ہماری عمر کے لوگوں کے ساتھ ایک عجیب حادثہ ہوا ہے۔ جوان تھے تو مملکتِ خداداد میں ہر چیز سرِ عام دستیاب تھی لیکن ہماری جیبیں خالی ہوا کرتی تھیں۔ بزرگی کے قریب پہنچے تو جیبوں میں کچھ آنے لگا لیکن مملکت میں جہاں سامانِ راحت کی اشیاء مہیا ہوا کرتیں اُن کے دروازے بند ہو چکے تھے۔
پیسے سے محتاجی دور ہونی چاہیے۔ لیکن حالت یہ ہے کہ ہاتھ میں پیسے لئے محتاج ہو چکے ہیں۔ اچھے ہوٹلوں میں بیٹھتے ہیں لیکن وہیں مقید ہو کے رہ جاتے ہیں کیونکہ باہر کا موسم اتنا سازگار نہیں رہا ۔ ہر چیز کے لئے فون پہ تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ آج کل کے فون بھی کمال کے ہیں ۔ اگر ہم نے اپنے لئے دشواریاں پیدا کی ہیں تو غیروں کا بھلا ہو کہ زندگی میں آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔
1971ء کی جنگ میں ہماری یونٹ 36 لائٹ والٹن لاہور میں تعینات تھی ۔ راتوں کو لاہور میں بلیک آؤٹ ہوتا ۔ جنگ کی تھکاوٹ دور کرنے کیلئے ہم شہر کا رُخ کرتے۔ فلیٹیز ہوٹل تب اپنے آب و تاب کے عروج پہ تھا۔ اندر لائیو بینڈ پرفارم کرتا اور اُس کی دُھنوں پہ رقص ہوتا۔ مگر ہم اندر نہ جاتے کیونکہ وہی جیب کی بیماری لاحق تھی۔ مگر اتنا جانتے تھے کہ فلیٹیز کے کار پارک میں پرانی وینٹیج (vintage) کی کھڑی امریکن گاڑیاں اُن صاحبان کی ہوتیں جو ثقافتی سرگرمیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کی شہرت رکھتے تھے ۔ ظاہر ہے ہم جیسے اُن صاحبان کی خدمات حاصل نہ کر سکتے۔ اُ س زمانے میں 220 روپے بھاری رقم سمجھی جاتی تھی اور اِن صاحبان کا ریٹ یہی تھا جو ہماری پہنچ سے باہر تھا ۔
اُس زمانے کا لاہور البتہ ہر جیب کے مطابق سامانِ راحت رکھتا تھا ۔ فلیٹیز کی امریکن گاڑیوں پر تو ہم سفر نہ کر سکتے لیکن کپتانی کی تنخواہ پر لاہور ہوٹل واقع میکلورڈ پر ضرور جا سکتے تھے ۔ ٹیکسی لیتے اور تب کی ٹیکسیوں سے بہتر کوئی ذریعہ ٹرانسپورٹ نہیں تھا۔ آپ گاڑی میں بیٹھتے اور ڈرائیور بغیر کسی چخ بخ کے میٹر گھما دیتا ۔ لاہور ہوٹل کے سامنے قدرے نیچے درجے کے معاونین کھڑے ہوتے ۔ اُن کی نظر کمال تھی۔ دُور سے جان جاتے کہ ضرورت مند آ رہے ہیں ۔ ٹیکسی رُکی اور وہ کھڑکی کے قریب آ کے دھیمے انداز میں پوچھتے کہ صاحب کہیں جانا ہے ۔ ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پہ بیٹھ جاتے اور اکثر سمن آباد کی طرف چل پڑتے ۔ آزاد زمانہ تھا ، آج کل کی پیچیدگیو ں کے بغیر ۔ ایک کوٹھے پہ پہنچتے تو ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ جڑے ہوئے رنگین لباس میں ملبوس افراد سامنے آ جاتے ۔ ایک جگہ پسند نہ آتی تو اگلے پڑاؤ پہ چلے جاتے ۔ 160 روپے کا جرمانہ اُس زمانے میں لاہور ہوٹل کے سامنے کھڑے معاونین لیا کرتے تھے ۔ اگر یہ رقم آج کل کے تناظر میں مضحکہ خیز لگے تو یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری کپتانی کی تب تنخواہ 750 روپے ماہانہ تھی۔
اُس زمانے کی فوج اور وَقتوں کی فوج تھی ۔ پیسے نہ بھی ہوتے تو شام کو ٹائی لگائے میس یا کلب میں جاتے اور شام گزارنے کے بعد بِل پہ دستخط کر دیتے ۔ بِل مہینے کے بعد رجمنٹ میں آتا اور اگر پیسے نہ بھی ہوتے تو پٹھان کینٹین والے سے اُدھار لیتے جس سے گزارا ہو جاتا۔ اکڑ اور رعب کے لحاظ سے رجمنٹوں میں فرق تھا۔ آرمڈ کور اور انفنٹری کا مزاج مختلف سمجھا جاتا تھا ۔ اُن میں شام کی حرکات کو ترچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ جو افسران ایسے شام کے معاملات میں پیچھے رہتے وہ مشکوک سمجھے جاتے۔ ہمارے توپ خانے میں البتہ اور خاص کر میری رجمنٹ میں حالات بالکل مختلف تھے ۔ دقیانوسیت بہت تھی اور کلب کے معاملات کو اچھا نہ سمجھا جاتا تھا ۔ میرا پہلا لگ بھگ 200 روپے کلب کا بل جب رجمنٹ میں آیا تو کمانڈنگ آفیسر نے بہت برا منایا۔
خیر ایسا ہونا ہی تھا ۔ ہمیں فوج راس نہ آئی اور فوج کو ہم راس نہ آئے ۔ ہر سالانہ رپورٹ‘ جو کمانڈنگ آفیسر لکھتے تھے‘ وہ خراب ہوتی۔ پانچ چھ سال کی سروس میں ایک ہی رپورٹ اچھی تھی اور وہ 1971ء کی جنگ کے بعد والی رپورٹ تھی ۔ جنرل حمید گل مرحوم سے ایک دفعہ اِس داستان کا ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ جنگ والی رپورٹ ہی اہم ہوتی ہے باقی تو ایسے ہی ہوتی ہیں ۔ اِس سے قدرے دل کو دلاسہ ملا۔ اخبار نویسی جب شروع کی اور انگریزی کالم لکھنے لگے تو جنرل صاحب یہ بھی کہا کرتے کہ تمہارا اور میرا اسلام ایک ہی ہے ۔ اختلاف ہے تو صرف ایک چیز پہ‘ جو تم بوتل کا ذکر کہیں سے لے آتے ہو۔ یہ کہہ کے ہنس پڑے۔ خوش مزاج آدمی تھے ۔ اختلاف بھی کرتے تو مسکراتی آنکھوں سے۔
بہرحال یہ بات اَب بھی دل کو کاٹتی ہے کہ جب سرزمین پاکستان میں سب آزادیاں تھیں ، آج کل کی جمہوریت سے کہیں اُجلی اور اَچھی ، تو ہمارے اپنے حالات اتنے اَچھے نہ تھے ۔ وہ بازار جو سکھ جرنیل ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب ہے وہاں بھی جاتے تو اُونچی بالکونیوں تک... جنہیں عرف عام میں کوٹھے کہا جاتا ہے... رسائی ممکن نہ ہوتی۔ اُس زمانے میں اِس بازار کی چہل پہل دیدنی تھی ۔ رات گئے کیا رونق ہوتی لیکن کسی شور شرابے اور ہلڑ بازی کے بغیر ۔ لمبی چوڑی امریکی گاڑیاں (تب پاکستان میں جاپانی گاڑیاں عام نہ تھیں) اُونچے درجے کی بالکونیوں کے نیچے کھڑی ہوتیں ۔ وہاں سے کبھی ہم گزرتے تو یہی سمجھتے کہ کمبخت کوئی فیوڈل آیا ہوا ہے ۔ لیکن اَچھے زمانے تھے ۔ ہر قسم کے لوگو ں کیلئے کچھ نہ کچھ دستیاب تھا۔ کم استطاعت رکھنے والوں کا بھی ہیرا سنگھ کے نام سے منسوب بازار میں گزارا چل جاتا۔ اَب ہماری جیبوں میں کچھ آیا ہے تو وہ بازار ویران ہو چکا ہے ۔ نہ امریکن گاڑیاں ، نہ اُونچی بالکونیاں ، نہ وہ رونق اور چہل پہل ۔
ضیاء الحق کے زمانے میں ایک شام ایبٹ روڈ پہ ٹکا ٹک کھانے کے بعد مشہور انگریزی میں لکھنے والے صحافی ظفر اقبال مرزا کے ساتھ بازار ہیرا سنگھ کی طرف چل نکلے ۔ عجیب سُنسانی بازار پہ چھائی ہوئی تھی ۔ ایک دروازے کے اندر جھانکا تو طبلہ نواز اور دیگر سازندوں کو اُونگھتے پایا ۔ بازار میں ویرانی تھی ، گاہک کہاں سے آتے ۔ ہماری دستک پہ کوٹھے والوں نے آنکھیں ملیں اور اپنی تیاری شروع کی۔ ساز چھڑا اور پائل کی جھنکار آنے لگی تو ہم نے کچھ نوٹ ہوا میں پھینکے۔ کچھ اور پھینکنے کا سوچ رہے تھے کہ چند پولیس والے ایک اے ایس آئی کی معیت میں دروازہ کھولتے ہوئے اندر آن دھمکے۔ مقصد اُن کا ہمارے ساتھ نہ تھا، شاید لین دین کا کچھ معاملہ کوٹھے والوں سے ہو گا۔ میں نے اے ایس آئی کو گھورا تو اس نے تقریباً فلمی انداز میں کہا ''کَدی تھانیدار نئیں ویکھیا؟‘‘ غصہ تو آیا لیکن پینا پڑا۔
کچھ روز ہوئے مشہور مصنف مستنصر حسین تارڑ کے پاس حاضری دی اور جب پرانے لاہور کے قصے چھڑے تو اُنہوں نے کہا کہ کالج میں تھے‘ جب مشہور امریکی ایکٹر سٹیورٹ گرینجر (Stewart Granger) اور لا زوال حسن رکھنے والی اداکارہ ایوا گارڈنر (Ava Gardner) فلم بھووانی جنکشن کی شوٹنگ کے سلسلے میں لاہور آئے ۔ ایوا گارڈنر کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے نوجوان اُن کا تعاقب کرتے ۔ ایک شام سٹیورٹ گرینجر اور ایوا گارڈنر مال کی ایک جوتوں کی دکان میں دیکھے گئے۔ تارڑ صاحب نے کاپی آگے کی اور صرف ایک لفظ کہہ سکے ''آٹو گراف‘‘۔ سٹیورٹ گرینجر نے آٹو گراف دیا لیکن تارڑ صاحب کہتے ہیں کہ جو قدرتی مہک ایوا گارڈنر کے جسم سے آ رہی تھی اُس کا اعصاب پہ اَثر وہ ساری عمر نہیں بھول سکے۔