مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ سیاستدان بنیادی باتوں پہ متفق نہ ہوئے اور وہ تفریق کا شکار رہے تو اُن کے حصے میں مزید ذلالت لکھی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے شکوہ کیا ہے کہ جمہوریت ملک میں لاچَار ہو گئی ہے اور فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارے ہاں دنیا کی کمزور ترین جمہوریت ہے۔
پاکستانی سیاست میں دو تخلص دائمی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، ایک مسٹر ٹین پرسنٹ، دوسرا مولانا ڈیزل۔ پہلا اعزاز جناب آصف علی زرداری نے اپنی گوناگوں مالی کامیابیوں کی بنا پہ حاصل کیا۔ دوسرا لقب عوامی سطح پہ قبلہ مولانا صاحب کو پٹرولیم مصنوعات میں پتہ نہیں کن کرامات کی وجہ سے ملا۔ جب سیاست کی حالت یہ ہو جائے تو حُرمت اور عزت کہاں سے آئے گی؟
مجھے یاد ہے ایک دفعہ پارلیمنٹ کا اِن کیمرہ مشترکہ اجلاس منعقد ہوا‘ جس میں ممبران سینیٹ و قومی اسمبلی سے آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے مخاطب ہونا تھا۔ بریفنگ کا موضوع 'افغان پالیسی اور پاکستان میں دہشت گردی‘ تھا۔ کسی نکتے پہ مولانا کھڑے ہوئے اور آئی ایس آئی پہ تنقید کی۔ جنرل پاشا نے جواب میں کہا: بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن اگر نہیں کہہ رہا تو وجہ صرف حدِ ادب ہے۔ میں لیبیا سے پیسے لینے کی بھی بات کر سکتا ہوں لیکن اجتناب کرتا ہوں۔ مولانا چُپ ہو گئے اور اُن کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔
جہاں تک تعلق کمزور جمہوریت کا ہے تو شاید یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پوری اسلامی دنیا میں دو تین ہی ممالک ہیں جہاں جمہوریت نافذ ہے۔ ترکی، ملائیشیا اور پاکستان۔ ان تینوں ممالک میں بھی شاید پاکستانی جمہوریت سب سے توانا ہے۔ جیسا ہمارا میڈیا ہے کسی اور اسلامی ملک میں نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن اسلامی ممالک کے ہمارے مولانا حضرات اکثر دورے کرتے ہیں‘ وہاں تو سرے سے جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔ جو پاکستان میں ہے اُسے غنیمت سمجھنا چاہیے۔ کمزوریاں اِس نظام میں ہیں تو سب برابر کے قصوروار ہیں، وَردی والے بھی اور جمہوریت نواز بھی۔ قابلیت اور شعور کی سطح جو ہونی چاہیے وہ ہمارے ہاں نہیں ہے۔ دینی جماعتیں بھی ایسے ایسے مسئلوں کے پیچھے پڑی رہتی ہیں جن کا ملک کی ترقی یا کامرانی سے دُور دُور کا بھی تعلق نہیں۔
انگریزی کا لفظ ہے نان ایشو (non-issue)۔ نان ایشوز کو ایشو بنانا اور اُس پہ اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کرنا ہماری مذہبی جماعتوں کا وتیرہ ہے۔ آئے روز فروعی باتوں پہ کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں جہاں پہ ایسے مسئلوں کو اُٹھایا جاتا ہے جو مسئلے ہوتے ہی نہیں۔ قوم کی سوچ کو پیچھے رکھنے میں بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن ایک بڑی وجہ مذہبی جماعتوں کا کردار ہے۔
یہ مسلمان معاشرہ ہے اور تا محشر ایسا ہی رہے گا۔ بنیادی مسائل اس معاشرے کے اور ہیں۔ عوام کی حالت بہتر کیسے بنائی جائے، معاشرہ ترقی کیسے کرے۔ جہالت اور ناخواندگی سے کیسے باہر نکلیں۔ جن کو فکری رہنمائی کرنی چاہیے وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کے پیچھے بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ ستّر سال کا رونا ہم روتے ہیں۔ ان ستّر سالوں میں کوئی ایک سیاسی جماعت آئی ہوتی جو قوم کی نبض پہ ہاتھ رکھتی اور عوام الناس کے مسائل کی بات کرتی۔ وہ کام اگر سیاسی جماعتوں سے ہوا نہیں تو جمہوریت طاقت کیسے پکڑ سکتی ہے؟
اس بحث کو چھوڑئیے کہ دہشت گردی کیسے پیدا ہوئی۔ 2013-14ء تک پاکستان بطورِ ریاست دہشت گردی کے نرغے میں پھنس چکا تھا۔ ایک طرف القاعدہ اور طالبان کی دہشت گردی تھی جس سے سارا ملک لرز رہا تھا۔ دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کی سیکولر دہشت گردی کا راج تھا۔ القاعدہ نے فاٹا کے بیشتر علاقوں میں اپنی تقریباً آزاد ریاست قائم کر لی تھی‘ اور وہاں حکومت پاکستان کا کوئی عمل دَخل نہیں تھا۔ فوجی دَستوں کی نقل و حرکت بھاری پہرے میں ہوتی۔ کراچی میں الطاف حسین کا حکم چلتا تھا۔ وہ لندن سے تقریر فرماتے تو ملک کے تمام ٹی وی چینل اپنے آپ کو پابند محسوس کرتے کہ اُن کے ارشادات کو براہ راست نشر کریں چاہے تقریر کتنے ہی گھنٹوں پہ محیط کیوں نہ ہو۔ کبھی کبھار اپنی تقریروں میں فنکاری اور اداکاری بھی فرماتے۔ مجال ہے کہ کوئی ٹی وی چینل اِن حرکات کو نشر نہ کرے۔
یعنی افغان بارڈر سے متصل پہاڑوں اور وادیوں میں مذہب کے نام پہ اور ساحلِ سمندر پہ غیر مذہبی دہشت گردی اور بیچ میں اسلامی دنیا کی واحد نیوکلیئر طاقت بے بس اور پریشان حال۔
کو ئی تو پروگرام سیاسی ذہنوں میں اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہوتا۔ لیکن سیاستی جماعتیں ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھی رہیں۔ ذہنوں میں نہ پلان‘ نہ ارادہ۔ کراچی تو ایک الگ سلطنت بن چکی تھی۔ پشاور میں آئے روز دھماکے ہوتے تھے اور لگتا تھا کہ صورتحال کسی کے بس یا کنٹرول میں نہیں۔ 2013ء میں نئی منتخب حکومت آئی تھی۔ اُس سے توقع کی جا سکتی تھی کہ جس دہشت گردی نے ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا تھا‘ اُس کے بارے میں کچھ فیصلے کرے۔ لیکن نواز شریف حکومت اور اُن کی کابینہ اور کاموں میں مصروف رہی۔ نواز شریف کے غیر ملکی دورے ہی ختم نہیں ہوتے تھے۔ جب دیکھو یا سُنو تو لندن میں تشریف فرما ہیں۔
اس وقت فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے۔ اُن کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو چکی تھی۔ پہلی ٹرم میں بہت سے کام کئے۔ سوات کو طالبان کے قبضے سے چھڑایا۔ جنوبی وزیرستان میں کامیاب فوجی آپریشن ہوا لیکن اُس کے بعد دوسری ٹرم میں تقریباً غیر فعال ہو گئے۔ طالبان اور القاعدہ نے اپنے اڈے جنوبی وزیرستان سے شمالی وزیرستان منتقل کر دئیے اور وہاں سے ریاستِ پاکستان کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ جنرل کیانی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ نہ کر سکے۔ گومگوکی حالت کا شکار ہو چکے تھے۔
اَب یہ کام سیاسی قیادت کا تھا کہ فوجی کمان کو جھنجھوڑتی لیکن نواز شریف لندن دوروں سے فارغ ہوتے تو ایسا کرتے۔ سیاسی قیادت نے عافیت اِسی میں سمجھی کہ جُوں کی تُوں صورتحال برقرار رکھی جائے۔ خانہ پُری کیلئے ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں لمبی اور فضول تقریروں کے سوا کچھ نہ ہوا۔ کانفرنس کا اعلامیہ آج پڑھا جائے تو حیرانی ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کو اپنا بھائی کہا گیا اور اُن سے مذاکرات کرنے کا اعلان کیا گیا۔ حکومت کی تیار کردہ مذاکراتی ٹیم اُن اشخاص پہ مشتمل تھی جن کی شہرت طالبان سے ہمدردی رکھنے والوں کی تھی۔ دہشت گرد قوتوں کو اس ساری مزاحیہ صورت حال سے شہ ملی اور حکومت پاکستان مذاق بن کے رہ گئی۔
حالات میں تبدیلی تب آئی جب جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی۔ اُنہوں نے شمالی وزیرستان پہ چڑھائی کا فیصلہ کیا اور بادِل نخواستہ حکومت کو اُن کے پیچھے چلنا پڑا۔ یہ آسان آپریشن نہ تھا۔ طالبان اور القاعدہ کے جنگجو دنیا کے سخت ترین جنگجوؤں میں سے تھے۔ فوجی جوانوں اور افسروں نے چھاتیوں پہ گولیاں کھائیں۔ پاکستان ایئر فورس کا کردار بھی بہت نمایاں تھا۔ تب جا کے شمالی وزیرستان طالبان اور القاعدہ کے قبضے سے آزاد ہوا۔ پھر جب رینجرز نے کراچی میں آپریشن شروع کیا‘ تو الطاف حسین کی دہشت سے شہر قائد آزاد ہوا۔
اَب جوشِ خطابت میں نواز شریف کہہ جاتے ہیں کہ ہم نے کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا۔ اگلے روز نثار علی خان کہہ رہے تھے کہ میرے وزیر داخلہ بننے سے قبل دہشت گردی کی شرح یوں تھی اور میرے آنے کے بعد اُس میں یوں کمی ہوئی جیسا کہ شاید اُنہوں نے کوئی توپ چلائی ہو۔ فاٹا میں طالبان کی شکست اور کراچی میں روشنیوں کی بحالی میں سیاسی قیادت کا حصہ صفر بٹا صفر ہے۔ ان محاذوں پہ جو کامیابیاں ہوئیں وہ افواج کی تھیں۔ سیاستدان تو کچھ کہنے کو بھی تیار نہ تھے۔
جمہوریت کسی ڈرامے کا نام نہیں ہے۔ سیاستدانوں کی کارکردگی بہتر ہو گی تو سیاست کو عزت ملے گی۔ اگر سیاستدان ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال بنانے کو ہی اولین ترجیح سمجھیں اور بنیادی مسائل کی طرف توجہ کسی چیف جسٹس نے آ کے مبذول کرانی ہے تو ایسی صورتحال میں سیاست کو عزت کہاں سے ملے گی۔