وہی ہوا جس کا خیال ذہن میں آ رہا تھا۔ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ کے مطابق شرجیل میمن کے کمرے سے جو دو بوتلیں برآمد ہوئیں اُن میں سے ایک میں زیتون کا تیل اور دوسری سے شہد نکلا۔ کمرے پہ چھاپہ بھی کوئی عام چھاپہ نہ تھا بلکہ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں ہوا تھا۔ لیکن انہونی جو ہونی تھی وہ ہو گئی۔ بوتلوں میں سے وہ چیز نہ نکلی جس کا تصور کیا جا رہا تھا۔ برآمد ہونے والی اشیا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی پی رہنما صحت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ ہر معاشرے اور کلچر میں زیتون کے تیل اور شہد کا استعمال مفید صحت سمجھا جاتا ہے۔
اِس سے پہلے پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما علی امین گنڈا پور کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اُن کی گاڑی سے ایک بوتل برآمد ہوئی جس کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیل گئیں۔ اُن کا موقف تھا کہ کالی بوتل میں چھوٹی مکھی کا شہد ہے اور جانچ پڑتال کے بعد ایسا ہی پایا گیا۔
ہمارا ملک مسائلستان تو ہے ہی لیکن کئی مسئلے ہم نے ویسے ہی پیدا کر لئے ہیں۔ شہد کے حوالے سے مسئلہ اِسی زمرے میں آتا ہے۔ شہد کے استعمال پہ پابندی ایک بار نہیں متعدد بار لگی۔ لیکن جیسے واقفانِ حال اور صاحبانِ رائے بخوبی جانتے ہیں مخصوص شہد کا استعمال مملکتِ خداداد کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مخصوص شہد کی دستیابی قانونی ذریعوں کی بجائے غیر قانونی طریقوں سے ہوتی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ امریکہ میں 1920ء کی دہائی میں آئینی ترمیم پاس ہوئی اور مخصوص شہد پہ پابندی عائد کر دی گئی۔ شہد کے استعمال پر ذرہ برابر فرق نہ پڑا۔ جنہوں نے مخصوص شہد استعمال کرنی تھی‘ وہ کرتے رہے لیکن پردوں اور بند دروازوں کے پیچھے۔ نتیجتاً جو پیسہ بطور ٹیکس سرکار کے خزانے میں جانا چاہیے تھا وہ سمگلروں اور غیر قانونی ڈیلروں کی جیبوں میں گیا۔ امریکہ کا مشہور گینگسٹر ایل کپون (Al Capone) اِسی صورتحال کی پیداوار تھا۔ مخصوص شہد کی سمگلنگ کی بنیاد پر اُس کی ایک جرائم پیشہ سلطنت قائم ہو گئی۔ شہرِ شکاگو (Chicago) کا وہ بے تاج بادشاہ تھا۔ اَن گنت قتل کئے۔ جرائم سے ہاتھ بھرے پڑے تھے لیکن پولیس اُس کے قریب بھی پھٹک نہ سکتی تھی کیونکہ کوئی ثبوت ہاتھ نہ آتا۔ آخر کار وہ ٹیکس چوری کے الزام میں دھرے گئے نہ کہ کسی اور جرم میں۔
یہاں بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہماری جوانی کے ایام میں مخصوص شہد کے استعمال پہ کوئی پابندی نہ تھی۔ لیکن اِس کا استعمال اتنا پھیلا ہوا نہ تھا۔ شوق رکھنے والے اصحاب ہوٹلوں اور کلبوں کا رُخ کرتے اور شوقِ شہد وہاں پورا کرتے۔ تب یہ روایت نہ تھی کہ گھروں کی الماریوں میں مخصوص شہد کی بوتلیں رکھی جائیں کیونکہ ایسی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ دل میں خلش پیدا ہوتی تو راہِ میکدہ لے لیتے۔ پابندی عائد ہوئی تو جیسے سارا معاشرہ ہی بگڑ کے رہ گیا۔ کونے کونے میں، ہر چھوٹے بڑے شہر میں، ڈیلر حضرات پیدا ہوئے اور ترسیلِ شہد اور اُس کا استعمال بھلے وَقتوں سے کہیں زیادہ ہو گیا۔ امریکہ میں تو کم از کم ایل کپون اور اُس کے کارندے شہد میں ملاوٹ نہ کرتے۔ زیادہ تر شہد کینیڈین بارڈر کے اُس پار سے آتا اور بلا ملاوٹ ہوتا۔ مملکتِ خداداد میں حالت یہ ہے کہ دو نمبر شہد کی فراوانی ہو گئی ہے۔ جو شہد مری بروری میں تیار ہوتا ہے وہ بھی صحیح نہیں ملتا۔ بوتلیں وہی ہوتی ہیں جو مری بروری والے استعمال کرتے ہیں اور اُوپر چسپاں لیبل بھی وہی۔ لیکن اندر جو چیز ڈالی جاتی ہے اُس کے دیرپا اثرات کسی مہلک زہر سے کم نہیں۔ پتہ نہیں کیا کچھ ڈالا جاتا ہے۔ لیکن قوم کی پیاس اتنی بڑھ چکی ہے کہ اِس دو نمبر شہد کی فراوانی کے باوجود ڈیمانڈ پوری نہیں ہو پاتی۔
نقصان کس کا ہے؟ شوقین مزاج لوگوںکے جگروں کا کیونکہ یہ دو نمبر شہد پہلا حملہ انسانوں کے جگر پر کرتا ہے۔ دوسرا حملہ سرکار کے خزانے پر۔ جو پیسہ ٹیکس کی مد میں سرکار کو جانا چاہیے اُس سے فیضیاب ڈیلر حضرات اور سمگلر قسم کے شریف زادے ہوتے ہیں۔ لیکن بھرم قائم ہے کہ ہم اسلامی ملک ہیں، اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور مملکت میں ممنوع شہد پہ مکمل پابندی عائد ہے۔ اِس صورتحال یا یوں کہیے اِس منافقت کا سب کو علم ہے لیکن سب آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ پولیس کے البتہ وارے نیارے ہیں‘ کیونکہ پابندی بھی ہے اور استعمالِ شہد بھی زوروں پہ‘ تو کہیں نہ کہیں لا چار اصحابِ شوق کسی ناکے پہ یا کہیں اور پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر لین دین کرنا پڑتا ہے اور پولیس کا فائدہ ٹھہرتا ہے۔ غریب اور لاچار زیادہ مارے جاتے ہیں۔ تگڑے لوگوں کو اول تو کوئی پوچھتا نہیں، اُن کے گھروں پہ کبھی چھاپے نہیں پڑتے۔ لیکن کہیں ایسی نازک صورتحال پیدا ہو جائے کہ کوئی تگڑا آدمی قانون کی زد میں آئے تو پھر ایسا ہی معجزہ رونما ہوتا ہے جیسا کہ شرجیل میمن کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔ بوتل برآمد بھی ہو تو اُس میں نکلتا زیتون کا تیل اور شہد ہے۔
مکروہ اور تباہ کن ملاوٹ کا سلسلہ صرف دیسی شہد تک محدود نہیں۔ جو نسلی شہد سمجھی جاتی ہے اور باہر سے آتی ہے وہ بھی اِس حرکت سے بچ نہیں سکی۔ اَب تو حال یہ ہے کہ آپ آٹھ دس ہزار ایک بوتل امپورٹڈ شہد کیلئے کسی ڈیلر کے ہاتھ میں تھمائیں تو پھر بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ شہد واقعی اصلی ہے۔ وہ مخصوص شہد جسے عرف عام میں بلیک لیبل کہتے ہیں اُس میں تو اِتنی دو نمبری ہو چکی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اِس صورتحال کے نتیجے میں ہم جیسے پرانے لوگ مائلِ حب الوطنی ہو گئے ہیں اور تقریباً باہر کی شہد کا استعمال چھوڑ دیا ہے کیونکہ اعتبار ہی اِن چیزوں سے اُٹھ گیا ہے۔
یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم نے اِس مسئلے کا کرنا کیا ہے۔ ایک طرف تو پابندی اور شرعی حوالے ہیں‘ دوسری طرف زمینی حقائق اور اصل صورتحال۔ یہ کوئی تدریس نہیں کر رہا کہ شہد کے استعمال کا پرچار کیا جائے۔ ہرگز نہیں۔ لیکن قوم اور خزانے کی تباہی جو اِس پابندی کے نام پہ ہو رہی ہے اُس کا تو کچھ تدارک ہونا چاہیے۔ کیا ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، امارات، عراق، شام، مصر، مراکش اور تونیشیا اسلامی ممالک نہیں ہیں؟ وہاں مسلمان نہیں پائے جاتے؟ لیکن اِن تمام ممالک میں وہ قوانین رائج نہیں جو ہم نے اپنے اُوپر ٹھونس رکھے ہیں۔ وہاں بھی بڑے بڑے عالم دین ہیں۔ بڑی بڑی اسلامی درسگاہیں ہیں‘ جن سے ہزاروں طلبا فیض یاب ہوتے ہیں۔ ترکی کے طیب اردوان اور اُن کی حکمران جماعت اسلامی ذہن رکھتے ہیں۔ لیکن وہاں وہ پابندیاں نہیں جو یہاں رائج ہیں۔
اسلام دل کی بات ہے۔ جو مسلمان ہے ہر حال میں مسلمان رہتا ہے۔ جو مسلمان امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں وہ دورانِ رمضان روزوں کے پابند رہتے ہیں۔ نائٹ کلب اور میکدے کھلے ہوتے ہیں لیکن روزے دار کے روزے پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوران سفر ماہ رمضان میں غیر ملکی ائیر لائنوں میں ایک طرف شراب نوشی چل رہی ہوتی ہے لیکن جس مومن کا روزہ ہوتا ہے وہ اپنے روزے پہ قائم رہتا ہے۔ شاید اللہ کی نظر میں ایسا روزہ زیادہ قبول ہو۔ ہم نے ہر چیز بزورِ ڈنڈا عائد کی ہوئی ہے۔ لیکن اُس کا نتیجہ کیا ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ زیادہ نیک اور صاف ہو گیا ہے؟ وہی گندگی، وہی لاقانونیت اور کرپشن لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تماشہ کہ ہم اسلامی ملک ہیں۔
بہرحال مسئلہ وہی ہے۔ شہد کا مسئلہ جو سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے اور جس کے معاشرے پہ خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اُسے حل کون کرے گا؟ علمائے کرام تو اپنے مخصوص ڈھول بجاتے رہیں گے۔ اصل معاشرے کے مسائل سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں۔ سیاستدانوں میں ہمت نہیں۔ ایسے کسی مسئلے کو چھیڑ ہی نہیں سکتے۔ لیکن دعا ہے کہ کوئی تو آگے آئے اور اِس صورتحال میں بہتری لائے۔ قانون واپس نہیں بھی لینا تو اُس کے عملدرآمد میں نرمی اور گنجائش پیدا کی جائے۔ کچھ تربیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہو۔ جرائم پہ نظر رکھیں، یہ ناکوں پہ غریبوں کو دھر لینا اور سانسیں سونگھتے رہنے والی روش، اِس میں تو کچھ کمی آئے۔