پانامہ پیپرز کیس کے دورانِ سماعت جھوٹ کے اتنے پلندے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کئے گئے کہ اُن کی سزا تو وہ ہونی چاہیے تھی جو ہمارے تھانوں میں دورانِ تفتیش بے چاروں اور لا چاروں کے حصے میں آتی ہے۔ کوئی ٹی وی پہ کہہ رہا ہے کہ بیرونِ ملک تو کیا میری پاکستا ن میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ فرزندان اپنے کاروبار کی انوکھی داستانیں بیان کر رہے ہیں کہ فلاں ملک میں کاروبار شروع کیا تو الحمدللہ بہت منافع ہوا، پھر کسی اور ملک میں کاروبار شروع کیا تو وہاں بھی الحمدللہ بہت اچھا رہا۔ نہ کوئی ثبوت نہ کاغذ نہ کوئی بینک سٹیٹمنٹ صرف زبانی جمع خرچ ۔
اِن سب کے اُوپر اُن قطری خطوط کا نثری شاہکار جو کسی الف لیلیٰ کی داستان میں شامل ہونے کے قابل ہے۔ کوئی بھی کمزور شخص ایسے افسانے کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرتے ہوئے تھوڑا سا شرما جاتا۔ شرمندگی کے آثار نہ شریفوں کے چہروں پہ آئے نہ اُن کے انتہائی قابل وکلا کو ندامت محسوس ہوئی۔ مضبوط اعصاب ہوں تو ایسے ہوں۔
مستحق سزا تو تھانے والی ہونی چاہیے تھی، وہ کچھ جو ہمارے تھانوں میں ہوتا ہے۔ کمزور فیصلہ تھا‘ اسی لئے یہاں پہ محض نااہلی پہ اکتفا کیا گیا۔ طاقتور فیصلہ ہوتا تو ناک ایسے رگڑنی پڑتی جیسے نہال ہاشمی کو رگڑنی پڑی۔ کیسے دندناتے تھے اور پھر جھاگ کیسے بیٹھی۔ نااہلی سے کچھ زیادہ فیصلہ ہوتا تو یہاں بھی ایسا ہی منظر پیش آتا۔ اسی لئے چلائے جانے کی گنجائش ملی کہ ہمیں کیوں نکالا۔ لاؤ لشکر اور سارے کا سارا پروٹوکول قائم رہا، وہی پنجاب ہاؤس اسلام آباد پہ قبضہ، وہی بارہ چودہ سو پولیس محافظوں کی جاتی امرا کے ارد گرد تعیناتی، وہی ایلیٹ سکواڈ کی آگے پیچھے گاڑیاں۔ تگڑا فیصلہ ہوتا تو نااہلی کے ساتھ یہ سب کچھ چھِن جاتا۔ حفاظت کا حصار جاتی امرا سے ہٹا لیا جاتا۔ پنجاب ہاؤسوں کا قبضہ واگزار کرا لیا جاتا۔
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ ایک اور موقع صفائیاں پیش کرنے کا دیاگیا۔ اگر پھر بھی جے آئی ٹی کے سامنے شریف کچھ نہ لا سکے تو قصور کس کا ہے۔ سوائے تہمتوں اور عجیب قسم کی دھمکیوں کے کچھ کہہ نہ پائے۔ وہ جن کی سیاسی پیدائش فوجی آمریت کے بطن سے ہوئی اب جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن بن گئے ہیں۔ وہ جنہوں نے پی پی پی کی ہر منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کے جال بُنے اب ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے کہ عدالتی فیصلے میں مصالحہ ذرا کم تھا‘ نہیں تو اتنے چیخنے کی گنجائش نہ رہتی۔
اِ ن کی عقل کا حساب لگائیے۔ یہ کہتے ہیں کہ صرف اَقامہ پہ سزا دی گئی۔ اِن سیانوں کو کون سمجھائے کہ جب ایک ملک کا وزیر اعظم اپنی جیب میں کسی اور ملک کا ورک پرمٹ ڈالے رکھے ہو تو بے عزتی صرف وزیر اعظم کی ذاتِ گرامی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی ہے۔ اپنے آپ کے بارے میں ہم کیا کہتے ہیں؟ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت، دنیا کی چھٹی یا ساتویں بڑی فوج اور اُس کا وزیر اعظم ایسا کہ غیر ملکی ورک پرمٹ تھامے ہوئے۔ اِس سے بڑی باعثِ ندامت بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ نہ صرف ان کے پاس بلکہ اور وزرا صاحبان بھی ورک پرمٹ کے سوداگران نکلتے ہیں۔ وزیر دفاع کے پاس ورک پرمٹ، وزیر داخلہ کے پاس وہی کاغذ کا ٹکڑا اور بجائے شرمندگی کے اکڑے پھرتے ہیں۔ اس باعثِ قومی بے عزتی کی صحیح سزا ملتی تو نہ صرف سیاست سے آؤٹ ہوتے بلکہ محل کے ارد گرد اس غریب ملک کے ستّر کروڑ روپے سے جو حفاظتی دیوار بنائی گئی ہے‘ وہ بھی گرا دی جاتی۔
یہاں تو ہاتھ اتنا ہولا رکھا گیا ہے کہ حدیبیہ کیس‘ جو اُمّ المقدمہ کی حیثیت اختیار کر سکتا تھا‘ بھی تقریباً ختم کر دیا گیا۔ اُس مقدمے میں تو جناب اسحاق ڈار کا جی ٹی روڈ جتنا لمبا اعترافی بیان تھا۔ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کی ساری تفصیلات اُس بیان میں دی گئی تھیں۔ بھلا ہو چارٹر آف ڈیموکریسی اور مفاہمت کی سیاست کا کہ زرداری صاحب کے دورِ اقتدار میں شریف خاندان کو موقع مل گیا کہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرے اور اپنے خلاف سارے سنگین قسم کے مقدمات ختم کرا لے۔ سارے پرانے نیب کیس ختم کر دئیے گئے۔ حدیبیہ کیس بے اَثر کر دیا گیا‘ اور جناب اسحاق ڈار کو موقع مہیا کیا گیا کہ وہ اپنی پارسائی کے دعووں پہ ڈٹ کے قائم رہیں۔ پھر بھی عافیت اُنہوں نے اِسی میں سمجھی کہ ملک سے فرار ہوں۔ اس میں مہربانی موجودہ وزیر اعظم کی ہے جو اُنہیں اپنے ہمراہ اپنے سرکاری جہاز پہ دُوشنبے (تاجکستان) لے گئے۔ وہاں سے جناب اسحاق ڈار کیسے غائب ہوئے ‘ ایک اور سنسنی بھری کہانی کا موضوع بن سکتا ہے۔
مقدمہ تو بھٹو صاحب کے خلاف بنا تھا۔ قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں چلنا چاہیے تھا‘ لیکن براہ راست لاہور ہائی کورٹ میں چلا اور بینچ کی سربراہی خود تب کے چیف جسٹس مشہور زمانہ مولوی مشتاق حسین نے کی۔ بھٹو کو دیکھتے تو چیف جسٹس کا منہ غصے سے لال ہو جاتا۔ دورانِ سماعت کئی موقعوں پر بھٹو پہ برس پڑے۔ بھٹو کی تذلیل کی خاطر ایک سپیشل جنگلا بنایا گیا جہاں پہ دورانِ سماعت اُنہیں بیٹھنا پڑتا۔ ایف ایس ایف (FSF) سے منسلک گواہوں کو ورغلایا گیا اور ترغیب دی گئی کہ بھٹو کے خلاف گواہی دیں جس کے بدلے میں اُن کی جان بخشی ہو گی۔ اُس میں بہت اہم کردار اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کا تھا‘ جو جیل میں ان گواہوں سے ملے اور مطلوبہ گواہی کے متعلق انہیں راغب کیا۔ کوٹ لکھپت جیل سے بھٹو صاحب کو لایا جاتا تو عام پولیس وین کے پچھلے حصے میں بٹھایا جاتا۔ اُن کا پنجاب ہاؤس کوٹ لکھپت جیل ہی رہی اور پھر جب اپیل سپریم کورٹ میں لگی تو اُن کا پنجاب ہاؤس پرانی راولپنڈی جیل بن گیا۔
شریفوں کا اقتدار بھی قائم ہے، سرکاری وسائل دھڑلے سے استعمال ہو رہے ہیں، پروٹوکول لگ رہی ہے اور احتساب عدالت میں سماعت بھی جاری ہے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا تھا‘ اُس کا معمولی سا حصہ بھی اِن کے ساتھ ہوتا تو پھر اِن کی چیخ و پکار سُنی جاتی۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ وہ وقت نہیں رہا۔ جھوٹ کے ہمالیہ پہاڑ کھڑا کرنے کے باوجود اِن کے ساتھ رویہ نہایت ہی نرم اور کئی پہلوؤں سے مضحکہ خیز ہے۔ یہ پھر بھی نہیں راضی۔ ایک نیم چلتے ہوئے کارخانے سے سرمایے کی کن بلندیوں تک پہنچ چکے اقتدار کا دورانیہ اتنا طویل کہ کسی فوجی آمر کے حصے میں نہیں آیا۔ جائیدادیں ہر برّ اعظم میں پھیلی ہوئیں۔ لیکن پھر بھی ناخوش۔
بجا کہتے ہیں کہ عدالتی نظام میں نقائص ہیں۔ ان کی منشاء چلے تو چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب جسٹس ملک عبدالقیوم ہوں۔ شہباز شریف ملک عبدالقیوم کو فون کر رہے ہوں اور کہیں کہ بھائی جان کہتے ہیں کہ فلاں کیس میں یہ فیصلہ ہونا چاہیے اور جسٹس قیوم جواباً کہیں کہ بھائی جان نے کہہ دیا تو بات ختم ہو گئی۔ اِن کو انصاف کا نظام ایسا چاہیے‘ جس میں یہ بھی ممکن ہو کہ اگر جج صاحبان سَرکش نکلیں تو پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں مجمع اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا جائے اور پھر لاہوری ناشتہ کرا کے اُس مجمع کو سپریم کورٹ پہ چڑھ دوڑنے کا کہا جائے۔ اِ ن کا مَن پسند عدالتی نظام ایسا ہو گا۔
اِن کی حالتِ غیر اس وجہ سے ہے کہ اِن کا ہاتھ ججوں پہ پڑ نہیں رہا۔ عزت مآب جناب محمد بشیر کی عدالت کے سامنے پیشیاں بھگتنی پڑ رہی ہیں‘ اور بے بس ہیں کیونکہ کچھ کر نہیں سکتے۔ گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہو گا‘ جب ایک احتساب عدالت کیا‘ سپریم کورٹ کے جج بھی اِن کے سامنے ٹھہر نہیں سکتے تھے۔