ہم سب جانتے ہیں کہ نہ صرف پاکستانی معیشت ‘بلکہ پاکستانی قومی زندگی میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ‘لہٰذا یہ قدرتی امر ہے کہ محکمہ زراعت کی اہمیت اُجاگر ہو۔
لیکن سوالیہ نشان یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں ہمارے محکمہ زراعت سے ایک الیکشن صحیح طریقے سے منیج نہیں ہورہا۔ اس محکمے نے ملک کو خاک چلاناہے ؟یہ حقیقت تو عیاں ہے کہ محکمہ زراعت کاعمل دخل سیاسی معاملات میں بڑھ گیاہے‘ لیکن آنے والے وَقتوں کا کوئی خاکہ بھی محکمے کے ذہن میں ہے؟
روس کے شہرہ آفاق لیڈ ر جوزف سٹالن نے کہاتھا کہ ووٹ ڈالنے والوں سے زیادہ اہمیت ووٹ گننے والوں کی ہوتی ہے ۔ ووٹ گننے والے بااعتماد اورقابلِ اعتبار ہوں‘ تو الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنا آسان ہوجاتاہے۔ یہ بات محکمہ زراعت سمجھنے سے قاصر ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب پانامہ پیپرز کا مسئلہ اُٹھا اورنوازشریف آہستہ آہستہ شکنجے میں آناشروع ہوئے‘ تومحکمہ زراعت کو الیکشن کی تیاری شروع کردینی چاہیے تھی ۔ عدلیہ سے ریٹرننگ آفیسر لینا ‘درد ِسر کے سواکچھ نہیں ۔ یہ کس آئین میں لکھا ہے کہ ریٹرننگ آفیسر صر ف عدلیہ سے ہوں ؟ اس بار پہلے سے اہتمام ہونا چاہیے تھا کہ ریٹرننگ آفیسر انتظامی مشینری‘ یعنی سرکاری محکموں سے لیے جائیں ۔ جتنے قومی اسمبلی کے منتخب رُکن ہیں ‘اُسی تعداد میں ریٹرننگ آفیسر مطلوب ہوتے ہیں ‘ یعنی بیس کروڑ کی آبادی سے آپ کو 250قابل ِ اعتبار اشخاص کی ضرورت پڑتی ہے ۔ یہ کون سی ایسی مشکل کی بات ہے کہ محکمہ زراعت کو ملک کی کل آبادی میں سے 250بااعتماد افراد نہ مل سکیں ؟
جب محکمہ زراعت کی پروموشن کانفرنس ہوتی ہے‘ تو جن افسروں کو پروموٹ کرنا ہوتاہے‘ اُن کی خوب چھان بین ہوتی ہے ۔یہی اصول ریٹرننگ آفیسروں کے چناؤ میں کارفرما ہونا چاہیے کہ ایسے 250افراد کی فہرست بنے‘ جو محکمہ زراعت کے اعتماد پہ پورااُتر سکیں‘ پھر جب کاغذات نامزدگی کامرحلہ آناتھا ‘تو اُمیدواران کی اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ اُوپر کی ہدایات کے تحت ہونا چاہیے تھا۔ اس ترکیب سے آدھا مسئلہ پہلے ہی حل ہوجاتا۔ جنہوں نے قرضے معاف کروائے یا جواشخاص نیب انکوائریاں بھگت رہے ہیں‘ اُن کو انتخابات سے یکسر باہر ہونا چاہیے تھا۔ قرضے معاف کرانے والوں کے نام فوراً ای سی ایل میں ڈالے جاتے۔ مزید یہ کہ پنجاب میں شہبازشریف کی تشکیل دی گئی 156کمپنیوں کے تمام عہدیداران کے ناموں کو ای سی ایل پہ ڈالا جاتا اوروہ الیکشن میں حصہ لینے سے نااہل ٹھہرتے۔
جنگ عظیم دوئم میں جب ہٹلر کی فوجوں نے روس پہ حملہ کیا‘ تو شروع کے مہینوں میں لاکھوں کی تعداد میں روسی فوجی جرمنوں کے نرغے میں آئے اورقیدی ہو گئے۔ سٹالن نے حکم صادر کیا کہ جو روسی فوجی ہتھیار ڈالتاہے ‘وہ قوم کا دشمن ہے‘ نیز یہ کہ اس کے رشتے دار اورپورا خاندان کسی سوشل یا معاشی مراعات کا حقدار نہیں ۔ مطلب یہ کہ وہ راشن اورکسی پنشن سے محروم ہوگئے ۔ سٹالن کا اپنا بیٹا میجر یاکوف بھی جنگی قیدی بنا اور اُس کی بیوی‘ یعنی سٹالن کی بہو کو گرفتار کرلیاگیا ۔ جب سٹالن گراڈ (Stalingrad)میں جرمنوں کو شکست ہوئی اوراُن کی چھٹی فوج نے ہتھیار پھینک دئیے تو چھٹی فوج کا کمانڈر فیلڈ مارشل فون پاؤلس (von Paulus)روسی قید میں آگیا۔ دوران جنگ جرمنوں نے خفیہ ذرائع سے یہ پیغام پہنچایا کہ فون پاؤلس کے بدلے میں سٹالن کے بیٹے کو رہا کیاجاسکتاہے ۔ سٹالن کا جواب تھا کہ فیلڈ مارشلوں کو میجر وں سے بدلا نہیں جاسکتا۔ جنگی قیدوں کے کیمپ سے یاکوف نے فرار کی کوشش کی اوراُس میں وہ مارا گیا ۔ سٹالن کو پھر تھوڑا اطمینان ہوا کہ اُس کا بیٹا بزدل نہیں نکلا۔ اسی اصول کے تحت پاکستان میں بھی یہ قانون ہونا چاہیے کہ جولوگ کرپشن کے تحت سزا پائیں ‘اُن کا خاندان بھی سیاست سے نااہل ہو جائے اورپورے خاندان کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ ہو۔ یہ کیا ہوا کہ باپ ملک وقوم کا پیسہ لوٹے اوراُس کے خاندا ن کو مکمل آزادی ہوکہ اُس پیسے پر عیاشیاں کرے۔
جنرل مشرف نے اچھا قانون بنایا تھا کہ اُمیدوارانِ اسمبلی کم ازکم گریجویٹ ہوں ۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ اَن پڑھ اورنیم خواندہ لوگ اسمبلیوں میں جائیں ؟ظاہر ہے ‘گریجویٹ والی شق اب قانون کا حصہ نہیں رہی‘ لیکن جب پاکستان میںحالات بدلیں ‘ پتہ نہیں بدلتے ہیں یا نہیں ‘یہ شق لازماً واپس آنی چاہیے۔ مزید یہ کہ جعلی ڈگریوں کے مرتکب زُعماء کو سیاست سے ہمیشہ کیلئے فارغ ہوجانا چاہیے۔
یہ تمام معاملات اکیلا محکمہ زراعت حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اس میں اعلیٰ عدلیہ کی معاونت اوررہنمائی ضروری تھی ۔ آئندہ کا نقشہ محکمہ زراعت اورمنصفین کو مل بیٹھ کر بنانا چاہیے تھا۔ جو کارکردگی اب اعلیٰ عدلیہ خاص طورپہ چیف جسٹس آف پاکستان کی ہے ‘وہ حکومتوں کی ہونی چاہیے تھی۔ ہسپتالوں کے دورے ‘ محکموں کی کارکردگی پہ نظر ‘ کرپشن پہ کڑی نظر‘ یہ حکومتوں کاکام تھا‘ لیکن حکومتیں جب نکمی نکلیں تو یہ بوجھ اعلیٰ عدلیہ نے اُٹھایا ۔ اس لحاظ سے چیف جسٹس آف پاکستان‘ بھرپور ستائش کے مستحق ہیں ۔
پہلی بار ہوا کہ کراچی میں وسیع پیمانے پہ قبضہ کرنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی ۔یہ کام سپریم کورٹ نے کیا‘ نہیں تو ایسے عناصر سے پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ یہ بھی پہلی بارہواہے کہ کراچی میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی جوکہ بہت طاقتور ادارہ ہے اوراب تک ہر پوچھ گچھ سے مستثنیٰ رہا ہے‘ سے سوال کیا گیا کہ وہ زہر آلود پانی بغیر کسی علاج کے سمندر میں کیوں پھینکتاہے ۔یہ سوال ڈی ایچ اے کراچی سے پہلے کبھی نہ پوچھا گیا۔ اب سپریم کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے ڈی ایچ اے کراچی نے یقین دہانی کروائی ہے کہ 2020ء تک ڈی ایچ اے کا گندا پانی ٹریٹمنٹ کے بغیر سمندر میں نہیں پھینکا جائے گا۔ یہ بھی ڈی ایچ اے کے ساتھ رعائیت ہے ؛حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اُسے فوری پابند کیا جاتا کہ گندا پانی سمندر میں نہیں پھینکا جا ئے گا۔
مروجہ طریقوں سے انتخابات ہم 1970ء سے کروارہے ہیں ۔ ان سے ہمیں سوائے ناکام نکھٹوحکومتوں کے کیا ملا ؟ ہماری قسمت میں آمر آتے ہیں تو وہ نکمے ‘ جمہوری لیڈر ملتے ہیں‘ تو وہ لوٹ مار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ پڑوس ہندوستان میں بھی جمہوریت ہے ‘ ہم سے تگڑی جمہوریت‘ لیکن اُس سے کیا گلستان سَجاّ؟ ہندوستانی جمہوریت نے بھی نریندر مودی اورہندوانہ تعصب پیدا کیا۔ ہماری جمہوریت نے نالائقی اور بددیانتی پیدا کی۔ ہندوستان جانے اوراُس کے حالات ۔ہمیں تو اپنے حالات کی فکر ہونی چاہیے ۔انگریز کی عطا کردہ جمہوریت چلانی ہمارے بس کی بات نہیں ۔ ہم نہ اپنے تعصبات نہ اپنی برادریوں کے چکر سے نکل سکے۔ ستر سال قیام پاکستان کو ہوگئے‘ لیکن اب بھی کوئی ملک ‘کوئی راجہ ‘ کوئی چوہدری ‘ کوئی مخدوم ہے۔ جنہیں ہم کَمی کہتے ہیں ‘وہ اس جمہوریت میں آگے آ ہی نہیں سکتے۔ہماری سوچ ‘ ہمارے رویے پرانے ہیں ‘ لہٰذا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ پچھلے سال سے اب تک ایک موقع تھا کہ اس فرسودہ جمہوریت میں کچھ نئی رَمق آ سکے‘ لیکن ہمارے محکمہ زراعت کی سوچ محدود ہے ۔ اسی لئے اس موقع کی نزاکت کونہ سمجھ سکا اورنہ اس تاریخی ذمہ دار ی کو نبھا سکا۔
نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ وہی پرانے قسم کے اُمیدوار اس دوڑ میں بھی شامل ہیں ۔ نہ تطہیر ہوسکی‘ نہ اُمیدواران کا ایسا چنا ؤ‘ جس سے گند ا اورسڑا ہوامال ایک طرف ہوتا اورنئی سوچ رکھنے والے سامنے آتے ۔ ان انتخابات سے کون سی نئی قیادت اُبھرے گی ؟پھر اُسی قسم کے لوگ آئیں گے اورمحکمہ زراعت ہاتھ ملتے رہ جائے گا۔