"AYA" (space) message & send to 7575

افواج سے متعلق سیاستدانوں کا مسئلہ

فوج ایک طاقتور ادارہ ہے۔ اُس کا اثر ہر اُمور میں کسی نہ کسی حوالے سے ہونا ہی ہے۔ لیکن مسئلہ زیادہ گمبھیر تب ہو جاتا ہے جب سیاسی ادارے کم عقلی کا مظاہرہ کریں‘ اور اُن کا دامن بھی صاف نہ ہو۔ کرپشن کے الزامات میں آپ گھرے ہوں۔ طرح طرح کی کہانیاں آپ کے بارے میں گردش کر رہی ہوں۔ ایسی صورت میں جرنیلوں سے آپ خاک اعتماد سے بات کر سکیں گے۔
سویلین بالا دستی کی بات کرنا آسان ہے۔ سیاستدان محَل بے محَل آئینی شقوں اور تقاضوں کا حوالہ دیتے رہتے ہیں‘ لیکن کون سا آئین آپ کی بات میں وزن پیدا کرے گا‘ اگر کسی زیر بحث موضوع کا آپ کو صحیح ادراک ہی نہ ہو؟ مثال کے طور پہ فوجی کمان اور سویلین حکومت کے درمیان افغانستان پہ گفتگو ہو رہی ہے۔ آپ کو افغانستان کا صحیح طور پہ جغرافیہ ہی معلوم نہ ہو۔ مناسب مطالعہ کی آپ نے کوشش نہ کی ہو، بس عمومی فقروں سے زوردار تقریر فرما رہے ہوں۔ اس کے برعکس افواج کے لوگ پوری تیاری سے آئے ہوں، مسئلے کی باریکیوں پہ اُن کا نسبتاً عبور زیادہ ہو، تو پلڑا کس کا بھاری رہے گا؟
میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ‘ دونوں کا حصہ رہا ہوں۔ تجربے کی بنیاد پہ کہتا ہوںکہ مجال ہے کہ کسی پارٹی میٹنگ میں پیچیدہ قومی یا فارن پالیسی کے کسی مسئلے پہ سنجیدہ گفتگو ہوئی ہو۔ پیپلز پارٹی میں تھا تو بینظیر بھٹو اور بھٹو خاندان کی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے۔ ایک دفعہ 70 کلفٹن میں یوں ہوا کہ بینظیر بھٹو تشریف لائیں‘ اور کہنے لگیں کہ میں آج بہت خوش ہوں۔ میں نے وجہ پوچھی۔ بتایا کہ آج میری سالگرہ ہے اور پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے مجھے بطور برتھ ڈے گفٹ پارٹی کا تاحیات چیئرپرسن نامزد کر دیا ہے۔ مجھے صحیح یاد رہے تو تاحیات چیئرمینی کی تجویز میر ے دوست افضل سندھو کی طرف سے آئی تھی۔
نون لیگ کے اجلاسوں کا حال اِس سے بھی زیادہ مزاحیہ ہوا کرتا تھا۔ پارٹی اجلاسوں میں میاں نواز شریف کو قائدِ محترم کہہ کے مخاطب کیا جاتا۔ پہلے سے تیار فنکار ہوتے‘ جن کی طرف میاں صاحب کی اُنگلی اُٹھتی۔ ان فنکاروں میں نہال ہاشمی لازماً ہوتے۔ خوشامد کی ایسی چوٹیاں سَر کی جاتیں کہ انسان حیران رہ جاتا۔ پہلا جملہ یہ ہوتا کہ قائدِ محترم اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام (تب ہماری آبادی یہی تھی) آپ کے منتظر ہیں اور پھر مزید اس قسم کی گفتگو ہوتی۔ ایک میٹنگ مجھے یاد ہے‘ جو لاہور 90 شاہر اہ قائد اعظم پہ ہوئی۔ بات نون لیگ کی عوامی مقبولیت کی ہو رہی تھی۔ ایک دو حاضرینِ مجلس نے دانشورانہ گفتگو شروع کرنے کی کوشش کی۔ ایک اور صاحب نے‘ جو آج کل وفاقی کابینہ میں ہیں‘ نے بات کاٹتے ہوئے فرمایا کہ قائدِ محترم‘ نون لیگ کے سارے ووٹ آپ کی ذات سے جڑے ہوئے ہیں‘ ہم اُن ووٹوں کے صرف مجاور ہیں۔ میاں صاحب کے منہ پہ خوشی کی لہر دوڑ گئی اور دانشورانہ بحث وہیں پہ ختم ہوگئی۔ 
یہ بات نہیں کہ افواج میں چاپلوسی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے اس واضح قسم کا مکھن نہیں لگایا جاتا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں سنجیدہ گفتگو کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہاں کور کمانڈرز اپنی معروضات ایسے جملوں سے شروع نہیں کرتے کہ جنابِ جنرل باجوہ! آپ کا مقام فیلڈ مارشل رُومیل اور منٹگمری سے اُونچا ہے اور آپ کا باجوہ ڈاکٹرائن جیسا دانشورانہ تحفہ ملٹری تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ فوج میں تابعداری ہے، کئی اونچی پوزیشنوں پہ پہنچنے والے خوشامد کے ماہر ہوتے ہیں‘ لیکن جو حال سیاسی پارٹیوں کا ہے وہ بہرحال افواج کا نہیں۔ سلیقے اور ڈھنگ سے بات کی جاتی ہے۔ 
پھر سیاست دان کہتے ہیں کہ فوج بالا دست ہو گئی۔ ہماری نہیں سُنی جاتی، فوجی اپنی منواتے ہیں۔ کچھ اپنے طور طریقے تو بدل لیں۔ پارٹیوں کا اندرونی کلچر تو بہتر ہو جائے۔ خوشامد کی مقدار میں تھوڑی سی کمی آ جائے۔ فوجیوں کی ٹریننگ ہوتی رہتی ہے۔ مختلف کورسز اُنہیں کرنے پڑتے ہیں۔ سٹاف کالج کوئٹہ نہ جا سکیں تو اُونچی پروموشن کی راہ بلاک ہو جاتی ہے۔ جرنیل بننے کیلئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا کورس اچھے نمبروں سے پاس کرنا لازمی ہوتا ہے۔ سیاست دان کسی سٹاف کالج میں نہیں جاتے۔ سیاست کا میدان ہی اُن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ہوتی ہے۔ لیکن تاریخِ عالم دیکھ لی جائے، جو سیاست کی اُونچائیوں پہ پہنچتے ہیں وہ اپنی تعلیم خود کرتے ہیں۔ جو بڑے نام تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں‘ وہ بیشتر سیلف ایجوکیٹڈ (Self-Educated) ہوتے ہیں۔ کتابوں کے بغیر اُن کا وجود ناممکن ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ روایت رہی ہے۔ چوٹی کے سیاستدان کتابوں اور مطالعے کا شوق رکھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی لائبریری پہ ناز تھا۔ کوئی نئی کتاب مارکیٹ میں آتی تھی تو کراچی صدر میں ٹامسن اینڈ سنز نام کے کتب خانے کو ہدایات تھیں کہ اُن تک ضرور پہنچائی جائے۔ یہی حال سردار شیر باز مزاری کا تھا۔ کراچی میں اُن کی لائبریری جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا شاندار ماحول تھا، اُوپر نیچے کتابیں اور اصلی چمڑے کے شاندار صوفے بیٹھنے کو تھے۔ گزرے دنوں میں مرحوم میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی لائبریری مشہور تھی۔ مشرقی اور مغربی کلاسیکی موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔ اب نہ اُن کا لاہور سینٹ میری سکول کے متصل گھر رہا اور نہ وہ کُتب اور موسیقی کا ذخیرہ۔
افواج پہ سبقت زور سے حاصل نہیںکی جا سکتی۔ بندوق اور توپ و تفنگ تو افواج کے پاس ہوتے ہیں۔ سیاست کے اوّلین ہتھیار فکر اور دانش ہیں۔ لیکن جب اِنہی چیزوں کا مکمل فقدان ہو تو سیاست عسکری میدان پہ کیا سبقت حاصل کر سکتی ہے۔
مزید برآں جب سیاست کا نعرہ و منشور یہ رہ جائے کہ جس طرح ممکن ہو مال بناؤ اور عزت و وقار اُسی میں ہے تو جرنیلوں پہ رعب کیسے جھاڑا جا سکتا ہے؟ جب آپ پہ فائلیں کھلی ہوں اور اُن فائلوں میں آپ کے تمام کارناموں کا تفصیلاً ذکر موجود ہو تو کاغذوں میں درج آئینی بالا دستی کی شقوںکی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ قائد اعظم کے پاس تو پستول کا لائسنس بھی نہیں تھا۔ بات کرتے تو بڑے سے بڑے جاگیردار اور نواب سہم جاتے۔ جلسوں میں انگریزی میں تقریر کرتے تو سامعین بات نہ سمجھتے ہوئے بھی ہمہ تن گوش رہتے۔ یہ عظمت کردار کی بدولت تھی۔ لیکن اگر قائد اعظم کے بارے میں یہ عام ہوتا کہ باہر جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں، درُوغ گوئی میں اُن کا کوئی ثانی نہیں، قطری خطوط لہراتے کہ میری دولت وہاں سے آئی ہے، تو اُن کی بات کون سُنتا؟ اُن کو کوئی قائد اعظم کہتا؟ جب وہ فوجی افسروں سے مخاطب ہوتے اور اُنگلی ہلاتے‘ کہتے کہ آپ کا کام ملک کا دفاع ہے اور اِس سے زیادہ کچھ نہیں تو اُن کی بات ذہنوں میں اُتر جاتی۔ اُس اعتماد سے آج کل کے سیاسی لیڈران بات کر سکتے ہیں؟
پاکستان میں افواج نے پاکستانی سیاست کو برباد نہیں کیا۔ پاکستانی سیاست نے اپنا مقام پہلے خود گرایا اور فوج کی بالادستی بعد میں قائم ہوئی۔ گورنر جنرل غلام محمد اور سکندر مرزا سیاست کے علمبردار تھے۔ اُنہوں نے وہ کچھ کیا جس سے سیاست بے توقیر ہوکے رہ گئی۔ کس حکیم لقمان نے یہ نسخہ دیا تھا کہ جنرل ایوب خان کو پہلے چار سال کیلئے اور پھر مزید چار سال کیلئے فوج کا کمانڈر اِن چیف بیٹھائے رکھیں؟ مدتِ ملازمت میں توسیع ایوب خان نے بندوق کے زُور پہ نہ لی۔ سویلین وزیر اعظموں نے اُنہیں یہ عطا کی۔ 
فوج نے بہت غلطیاں کیں۔ بہت غلط فیصلے کیے لیکن یہ بھی ماننا چاہیے کہ حالیہ سالوں میں ملک کی بقا اور سلامتی کی ضامن افواج کے جوان اور نوجوان افسران رہے ہیں۔ اُن کے خون کی قربانی سے حالات سنبھلے ہیں‘ نہیں تو افغانستان سے بھاگی القاعدہ کی قیادت نے اب تک پاکستان کو برباد کر دیا ہوتا۔ ماضی کی غلطیوں کا اَزالہ افواج نے اپنے خون سے کیا ہے۔ سیاستدانوں نے اپنی غلطیوں کا اَزالہ کیا کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں