اندازہ لگائیے مہاتیر محمد بانوے سال کے ہیں۔ سالہا سال ملائشیا کے وزیر اعظم رہے ۔ ہر اطراف یہ مانا جاتا ہے کہ ملائشیا کی ترقی کے معمار وہی ہیں۔ پھر ریٹائر ہو گئے اور یوں لگتا تھا کہ گوشہ نشینی میں چلے گئے ہیں۔ اُن کے جانشین نجیب رزاق اول درجہ کے کرپٹ حکمران نکلے ۔ اُن کی مہارت ایسی تھی کہ ہمارے شریف بھی اُن سے کچھ سیکھ سکیں۔ ایک انویسٹمنٹ فنڈ سے سات سو ملین ڈالر غائب ہو گئے اور نجیب رزاق کے ذاتی اکاؤنٹ میں پراسرار طریقے سے چلے گئے ۔
جس طرح نواز شریف اور اُن کے خاندان کی مدد کو ایک قطری شہزادہ سامنے آیا بالکل اُسی طرح ایک سعودی شخص نے اقرار کیا کہ نجیب رزاق کے اکاؤنٹ میں سات سو ملین ڈالر ہماری طرف سے تحفے کے طور پہ دئیے گئے۔ جتنی قطری خط پہ پاکستان میں ہنسی لگی اُتنی ہی حیرانی ملائشیا میں سعودی شخص کے اقرار نامے سے ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ نجیب رزاق کی اہلیہ نے مختلف ممالک میں اچھی خاصی شاپنگ کی ۔ ایک پکاسُو (Picasso) کی پینٹنگ خریدی گئی جو مشہور امریکن ایکٹر لیونارڈو ڈی کیپریو کو دی گئی ۔ محترمہ نے اپنے لئے بیش قیمتی ہار خریدا جس میں بہت مہنگا ہیرا جڑا ہوا تھا۔ شاپنگ تقریباً تیس ملین ڈالر کے لگ بھگ ہوئی ۔
نجیب رزاق کی ہنر مندیوں کے سبب مہاتیر محمد نے ریٹائرمنٹ کو خیر باد کہا اور دوبارہ سیاسی میدان میں آ گئے ۔ ذہن میں رہے کہ جب سے ملائیشیا 1957ء میں آزاد ہوا تب سے ایک ہی جماعت، باریسن نیشنل فرنٹ ، حکمرانی کرتی آئی ہے ۔ مہاتیر محمد بھی اسی جماعت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے ۔ لیکن اب کی بار سیاست میں دوبارہ قدم رکھنے پر اُنہوں نے حزب مخالف اتحاد بنایا ۔ دیگر چیزوں کے علاوہ اپنے دیرینہ دشمن انور ابراہیم جو کہ جیل کاٹ رہے ہیں، سے سمجھوتہ کر لیا ، اِس یقین دہانی پہ کہ وہ انور ابراہیم کو شاہی معافی دلوائیں گے تاکہ وہ حصول اقتدا ر کی دوڑ میں پھر سے شامل ہو سکیں ۔
چند روز پہلے ملائشیا کے انتخابات ہوئے اور بانوے سال کے مہاتیر محمد نے دنیا کو حیران کر دیا جب اُن کی زیر قیادت حزب مخالف اتحاد انتخابات جیت گیا اور باریسن نیشنل فرنٹ ملائشیا کی پوری تاریخ میں پہلی بار انتخابات میں شکست سے دوچار ہوا۔
ملائشیا کے لئے تو یہ دھماکہ خیز خبر ہے ہی لیکن اِس کا پیغام پاکستان کیلئے بھی ہے ۔ اگر وہاں اتنا بڑا زلزلہ آ سکتا ہے تو کیا ہماری تقدیر اٹل ہے کہ یہاں پہ حکمرانی پرلے درجے کے نکھٹوؤںکے ہی سپرد رہے؟ مہاتیر محمد نے ملائشیا کی شکل بدل دی اور اقوام عالم میں اپنے ملک کو عزت کا مقام دلوایا۔ ہم ملائشیا سے دس سال پہلے آزاد ہوئے۔ دس سال پہلے ہی ہمارے پاس وہ کچھ تھا جو ملائشیا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ ہر لحاظ سے ہم آگے تھے۔ ملائشیا جو تب ملائیا (Malaya)کہلاتا تھا، دو چیزوں کیلئے مشہور تھا، ربڑ کی پلانٹیشن اور ٹین کی کانیں ۔ کمیونسٹوں نے وہاں بغاوت بھی کی اور تین سال تک ملک شورش میںگھرا رہا ۔ لیکن ملائشیا کی قسمت اچھی تھی کہ اُسے اچھے لوگ قیادت کرنے کو ملے ۔ پھر لمبا دورِ حکمرانی مہا تیر محمد کا آیا جس میں نئے اور ترقی یافتہ ملائشیاکی بنیاد رکھی گئی ۔ آج حالت یہ ہے کہ پاکستانی حصول ملازمت کیلئے ملائشیا جاتے ہیںکیونکہ اَب ہر اعتبار سے ملائشیا ہم سے کہیں آگے ہے ۔ ہم تو ایشین ٹائیگر بننے کی باتیں کرتے ہیں ، ملائشیا نے ایشین ٹائیگر بن کے دکھایا۔ وسائل ہمارے کم نہیں ۔ آبادی ہماری ملائشیا سے کہیں زیادہ ہے ۔ فرق صرف ایک ہے اور وہ قیادت کا ہے ۔
مشرف کے دور میں مہا تیر محمد جو کہ سیاست سے ریٹائر ہو چکے تھے عمران خان کی دعوت پہ پاکستان آئے ۔ ایک تقریب میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں ہوئی جہاں مہاتیر محمد نے تقریر کی۔ شام کو بنی گالہ میں دعوت کا اہتمام ہوا ۔ عمران خان مہاتیر محمد کے مداح رہے ہیں اور اَب بھی ہیں۔ اُن کے سامنے اگر کوئی ماڈل ہے تو وہ ملائشیا اور مہاتیر محمد کا ہے کہ کیسے قومیں اپنی تقدیر بدل سکتی ہیں ۔ کرپشن کی کہانیاں ایک طرف رکھیے ، پانامہ سکینڈل کو بھی بھول جائیے، شریفوں کی طرزِ حکمرانی ایک پرانی ڈگر کی سیاست ہے ۔ اُن کی سوچ محدود ہے۔ ویژن نام کی چیز اُن کے تصورات میں کوئی جگہ نہیں رکھتی ۔ پنجاب اور پاکستان پہ متعدد بار حکمرانی کر چکے ۔ لیکن جہاں سے سوچ شروع ہوئی تھی وہیں پہ پھنسی ہوئی ہے ۔ آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں ۔ تیس سال اور حکمرانی کریں تو وہی کرتے رہیں گے جو پہلے تیس برسوں میں کیا۔ ایک آدھ موٹر وے بنا لیں ، کہیں پل بن جائے ، اور اِسی قسم کی دیگر چیزیں ۔ یہی اِن کی سوچ کی انتہا ہے ۔
پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے، نئی راہوں پہ چلنا ہے اور نئی سوچ سے لیس ہونا ہے تو طرزِ حکمرانی کی تبدیلی کے بغیر یہ ناممکن ہے ۔ ہمارا حکمرانی کا طریقہ کھوکھلا ہو چکا ہے ۔ صرف یہ نہیں کہ کرپشن بہت ہے ، جس طرح حالات چلانے چاہئیں ایسے چلا نہیں پا رہے ۔ یہ نہیں کہ ہمارے عوام میں صلاحیت نہیں ۔ عوام میں بہت کچھ ہے لیکن وہ حالات تو میسر ہوں جن میں عام لوگوں کی چھپی ہوئی صلاحیتیں اُجاگر ہوں ۔ پاکستانی امریکہ جاتے ہیں ، یورپ میں کام کرتے ہیں ، گلف کی امارات کی ترقی کا حصہ بنتے ہیں ‘ تو اپنے ملک کی ترقی کے ضامن کیوں نہیں بن سکتے ؟
حکمران طبقہ یا جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں ذہنی دیوالیہ پن کی انتہاؤں تک پہنچ چکا ہے ۔ ایک ہی چیز آتی ہے کہ جائز و ناجائز طریقے سے دولت بنائی جائے اور پھر اس دولت کو باہر منتقل کیا جائے ۔ جس کو دیکھو دبئی میں جائیدادیں خرید رہا ہے۔ یہ لوگ لندن میں پراپرٹی پہ نظریں لگائے بیٹھے ہیں ، نیو یارک میں جائیداد خریدنے کے متمنی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ اور سیکھا ہی نہیں اور سیکھیں بھی کیوں ؟ جب سب اَیرے غیرے یہی کر رہے ہوں ، جب سیاستدان اور حکومتی مشینری کے بڑے کل پرزے اِسی شغل میں دن رات لگے ہوئے ہوں ، جب قومی انڈسٹری زمین کی خرید و فروخت بن چکی ہو ، تو اِن روشوں کا اَثر معاشرے پہ لازماً پڑتا ہے۔ معاشرہ بھی اِنہی رنگوں میں رنگا جاتا ہے۔
دہائی ہے کہ پانامہ سکینڈل سے کسی کو رَتی برابر بھی شرم آئی ہو ۔ جھوٹ پکڑے گئے ، جائیدادوں کے تذکرے سامنے آئے ، قطری خطوط سے پورے ملک کی ہنسی چھوٹ گئی لیکن پانامہ پیپرز میں پکڑے جانے والوں کی ہمت کو داد دیجئے۔ شرمندگی کی بجائے اُلٹا معصومیت اور پارسائی کے خول چہرے اور وجود پہ ڈالے قوم کو جمہوریت کا درس دے رہے ہیں ۔ اپنی اور قوم کی عزت کو خاک میں ملانے کے بعد نعرہ بلند کر رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو۔ ہمت کی بات ہے اور ڈھٹائی کی بھی ۔
شاید حساب کتاب کا وقت آن پہنچا ہے ۔ انتخابات کسی صورت ٹلنے نہیں چاہئیں۔ نہ اُن میں تاخیر ہونی چاہیے ۔ بِگل بجے اور مقررہ وقت پہ انتخابات ہوں ۔ ہماری قسمت نے بدلنا ہے تو پھر ملائشیا جیسے نتائج یہاں بھی آ جائیں گے۔ نہیں تو یہی کہیں گے کہ ہمارے ستاروں میں اچھائی کی اُمید کی کوئی جگہ نہیں۔ لیکن مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر اقبالؒ اور جناح ؒ کے پاکستان پہ محدود سوچ رکھنے والوں کا قبضہ ہو گیا تھا تو یہ قبضہ ہمیشہ کیلئے برقرار رہے گا؟ فوج نے اپنا کام کر دکھایا ۔ قبائلی علاقہ جات میں طالبان کو شکست دی اور وہاں سے انہیں بھگا دیا یا ان کا خاتمہ کر دیا۔ کراچی کو الطاف حسین کی بدمعاشی سے آزاد کرایا۔ اَب سیاسی عناصر کا کام ہے کہ اِن بنیادوں پہ ملک کی تعمیر نو کا آغازکریں ۔ آنے والے انتخابات ایک موقع ہیں ۔ دیکھتے ہیں قوم نے اس موقع کا فائدہ اُٹھانا ہے یا اور بہت سے موقعوں کی طرح اِس کو بھی ضائع و برباد کرنا ہے ۔