اپنے ایک مضمون میں مشہور ناولسٹ ورجینیا وولف (Virginia Woolf) لکھتی ہیں کہ روزِ محشر میں حساب کے بعد تین شخصیات دنیا و جہاں کے مالک کے قریب بیٹھی ہوں گی: ہومر (Homer)، دانتے (Dante) اور شیکسپیئر (Shakespeare)۔ اُس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے ہاں سب سے بڑا اعزاز ان لازوال شعراء کا ہو گا۔ اُن کا یہ بھی مطلب تھا کہ بہشت میں جب درجہ بدرجہ صف بندی ہو گی تو سب سے آگے وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اِس دنیائے فانی میں تخلیق کے حوالے سے کوئی بڑا کام کیا ہو: لکھنے والے، موسیقی ترتیب دینے والے، مائیکل انجیلو (Michelangelo) جیسے سنگ تراش اور رِم برانٹتھ (Rembrandt)، ریفیل (Raphael) جیسے مصور۔
اگلے روز میڈم نور جہاں کا وہ پرانا گیت سننے کا پھر اتفاق ہوا، ''جب یہ جانِ حزیں وقفِ آلام ہوئی‘‘ اور میں سُن کے گم ہو گیا۔ یہ غزل کئی بار سُنی ہو گی لیکن اُس شام ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ سنتا چلا گیا اور بے اختیار دل میں یہ سوچ اُٹھی کہ اس ایک غزل کے گانے سے بہشت کے تمام دروازے میڈم کے لئے کھل گئے ہوں گے۔ یوں تو نور جہاں کے اَن گنت ایسے گانے ہیں جن سے آگے کی منزلیں آسان ہوتی ہوں اور اُن پہ رحم کی بارش ہو۔ کس کس گانے کا ذِکر کیا جائے۔ صرف نور جہاں ایسی کیفیت پیدا نہیں کرتیں۔ جو بڑے گویّے رہے ہیں‘ چاہے وہ ہندوستان کے ہوں یا اوپرا (opera) گانے والے مغربی ممالک کے‘ ایسا ہی اثر رکھتے ہیں۔ ایسی آوازیں، ایسی موسیقی کہ تصورِ آخرت اِن کو کہیں سُمو دینے کے بغیر ممکن نہ ہو۔
مشہور برطانوی مصنف ای ایم فورسٹر (E.M.Forster) کی ایک شارٹ سٹوری ہے جس میں ایک نو عمر لڑکا ایک وکٹوریہ پہ بیٹھتا ہے‘ جو اُسے سیدھا اُوپر آسمانوں پہ لی جاتی ہے۔ وکٹوریہ بہشت کے قریب پہنچتی ہے تو نیچے چلتے دریاؤں سے واگنر (Wagner) کی موسیقی کی دُھنیں اُوپر ہوا میں اُٹھتی ہیں۔ پانی میں جنت کی دوشیزائیں تیر رہی ہوتی ہیں اور اُوپر آسمانوں کے دروازے پہ ہومر کا ہیرو ایکلیز (Achilles) لڑکے کا استقبال کرتا ہے اور اُسے اپنی ڈھال پہ اُٹھا لیتا ہے۔ یاد رہے کہ ہومر کی کتاب میں ایک پورا باب ایکلیز کی ڈھال کے تیار کرنے کے بارے میں ہے، کہ دیوتاؤں کا لوہار کیسے آتا ہے اور کن کن چیزوں سے وہ ڈھال تیار کرتا ہے۔
اس قصّے کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ورجینیا وولف ہو یا ای ایم فورسٹر‘ اُن کا تصورِ بہشت ایک ایسی جگہ ہے جہاں پہ سب سے بڑا اعزاز تخلیقی ذہن رکھنے والوں کا ہو گا۔
یہ نظریہ سامنے رکھیں تو لازماً بہشت کے کسی کونے میں ایسی جگہیں بھی ہوں گی‘ جہاں شام گئے محفل برپا ہو اور حافظ شیرازی، عمر خیام اور مرزا اسداللہ خان غالب بیٹھے ہوں۔ ساقی بھی اچھے ہوں اور گلاسوں کی جھنکار بھی ہو۔ میڈم نور جہاں گا رہی ہوں اور میڈم نیلو سراپائے رقص ہوں۔ نور جہاں کا ایک مشہور گانا ہے ''تیرے صدقے وے دلدارا‘‘ جس پہ ڈانس نیلو کا ہے۔ ایسے ایسے اَنگ اِس رقص میں ہیں کہ دیکھنے والا ششدر رہ جائے۔ نیلو کا تعلق شہر بھیرہ سے تھا اور وہ ایک کرسچیئن فیملی میں پیدا ہوئیں۔ بھیرہ تاریخی شہر ہے‘ لیکن آنے والے وقتوں میں وہ نیلو کی وجہ سے بھی یاد کیا جائے گا۔
جہاں ایسے شعراء اور صاحبِ محفل اکٹھے ہوں وہاں فیض احمد فیض، منیر نیازی اور حبیب جالب نہ ہوں گے؟ وہ کیسی محفل ہو گی اور کیسی جملہ بازی چل رہی ہو گی۔ پارسا اور متقی لوگ جو باہر سے گزر رہے ہوں گے کیا اُن کا دل نہ کرے گا کہ ایسی محفل میں شریک ہوں۔ جب زندگی پہ قدرے معصومیت طاری تھی تو سمجھتے تھے کہ اگلے جہاں میں عبادات کی آسانیاں ہوں گی۔ وضو کیلئے ایسا پانی ہو گا جو نہ ٹھنڈا نہ گرم لگے۔ عبادت ایسی یکسوئی والی ہو گی کہ ذہنوں میں کسی اور چیز کا خیال نہ آئے۔ ایسے خیالات سادگی اور معصومیت کے مظہر تھے۔ پھر تبلیغ پہ نکلے ہوئے زہد و تقویٰ کے محافظوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور حیرانی تب ہوتی جب اُن کی زبان سے بیان کیا گیا تصورِ بہشت ہم گناہگاروں جیسا ہوتا۔ مثال کے طور پہ ایک تبلیغ والے آتے اور حورانِ خلد کی ایسی ایسی فضیلتیں بیان کرتے اور کرتے ہی جاتے کہ ہم گناہگار دِلوں میں تھوڑا سا حیا آ جاتا۔ اُن کا مائل بہ تقویٰ کرنے کا طریقہ کچھ یوں ہوتا کہ لگتا کہ باقاعدہ لالچ دے رہے ہیں، نیک راہوں پہ چلو اور ثمر اُس کا یہ ہو گا۔ اور پھر وہی فضیلتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔
ہم جیسوں کیلئے کون سے دروازے کھلیں گے۔ تخلیق کے حوالے سے کیا کرنا تھا، گناہ کے ضمن میں بھی کوئی بڑے کارنامے نہ کر سکے۔ جہنم کی آگ تو بڑے گناہ گاروں کیلئے ہو گی، ہم جیسے تو جہنم کے کسی ادنیٰ کونے میں کسی پنجاب کی تھانہ نما جگہ کسی نیم درجے کے محتسب کے ہاتھوں بے عزت ہو رہے ہوں گے۔ یہی ہمارا انعام ہو گا۔ لیکن جب سوچتے ہیں تو ورجینیا وولف کی بات دل کو لگتی ہے۔ کیا منظر ہو کہ شعراء و ادیب، بڑے موسیقار اور گوّیے، مصور اور پتھر پہ کام کرنے والے اکٹھے ہوں۔ ہم جیسے تو وہاں نہیں ہوں گے لیکن منظر نامہ تو اچھا ہے۔ دیگر خاص محفلیں بھی ضرور ہوں گی۔ کیا آئن سٹائن سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم اپنی theory of relativity پہ کیسے پہنچے اور وہ مشہور فارمولا E=mc2 تمہارے ذہن میں کیسے آیا؟ اور کیسے تم اس نتیجے پہ پہنچے کہ روشنی یا light سے تیز چیز اس کائنات میں اور کوئی نہیں؟ ایسی محفل میں ڈاکٹر عبدالسلام نہ بیٹھے ہوں گے؟
کتنے ہی لوگ گزر ے ہیں جنہوں نے انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کیں۔ وہ کون پہلا ابن آدم تھا جس نے پہیے کی ایجاد کی؟ وہ اپنے زمانے کا آئن سٹائن ہو گا۔ اور وہ جنہوں نے کمپیوٹر بنائے، انٹرنیٹ کی ایجاد کی، ایسی چیزیں جن کے بارے میں سوچیں تو عقل دَنگ رہ جاتی ہے... بڑا اعزاز تو اُن کا ہو گا۔ اُن دروازوں کے قریب پہنچتے ہی اُن کا کس طریقے سے استقبال ہو گا۔ یہ درست ہے کہ انسان سے بڑا خطا کار اور کوئی نہیں، لیکن انسانی ذہانت کی بدولت کیا کیا چیزیں پیدا نہیں ہوئیں۔ اور انسان کا ذہن اَب بھی جستجو میں ہے۔ دنیا کا راز کیا ہے؟ یہ دنیا معرضِ وجود میں کیسے آئی اور آسمانوں میں چھپی کتنی اور کائناتیں ہیں؟ انسان دنیا میں تباہی بھی لا رہا ہے اور یہ نہیں سوچ رہا کہ اُس کی تباہ کاریوں سے اس چھوٹے سے کرہ ارض پہ کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنی ذہانت کے زور پہ نئی سے نئی راہیں بھی تلاش کر رہا ہے۔
دنیا کی تاریخ لمبی ہے لیکن انسان کی لکھی ہوئی تاریخ بہت مختصر ہے۔ پہلے انسان افریقہ کے جنگلوں سے کب نکلے اور دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرف پھیلنے لگے؟ یہ تو کل کی بات ہے۔ بڑے جانور جنہیں ہم ڈائنو سارس (dinosaurs) کہتے ہیں‘ ہمارے آنے سے پہلے دنیا میں گھومتے تھے۔ انسان نے اپنی موجودہ شکل تو کوئی لاکھ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے اختیار کی۔ اور جیسا عرض کیا کہ لکھی ہوئی تاریخ تو دو تین ہزار سال سے زیادہ پرانی نہیں‘ لیکن اس قلیل عرصے میں بھی انسان نے کیا کچھ ایجاد اور تخلیق نہیں کیا۔
ظاہر ہے جب حساب کتاب کا وقت آئے گا اور انعام و اکرام تقسیم کیے جائیں گے تو سب سے زیادہ عزت افزائی اُن کی ہو گی جنہوں نے انسانیت کیلئے کچھ کیا ہو اور جو وقت کی دھار پہ کوئی نشانی چھوڑ گئے ہوں۔ نیلو اور میڈم نور جہاں کا رتبہ ہو گا۔ ہم جیسے کس گنتی‘ قطار میں ہوں گے۔