"AYA" (space) message & send to 7575

چودھری شجاعت حسین کی یادداشتیں ’’سچ تو یہ ہے‘‘

سیاست میں تھوڑی سی بھی دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ مُفید اور دلچسپ کتاب ہے۔ اِس میں کوئی ایسے دھماکہ خیز انکشافات تو نہیں لیکن پڑھنے سے بہت سے حالات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ 
ظاہر ہے کہ میاں صاحبان کا ذکر بہت ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا‘ کیونکہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی زندگیاں بہت سے حوالوں سے میاں صاحبان کے سیاسی سفر کے ساتھ ملی ہوئی ہیں؛ البتہ فرق یہ تھا کہ چودھری صاحبان کا سیاسی بیک گراؤنڈ تھا۔ چودھری ظہور الٰہی بڑے قد کاٹھ کے آدمی تھے اور اپنے زمانے میں ایوب خان کے دور سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے تک اُنہوں نے ملکی سیاست میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔ چودھریوں کی یہ کامیابی گِنی جائے گی کہ اپنے نامور پیش رو کی سیاسی جگہ نہ صرف سنبھالی بلکہ کئی لحاظ سے اُسے آگے بھی بڑھایا۔ میاں صاحبان کا سرے سے کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں تھا۔ اُن کے والد گرامی نے صنعتی شعبے میں ایک نام کمایا لیکن سیاست سے کوئی واضح تعلق نہ تھا۔ یہ اُن کی شخصیت کا ایک پہلو ہے کہ وہ بڑے لوگوں سے تعلقات بنانے کی مہارت رکھتے تھے۔ 
چودھریوں کی سیاست جنرل ضیاء الحق سے پہلے کی تھی۔ میاں صاحبان کی سیاست ضیاء دور میں چمکی۔ چودھری شجاعت بتاتے ہیں کہ 1985ء کے انتخابات کے بعد اُن کا گروپ پنجاب اسمبلی میں سب سے نمایاں گروپ بن کے سامنے آیا۔ میاں نواز شریف بھی پنجاب اسمبلی میں منتخب ہو کے آئے لیکن اُن کے ساتھ ممبران زیادہ نہ تھے۔ جب سوچ بچار ہو رہی تھی کہ پاکستان کے سب سے طاقتور صوبے کا چیف منسٹر کسے چُنا جائے، چودھریوں کو گورنر ہاؤس سے بلاوا آیا۔ وہ گئے تو گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کے ساتھ بریگیڈیئر (ر) قیوم بھی موجود تھے۔ بریگیڈیئر قیوم کے میاں صاحبان کی فیملی سے قریبی تعلقات تھے۔ گورنر صاحب نے کہا کہ آپ منسٹریاں وغیرہ لے لیں اور معاملات آپ کے مشورے سے چلیں گے‘ لیکن چیف منسٹر اِس نوجوان کو بننے دیں جس کا نام نواز شریف ہے۔ چودھری شجاعت نے لکھا نہیں ہے‘ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جنرل ضیاء الحق کی آئین میں تبدیلیوں کی بدولت اُس وقت وزیر اعظم کا چناؤ صدر مملکت کی صوابدید پہ تھا اور وزرائے اعلیٰ کا چناؤ متعلقہ گورنروں کے اختیار میں تھا۔ چودھری صاحبان ہمیشہ حقیقت پسند رہے ہیں‘ اور اپنی طویل سیاسی زندگی میں کبھی بھی فضول قسم کی چھلانگ یا قلا بازی نہیں لگائی۔ جب گورنر صاحب نے اپنی رائے ظاہر کی تو اِسی حقیقت پسندی کے تحت چودھری صاحبان اُن کی بات مان گئے اور میاں نواز شریف ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 
چودھری شجاعت پھر لمبا گلہ کرتے ہیں کہ میاں صاحبان نے کیسے وعدہ خلافیاں شروع کیں۔ بڑا دلچسپ ذکر آتا ہے کہ کن کن موقعوں پہ میاں محمد شریف نے چودھریوں کو یقین دلایا کہ نواز شریف جب صوبے سے پروموٹ ہو کے کبھی وفاق میں گئے اور ملک کے وزیر اعظم بن گئے‘ تو چودھریوں کے حصے میں پنجاب کی منصب داری آئے گی۔ یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوا۔ 
لیکن دیکھا جائے تو یہ گلہ بنتا نہیں تھا۔ حقیقت پسندی کا یہ بھی جزو ہے کہ طاقت اور اُس کے محرکات کا صحیح اندازہ لگایا جائے۔ طاقت کبھی تقسیم ہونے پہ رضا مند نہیں ہوتی اور جیسا ہم جانتے ہیں‘ ایک میان میں ایک ہی تلوار سما سکتی ہیں۔ پنجاب پاکستان کی سیاست کا محور ہو اور میاں صاحبان چودھریوں کو اِس کی منصب داری دیں، یہ کیسے ممکن تھا؟ بیشک چودھری کہیں کہ نواز شریف کو آگے لانے میں ہمارا بڑا رول تھا۔ دَبے لفظوں میں نثار علی خان بھی آج کل یہی کچھ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اکیلے نے پارٹی نہیں بنائی بلکہ ہمارا رول بھی تھا۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن بادشاہ ایک ہی ہوتا ہے اور وہ اپنی طاقت منتشر نہیں کرتا۔ جس نے کی وہ پھر بادشاہ نہ رہا۔
جنرل ضیاء الحق کے قبضۂ اقتدار میں سب سے اہم رول لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی کا تھا۔ اس لحاظ سے وہ طاقتور جرنیل مانے جاتے تھے۔ لیکن پہلا موقع پاتے ہی جنرل چشتی کو فوج سے فارغ کر دیا گیا اور نوبت یہاں تک آئی کہ ایک روز ریٹائرڈ جنرل چشتی کو چکلالہ ایئر پورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں آنے سے روکا گیا اور انہوں نے اُونچی آواز میں کہا کہ میں گالف کلب کا 'منتخب‘ صدر ہوں۔ طنزاً اشارہ یہ تھا کہ ملک کے صدر غیر منتخب ہیں۔ جملہ بازی تو دلچسپ تھی لیکن حقیقت کو کیسے بدل سکتی تھی؟
جنرل مشرف کے قبضۂ اقتدار میں سب سے اہم رول لیفٹیننٹ جنرل محمود کا تھا‘ لیکن جب موقع آیا جنرل محمود کی چھٹی کرا دی گئی اور پھر وہ تبلیغی جماعت کے سرگرم رُکن بن گئے۔ مُغل بادشاہوں نے سگے بھائیوں کو برداشت نہیں کیا تھا۔ چودھریوں کو پنجاب کی حکمرانی کے حوالے سے میاں صاحبان نے کہاں برداشت کرنا تھا۔ 
یہ واقعہ مشہور ہوا تھا اورکتاب میں اِس کا ذکر بھی ہے کہ جب میاں نواز شریف اور جنرل مشرف میں تناؤ کی صورت پیدا ہوئی تو جنرل مشرف اور اُن کی بیگم کو جاتی امرا کھانے پہ مدعو کیا گیا اور میاں محمد شریف نے جنرل مشرف سے مخاطب ہو کے کہا کہ میں نے دونوں بھائیوں کو بتا دیا ہے کہ جنرل مشرف بھی میرا بیٹا ہے۔ چودھری شجاعت لکھتے ہیں کہ جب ہم میانوں کو ملنے گئے تو میاں شریف نے کہا کہ میں نے نواز شریف سے کہا ہے کہ اس جرنیل سے جلد ہی چھٹکارا حاصل کرو‘ کیونکہ میں نے اِس کی آنکھیں دیکھی ہیں اور وہ بڑی خطرناک ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ میاں محمد شریف بڑی صلاحیتوں کے مالک ہوں گے۔ چھوٹے سے کاروبار سے ایک بڑی بزنس ایمپائر بنانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر اُس موقع پہ اُنہوں نے جنرل مشرف کو اپنا بیٹا بنایا تو ایک موقع پہ اُنہوں نے صدر غلام اسحاق خان سے کہا تھا کہ میں نے دونوں بھائیوں کو بتا دیا ہے کہ اگر میں اُن کا باپ ہوں تو صدر غلام اسحاق بھی اُن کے باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔
بیگم عابدہ حسین بھی اِسی قسم کا ایک واقعہ اپنی یادداشتوں میں بیان کرتی ہیں۔ 1996ء میں میاں صاحبان بینظیر بھٹو کے سامنے بے بس ہو گئے تھے۔ اُن کی کوئی ترکیب کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ پھر اطلاعات آئیں کہ صدر فاروق لغاری اور بینظیر بھٹو کے درمیان کچھ مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ بیگم عابدہ حسین کے قریبی تعلقات صدر فاروق لغاری سے تھے۔ سازش بُننے کی غرض سے بیگم عابدہ حسین کو میاں صاحبان نے اپنی مری کی رہائش گاہ پہ مدعو کیا اور جب وہ آئیں تو میاں محمد شریف نے بیگم عابدہ حسین کے والد کرنل عابد حسین کی تعریفوں کے پُل باندھ دئیے اور کہا کہ میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب کرنل عابد حسین ہماری برانڈرتھ روڈ والی دُکان پر آئے اور کہا کہ میں نے اپنی زمینوں پہ ایک ٹیوب ویل لگوانا ہے۔ سازش کامیاب ہوئی اور بینظیر بھٹو کی حکومت کو برخاست کر دیا گیا۔ اب وہ بھی کئی حوالوں سے گلہ کرتی ہیں لیکن اُن کا گلہ بھی بے جا ہے۔ سیاست میں تشکر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ چڑھتا سورج ہی سب کچھ مانا جاتا ہے۔ سایوں میں کون جانا چاہتا ہے؟
یہ دیکھ لیجیے کہ ہمارے دوست مشاہد حسین کو چودھریوں نے اپنی پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا‘ اور پھر بڑی تگ و دو سے سینیٹ میں لے آئے‘ لیکن اَب مشاہد حسین کسی اور ٹرین کے مسافر ہیں۔ اور تو اور چودھری ظہیرالدین‘ جن سے چودھریوں کے زیاد ہ قریب اور کوئی ہو نہیں سکتا تھا، نے بھی چودھریوں کو چھوڑنے کی ٹھانی ہے۔ سیاست اور طاقت کے کھیل میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
چودھریوں کا سیاسی عروج جنرل مشرف کے دور میں آیا‘ اور وہ اِن پہ بے حد اعتماد بھی کرتے تھے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم کا چناؤ جنرل مشرف نے چودھریوں پہ چھوڑ دیا‘ اور اُنہوں نے کسی عجیب منطق کے تحت اس منصب کیلئے میر ظفر اللہ جمالی کا انتخاب کیا۔ جنرل مشرف جلد ہی ظفر اللہ جمالی سے اُکتا گئے کیونکہ اُن کی رائے میں ظفر اللہ جمالی سست آدمی تھے‘ اور صحیح کام نہیں کر سکتے تھے۔ جمالی کا انتخاب چودھریوں کی سیاسی غلطی تھی۔ اُس کے نتیجے میں اگلی بار جنرل مشرف نے اپنی مرضی کی اور شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا۔ چودھری پہلا فیصلہ صحیح کرتے تو شاید قوم شوکت عزیز کی فنکاری سے بچ جاتی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں