فلسفہ دانوں سے پوچھا جائے کہ آپ کو آکسفورڈ یونین کا کچھ تھوڑا سا بھی علم ہے؟ آکسفورڈ یونین اور ہماری طلبا یونینوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ چاند کا زمین سے۔ وہاں کا ماحول ہی اور ہے اور اُس کا ادراک ہماری جامعات کے طلبا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ ماحول اِن کی سمجھ اور تجربے سے بالاتر ہے۔
نئے سال کی آمد کے لئے کیا کرنا ہے، کیا کرنا چاہیے‘ اِس کی فکر ہمیں ہمیشہ ستائے رکھتی ہے۔ دیگر قومیں خوشی مناتی ہیں اور دوسرے دن کام کرنے میں لگ جاتی ہیں‘ ہم سے نہ تو ڈھنگ سے کام ہوتا ہے اور ڈھنگ سے خوشی منانے کا تصور بھی ہمارے معاشروں سے تقریباً غائب ہے۔ نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے۔ لیکن پھر بھی ہمیں کوئی ندامت نہیں ہوتی کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا انحصار اوروں کی سوچ اور اُن کی ایجادات پہ ہے۔ سائنس اُن کی، سائنس میں ترقی اُن کی، جہاز، آبدوزیں، آئی فون، کمپیوٹرز اُن کے لیکن اپنی نوعیت کی اخلاقیات اور اُس پہ پہرے داری ہماری۔ جامعہ پنجاب میں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں، سائنس، ریاضی وغیرہ وغیرہ، اُن میں فوقیت غیروں کو حاصل ہے۔ کتابیں وہ لکھتے ہیں، چوٹی کی سکالرشپ اُن کی ہے لیکن اپنے ہی طرز کی اخلاقیات اور اُس کا تحفظ ہماری شان ہے۔
ویلٹنائن ڈے جیسی چیز پہ کوئی اور قوم سر کھپاتی ہے؟ اور جگہوں میں یہ کوئی مسئلہ بھی ہے کہ آپ کسی کو پھول دے رہے ہیں‘ یا جذبات بھرے کارڈ بھیج رہے ہیں؟ ہمارا اعزاز ہے کہ ایسی فضول باتوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی ٹوکنے والا نہیں، بس خود ساختہ ٹھیکے داروں کے جو جی میں آئے وہ قومی دھارے کی روایت بن جاتی ہے۔ خبردار کہ کوئی اُس سے منحرف ہو یا اُلٹا چلنے کی کوشش کرے۔ لوہے کا کشکول اُٹھائے ہمارے ہاتھ تھکتے نہیں۔ امریکہ ہو یا چین‘ ہمارے دل کی آرزوؤں کا اظہار ہمارے ہاتھ پھیلائے کشکول سے ہی ہوتا ہے۔ مانگے تانگے پہ گزر کرتے ہیں۔ باہر کی قوموں کی مہربانی نہ ہو تو ہمارے بجٹ کا سال پورا نہیں ہوتا۔ جن میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں پہ (ن) لیگی قیادت فخر کرتی ہے وہ سب مانگے کے پیسوں سے بنائی جاتی ہیں۔ اِس سے ہمیں کوئی احساسِ ندامت نہیں ہوتا‘ نہ ہی اِس صورت حال سے خواہش جنم لیتی ہے کہ اپنی بے چارگی کو ایک طرف رکھ کے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا سیکھیں۔ بس اپنی نوعیت کی اخلاقیات کی فصیلوں پہ کھڑے ہو کے اِدھر اُدھر للکارتے رہتے ہیں۔ اسی پر فخر کرتے ہیں کہ نیو ائیر نائٹ نہیں منائی جا سکتی اور ویلنٹائن ڈے پہ کچھ کر گزرنا صریحاً گناہ اور ہماری قیمتی اخلاقیات کے خلاف ہے۔
ایسے معاشرے کا علاج کیا ہے؟ دیگر کمزوریاں محنت اور لگن سے دُور کی جا سکتی ہیں لیکن ذہن اور سوچ کی خرابی کا کوئی علاج نہیں۔ یہاں کسی کلچرل انقلاب سے کچھ نہ ہو گا۔ سوچا جائے تو ہماری تقدیر ہی انوکھی ہے۔ انقلاب اور جگہوں میں آئے لیکن اسلامی دُنیا میں کچھ نہ ہوا۔ فرانس کی شکل فرانسیسی انقلاب نے بدل ڈالی۔ روسی انقلاب کا اثر تاریخِ دنیا پہ ہوا۔ چین میں انقلاب نہ آتا تو چین آج سُپر پاور بننے نہ جا رہا ہوتا۔ اسلامی دنیا میں فقط ایک ایرانی انقلاب آیا ہے۔ اُس کے بارے میں بھی دو آراء ہو سکتی ہیں کہ اُس میں اچھی چیز کیا تھی اور کہاں سے اُس میں منفی رجحانات پیدا ہوئے۔ لیکن اسلامی دنیا میں اور کہیں کیوبا طرز کا انقلاب نہیں آیا۔ نہ کوئی بڑے طرز کا لیڈر پیدا ہوا‘ سوائے ایک مصطفی کمال اتاتُرک کے جو کہ بہت سے دین کی طرف رغبت رکھنے والے مسلمانوں کی نظر میں صحیح مسلمان ہی نہ تھا۔ مولوی قسم کے لوگ اتاتُرک کی عظمت کو نہیں مانتے۔
مسلمانوں کا عروج خلافتِ عباسیہ میں ہوا۔ عباسیوں کا دارالخلافہ بغداد تھا اور اُس وقت اُس جیسا شہر پورے کرہ ارض پہ نہ تھا۔ علم اور روشنی کی شمع تب مسلمان ہاتھوں میں تھی۔ یونان کے تمام علم کا عربی میں ترجمہ تب ہوا۔ دنیا کے عظیم کُتب خانے تب بغداد میں تھے۔ جب ہارون الرشید خلیفہ تھے تو فرانس میں شارلمین (Charlemagne) بادشاہ تھے۔ یہ یورپ کی تاریخ میں بڑے بادشاہ سمجھتے جاتے ہیں لیکن اُن کی سلطنت ہارون الرشید کی سلطنت کے مقابلے میں بہت پیچھے تھی۔ تب بھی اسلام قائم تھا اور آج بھی قائم ہے لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے۔ تب کی دُنیا کی سُپر پاور خلافتِ عباسیہ تھی۔ آج ہم طفیلی ہیں کیونکہ علم اور روشنی کی شمعیں اور ہاتھوں میں ہیں۔ سوچ و فکر اُن کی‘ ہمارے پاس اپنا کشکول ہی ہے اور وہ لرزا دینے والے نعرے کہ نہ نیو ائیر منائیں گے نہ ویلٹائن ڈے پہ کچھ ہونے دیں گے۔ دیگر قوموں نے مریخ کی طرف جانا ہے تو جائیں سائنس کے میدان میں کچھ کرنا ہے تو کریں ہم اخلاقیات کے پہرے دار ہیں اوراُسی پہ پہرہ دیتے رہیں گے۔