ہندوستانی سنیماکی شروعات تب ہوئیں جب برصغیر پہ انگریز حکومت کررہے تھے ۔ بڑ افلمی سنٹر کلکتہ میں تھا اورکچھ فلمیں لاہور اوربمبئی میں بنتی تھیں۔ ہمیں یہ تومعلوم ہے کہ فلمی سکرین کے شروع کے بڑے ستارے کون تھے اورگانے والوں کے نام بھی ہمیں پتہ ہیں‘ لیکن کوئی ایسی تاریخ ہمارے سامنے نہیں ہے کہ برطانوی حکومت نے ہندوستانی سنیما کے ارتقاء یا نشوونما پہ کوئی پابندی ڈالی ۔ آثار تو یہی بتاتے ہیں کہ فلمی دنیا کو بھرپور آزادی حاصل تھی۔ برطانوی سامراج کے خلاف اول تو کوئی فلم بنتی نہیں تھی اورکوئی چھوٹی موٹی چیز ہوتی تو برطانوی حکام اُس کی زیادہ پروا نہ کرتے۔
جوش ملیح آبادی کی ایک مشہور نظم ستارہ کانپوری نے فلم ' مَن کی جیت ‘ میں گائی۔ اُس کے بول کچھ یوں ہیں ''نگری میری کب تک یونہی برباد رہے گی ‘‘۔ خاصی انقلابی قسم کی نظم ہے اور ستارہ کانپوری نے گائی بھی خوب ہے۔ لیکن نظم فلم کا حصہ بنی اوراُس پہ کوئی پابندی نہ لگی ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی ستارے سکرین پہ جلوہ گر ہوئے ... کندن لال سہگل ، خورشید ،اشوک کمار، نورجہاں یا کوئی اور... اِن سب نے فلمی دنیا میں اپنے پہلے قدم برطانوی سامراج کے دور میں رکھے۔
کلکتہ میں فلم انڈسٹری نے بہت عروج دیکھا۔ ہندوستانی فلمی موسیقی کی شروعات تب ہوئیں اورچند سالوں میں اس کا بہت ارتقاء ہوا۔ ایسے ایسے بڑے نام جیسا کہ رائے چند بورال اورکھیم چند پرکاش فلمی صنعت سے لگ بھگ 1930ء کی دہائی میں منسلک ہوئے ۔ سہگل صاحب کے پہلے گانوں کی موسیقی رائے چند بورال نے ترتیب دی ۔ اُس کے بعد کھیم چند پرکاش نے بھی سہگل کی لازوال آواز کو لازوال موسیقی بخشی ۔ نورجہاں کی دریافت ماسٹر غلام محمد نے کی اوراُنہی کی سرپرستی میں اُن کے پہلے فلمی گیت ریکارڈ ہوئے ۔ میڈم نے خود بھی اِس امر کا بارہا ذکر کیا اورایک انٹرویو میں بتایا کہ گیارہ بارہ سال کی تھیں جب ماسٹر غلام محمد نے فلم ''گل بکاؤلی‘‘ کے لئے ان کا مشہور گانا '' شالا جوانیاں مانڑیں‘‘ ریکارڈ کیا۔ میڈم کے کئی نہ بھولنے والے گیتوں کی موسیقی ماسٹر سجاد حسین نے بھی ترتیب دی ۔ آج بھی سنیں تو عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔یہ سب تب ہوا جب انگریزوں کی حکومت برصغیر پہ قائم تھی ۔
اِس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انگریزوں کا اولین دھیان اپنی حکومت پر تھا ۔ وہ چھوٹی موٹی چیزوں میں اپنا وقت بربادنہ کرتے ۔ حکومت اُن کی قائم رہے ، برطانوی جھنڈا ہندوستان پہ لہراتا رہے اورہندوستانی فوج اُن کی تابعدار اوروفادار ٹھہرے یہ اُن کی ترجیحات تھیں ۔ کون مندر وں کارُخ کرتاہے ، مسجدوں کا کیا حال ہے اورسکھ اپنے مذہب سے کتنی وابستگی رکھتے ہیں یہ انگریزوں کی ترجیحات نہیں تھیں۔ فلمی صنعت کیا زور پکڑ رہی ہے اورکیا ترقی کی راہیں تلاش کررہی ہے ، زہرا بائی کون سے گانے گارہی ہے ، راج کماری کس درد سے گاتی ہے اورسہگل صاحب کس انداز سے آرزو لکھنوی یا مرزا اسداللہ خان غالب کی غزلیں گارہے ہیں ان موضوعات کی فکر میں انگریز حکمران اپنی نیندیںحرام نہیں کرتے تھے۔
یہ درست ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں چھ لاکھ سے زائد ہندوستانیوں نے ... جن کا تعلق ہر مذہب سے تھا... برطانوی جھنڈے تلے مختلف محاذوں پہ خدمات سرانجام دیں ۔ جنگ کے اختتام پر اس ہندوستانی تعاون پر شکریہ ادا کرنے کی بجائے انگریزوں نے ہندوستانیوں پہ مزید سختیاںڈالیں ۔رُولٹ ایکٹ (Rowlatt Act)ان سختیوں کا ایک مظہر تھا۔ اس قانون کے تحت ہر سیاسی احتجاج پہ پابندی لگا دی گئی ۔ جب امرتسر میں ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا تو بریگیڈیئر ڈائر کے حکم پر اُن کے زیرِ کمان ہندوستانی فوجیوں نے گولی چلا دی اورسینکڑوں افراد جلیانوالہ باغ میں شہید ہوئے ۔ ایسی سختیاں اپنی جگہ لیکن فلمی صنعت پہ کوئی پابندی نہ تھی ، گانے بجانے پہ کوئی قدغن نہ تھا ، جہاں کہیں بازار ِحسن تھے ویسے ہی چلتے رہے اوربڑے شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں رقص وموسیقی کی محفلیں ویسے ہی جمتی رہیں ۔
یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جلیانوالہ خونریزی کے بعد لاہور میں احتجاج کا کچھ سلسلہ چل نکلا لیکن زیادہ دیر قائم نہ رہ سکاکیونکہ ہندو ، مسلمان اورسکھ ایک پلیٹ فارم پہ جمع نہ ہوسکے ۔ لاہور کی بادشاہی مسجد میں ایک جلسہ ضرور ہوا جس میں تمام مذاہب کے نمائندگان شامل تھے... یعنی ہندواور سکھ بھی بادشاہی مسجد کے اندر اُس جلسے میں شرکت کیلئے داخل ہوئے... لیکن یہ مہم آگے نہ چل سکی ۔ لاہور کے سرکردہ مسلمان رہنما احتجاج کا حصہ بننا نہیں چاہتے تھے ۔
جلیانوالہ خونریزی کے بعد لاہور کے نیلے گنبد کے سامنے بطور سزا ہندوستانیوں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ انگریز افسروں کے سامنے پیٹ کے بَل رینگتے ہوئے جائیں ‘ لیکن تاریخِ لاہور میں کوئی گواہی نہیں ملتی کہ ایسے بہیمانہ رویے کے خلاف لاہور کی کسی سرکردہ شخصیت نے آوازِ احتجاج اُٹھائی ہو۔ ہماری اشرافیہ کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کا خوب علم رہاہے ۔ اس بقاء کی جنگ کا ایک لازمی حصہ تھا کہ انگریز سامراج کے خلاف کچھ نہ کیاجائے۔
لاہور پرل کانٹیننٹل کے عین سامنے‘ جواَب ایڈمنسٹریٹر سٹاف کالج ہے‘ یہ تقسیم ہند سے پہلے پنجاب کلب ہوا کرتاتھا۔ یہ انگریز سرکار کے بڑے افسروں کیلئے مختص تھا۔ ہندوستانی وہاں کوئی نہیں جا سکتاتھا۔ باغ جناح میں جو آج کل قائداعظم لائبریری ہے یہ جم خانہ کلب تھا۔ شاید ہی کوئی ہندوستانی اِس میں داخل ہوسکتا ۔انگریز البتہ دانا حکمران تھے ۔ باغِ جناح جو تب لارنس گارڈن تھا اُس کے ایک حصے میں دیسی لوگوں کیلئے ایک کلب بنایا گیا ۔یہ کلب آج بھی کاسمو پولیٹن کلب کے نام سے زندہ اورمشہورہے ۔
یہ حال اُوپر لیول کی سوسائٹی کاتھا‘ لیکن نچلے لیول پہ ہندوستانی اپنے اپنے معیار کے مطابق کن مشاغل میں مصروف رہتے ہیں اِ س سے انگریز سرکار کو کوئی زیادہ سروکار نہ تھا۔ لاہور کا بازارِ حُسن نہ صرف قائم تھا بلکہ اُس کے دَروبام روشنیوں سے منور رہتے ۔ پنجاب کے بڑے لینڈ لارڈ‘ جو تماش بینی ذہن رکھتے تھے‘ مختلف ڈیروں پہ حاضری دیتے ۔ لاہور کی فلم انڈسٹری بھی آباد تھی ۔ کلکتہ میں شاہکار فلمیں تیار ہوتیں۔ انڈین نیشنل کانگریس اپنی جدوجہد میں مصروف تھی ۔ مسلم لیگ اپنا راستہ تلاش کررہی تھی ۔ علامہ اقبال کی شاعری کی دھوم پورے ہندوستان میں مچی ہوئی تھی ۔ ساتھ ہی ساتھ سہگل کی گائیکی کا چرچا بھی ہندوستان بھر میں پھیلا ہوا تھا ۔ماسٹر مدن بمشکل بارہ تیرہ سال کے تھے جب اُن کی آواز کے جادو نے دلوں کو موہ لیا تھا۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ گاندھی جی ایک دفعہ شملہ آئے ہوئے تھے اورماسٹر مدن کا ایک کنسرٹ بھی وہاں ہونا تھا ۔ کانگرس کے ورکروں کو ڈر یہ تھا کہ لوگ گاندھی جی کو سُننے کی بجائے ماسٹر مدن کے کنسرٹ کی طرف نہ چل پڑیں۔ کسی تاریخ یا کتاب میں البتہ یہ ذکر نہیں کہ آیا ہندوستانی سیاست اورہندوستانی سنیما کا کہیں میل ہوا ہو۔ ہمیں کوئی گواہی یہ نہیں بتاتی کہ بڑے قوم پرست لیڈر کہیں موسیقی سُننے جاتے یا نہیں ۔ تب ریڈیو ہی تھا اورہر ایک کے پاس گرامو فون نہیں ہوتاتھا ۔ کوئی شام کو ئی نیتا کیا سنتاہے یا سنتابھی ہے یانہیں، اس کا ہمارے پاس کوئی تاریخی حوالہ نہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ آزادی کی تحریک کااَثر فلمی صنعت پہ کیا تھا۔ سہگل صاحب کے کوئی سیاسی خیالات تھے یا نہیں ،ہمیں نہیں معلوم۔ نورجہاں یااُن کے شوہر شوکت حسین رضوی تحریکِ آزادی کے بارے میں کیا سوچ رکھتے تھے اِس کا ہمیں نہیں پتہ ۔ کوئی تاریخ لکھی ہی نہیں گئی ۔
جین آسٹن (Jane Austen)کے ناول پڑھ کر اُس زمانے کے انگلستان کاایک نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔ ڈِکنز (Dickens)کو پڑھیں تو انیسویں صدی کے انگلستان کے کئی زاویے عیاں ہوجاتے ہیں ۔ اپنے ملک کے بارے میں ہماری جانکاری اتنی نہیں کیونکہ یہاں کوئی جین آسٹن واقع نہیں ہوئی۔ ہاں تقسیم ہند کے بارے میں اچھی کہانیاں لکھی گئیں لیکن مجموعی طورپہ ہمارے ماضی کے بہت سے دریچوں پہ وہ روشنی نہیں پڑی جو پڑنی چاہیے تھی۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ پڑھیں تو لگتا ہے کہ اُس کا سیاست یا سوشل حالات سے کبھی کوئی واسطہ رہاہی نہیں۔