"AYA" (space) message & send to 7575

سمجھنے میں کچھ دِقت ہو گئی

نواز شریف سمجھ نہیں پائے تھے کہ جو آفت آسمان سے گری ہے اُس کی نوعیت کیا ہے اور اُس کے مضمرات کہاں تک جا پہنچیں گے۔ کچھ اَدراک ہوتا تو ٹال مٹول سے کام نہ لیتے۔ لیکن ایسے حالات میں انسان کی عقل پہ پردے پڑ جاتے ہیں۔ وہ جو یونانی ڈرامہ نگار یورپڈیز (Euripedes) نے کہا تھا کہ جب آسمان کسی کی تباہی پہ تُل جاتے ہیں تو پہلے اُسے پاگل کر دیتے ہیں ۔ یعنی اُس کی عقل پہ پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیں۔
یہی کچھ شریفوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ شروع دن سے نہ سمجھ سکے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بڑے بڑے سکینڈلز سے بچ نکلے تھے، یقینا سمجھا ہو گا کہ یہ کون سا اتنا بڑا مسئلہ ہے، عُذر پیش کریں گے معاملہ ٹل جائے گا اور ہمیشہ کی طرح پارسائی کا لبادہ اوڑھ کے معصوم بن جائیں گے۔ ایک وقت ایسا تھا جب اعلیٰ عدلیہ اِن کی مدد کو آتی اور ہر مسئلے میں اِن کو چھوٹ اور سہولت مہیا کی جاتی۔ یہ نہ سمجھ سکے کہ حالات بدل چکے ہیں۔ عدلیہ وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ گہرے سایوں میں ڈھکی فوج جمہوری تقاضے پورے کرتے ہوئے عدلیہ کے پیچھے کھڑی ہے۔ 1997ء میں (ن) لیگ سپریم کورٹ پہ چڑھ دوڑی تھی۔ نئے حالات کے پیش نظر اب ایسی کوئی حرکت کرنا ناممکن تھا۔ لہٰذا جب سپریم کورٹ پانامہ کیس سُننے بیٹھی تو (ن) لیگ اقتدار میں ہونے کے باوجود سپریم کورٹ پہ اثر ڈالنے سے قاصر رہی۔ جب معاملے کی تفتیش جے آئی ٹی کرنے بیٹھی تو اُس کے ممبران تک فزیکل رسائی (ن) لیگ کی قیادت کے لئے ناممکن بنا دی گئی۔ ممبران کو حفاظت کہیں اور سے مہیا ہوئی۔ اسی لئے اُن کو دھمکانا یا اپنے اثر کے نیچے لانا ناممکن ہو گیا۔ اسی صورتحال کو (ن) لیگ کی قیادت سازش کا نام دیتی ہے۔ یعنی جب جے آئی ٹی ممبران پہ دھونس نہ چل سکی تو سمجھا گیا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ 
اس صورت حال سے نواز شریف اور دیگر لیگی قیادت کو کچھ نتائج اخذ کرنے چاہئیں تھے۔ اُنہیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ پرانے وَقتوں کی طرح وہ عدلیہ کے حوالے سے اپنی من مانیاں نہیں کر پائیں گے۔ لیکن یہ نکتہ سمجھنے سے قاصر رہے اور (ن) لیگ حسب سابق تکبر سے کام لیتی رہی۔ سعد رفیق جیسوں نے کہا کہ ہم لوہے کے چنے ہیں جو آسانی سے چبائے نہ جا سکیں گے۔ ایسی ایک پوری بٹالین تشکیل دی گئی جس کا روزمرّہ کا کام ٹی وی کیمروں کے سامنے آنا اور عدلیہ کو برا بھلا کہنا تھا۔ اشارتاً اس عمل میں فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ 
عجیب قسم کا غرور (ن) لیگی قیادت کے ذہنوں میں گھر کر گیا تھا۔ جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بطو ر وزیر اعظم نااہل قرار دیا تو سمجھا گیا کہ نام نہاد عوامی طاقت کے مظاہرے سے اعلیٰ عدلیہ کو مرعُوب کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے فارغ ہوئے تو نواز شریف براستہ جی ٹی روڈ لاہور آئے۔ راستے میں مجمعوں کی وجہ سے سپریم کورٹ نے کیا مرعُوب ہونا تھا‘ خود نون لیگی قیادت اس بھول میں پڑ گئی کہ ایسے پاور شو سے درپیش صورتحال کو بدلا جا سکے گا۔ جیسے جیسے وقت گزرا لیگی آوازیںاُونچی اور تیز ہوتی گئیں۔ سب سے بڑی جنگجو مریم نواز نکلیں جو عدلیہ پہ تبّرے کَستی رہیں۔ اس سے بڑی غلطی لیگی قیادت سے سرزد نہ ہو سکتی تھی۔ 
ایسا نہیں کہ نواز لیگ میں سمجھدار لوگ نہیں ہیں۔ بہت سے پرانے کھلاڑی ہیں جو عرصے تک اقتدار کے ایوانوں میں رہے ہیں۔ اُنہیں حالات کی سمجھ ہے اور وہ پاکستانی اقتدار کی حقیقتوں سے بھی اچھی طرح آشنا ہیں‘ لیکن نواز شریف کی نااہلی کے بعد ایک عجیب کیفیت نواز شریف اور اُن کے ارد گرد موجود لوگوں پر طاری ہو چکی تھی۔ اِس ماحول میں سمجھ رکھنے والوں کی باتوں کی گنجائش نہ رہی اور جو لیگ میں بڑبولے ہیں‘ جن کی وہاں کوئی کمی نہیں‘ اُن کی رائے کو مقدم سمجھا گیا‘ اس لئے بھی کہ نواز شریف اپنے آپ کو نظریاتی کہنے لگ پڑے تھے۔ نجی محفلوں میں یہ کہتے سُنے گئے کہ میں اِن حالات کا مقابلہ کروں گا۔ بڑے مجمعوں نے اُن کی اس رائے کو پختہ کر دیا۔ جب دو تین ضمنی انتخابات میں نون لیگ خاصی اکثریت سے جیت گئی تو دماغ تھوڑے اور خراب ہو گئے اور اعلیٰ عدلیہ پہ تنقید میں مزید شدت آئی۔ 
چونکہ احتساب کے عمل اور دیگر عدالتی معاملات نے اپنا وقت لینا تھا‘ اس لئے ہم جیسے کمزور دل سمجھ بیٹھے کہ کچھ ہونے والا نہیں اور نااہلی سے مضمحل ہونے کی بجائے نواز شریف اور اُن کی جماعت‘ دونوں مزید طاقت پکڑ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے کیسز چل رہے تھے اور فیصلے تمام ضروری عمل پورا ہونے کے بعد آنے تھے۔ ایسا ہی ہوا‘ اور جس شام سپریم کورٹ نے فیصلہ سُناتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لئے نااہل ٹھہرایا‘ یوں لگا جیسے درمیانے درجے کا زلزلہ آ گیا ہے۔ مطلع پہ جو دُھند اور کنفیوژن چھائی ہوئی تھی یکدم چھٹ گئی اور چیزیں صاف دکھائی دینے لگیں۔ اب تک بہت سے (ن) لیگی یہ سمجھ رہے تھے کہ پارٹی سربراہ نواز شریف ہی رہیں گے‘ اور عوامی فضا کی بدولت حالات اُن کے حق میں چل رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ سب بُھول بھلیّاں تھیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ نون لیگ کے اصل رہنما نواز شریف رہیں گے‘ لیکن قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی نیا صدر سامنے لانا پڑے گا۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ خاندان میں پارٹی قیادت کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ وزیر اعظم نہ بننے اور پارٹی سربراہی نہ ملنے پہ شہباز شریف کو اچھا خاصا دھچکا لگا تھا۔ حمزہ شہباز بھی ناخوش نظر آتے تھے۔ اب جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی پہ مہر ثبت کر دی ہے تو شہباز شریف کی خواہشات کو کس بہانے سے روکا جا سکے گا؟
نواز شریف کیلئے مَن پسند راستہ یہ تھا کہ مریم نواز کو بطور جانشین آگے لاتے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز کے خلاف بھی احتساب ریفرنس چل رہے ہیں۔ معاملہ وہی پرانا ہے کہ لندن فلیٹوں کی ملکیت کس کے نام ہے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ خدا جانے‘ لیکن یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ موجودہ موسم شریفوں کیلئے اچھا نہیں۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ باہر چھپی ہوئی دولت کا خاطر خواہ جواب وہ دے نہیں سکے، نہ جے آئی ٹی کے سامنے‘ نہ ابھی عزت مآب جناب محمد بشیر کی احتساب عدالت کے رُوبرو۔ اگر صفائی پیش کرنے کے حوالے سے وہی پرانی صورتحال برقرار ہے تو پھر اِس کی گنجائش کم ہی ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ شریفوں کے حق میں آئے۔
شہباز شریف کا راستہ بھی اتنا صاف اور آسان نہیں۔ حدیبیہ کیس کی بلا تو اُن کے سر سے ٹل گئی لیکن پنجاب میں اب تک چھپے ہوئے سکینڈلز سر اُٹھا رہے ہیں‘ جس کی ایک مثال آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ہے۔ ایل ڈی اے کے سابقہ ڈی جی احد چیمہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری خادمِ اعلیٰ کیلئے بجلی کے گرنے سے کم نہیں۔ وہ شہباز شریف کے منظور نظر افسر تھے اور بڑے بڑے پراجیکٹس پہ لگائے گئے تھے۔ یہ ناممکن ہے کہ احد چیمہ گرفتار ہو اور پنجاب حکومت کیلئے پریشانی نہ بنے۔ خادمِ اعلیٰ کی صحت کیلئے یہ ایک آشیانہ کیس ہی کافی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے خواب، پارٹی صدارت کی خواہش، مستقبل کے دیگر سُہانے خواب تب ہی پورے ہوں گے جب یہ مصیبت ٹلے گی۔
ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ شریفوں کے اقتدار کا دورانیہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے لمبا رہا ہے۔ اِن کو ایک چیز مار گئی۔ اپنی ذات سے باہر نہ نکل سکے اور ہوسِ زَر سے کبھی نجات نہ پائی۔ زَر اُن کی طاقت کا ذریعہ بنی اور اب زوال کا سبب بھی وہی ہوس ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں